باب: کون سی چیز محفوظ ہوتی ہے اور کون سی غیر محفوظ؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
(Chapter: Stealing Something that Is Kept In A Protected Place)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4891.
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کرلی۔ اے نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا۔ اس نے حضرت ام سلمہ ؓ کے ہاں پناہ حاصل کرلی۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اگر (چوری کرنے والی ) فاطمہ بنت محمد (ﷺ) بھی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔“ پھر اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
تشریح:
(1) فاطمہ بنت محمد“ یہ آپ نے کلام میں زور پیدا کرنے کے لیے فرمایا ورنہ کہاں خانوادہ رسول اور کہاں چوری ؟ معاذ اللہ۔ اتفاقا اس چور عورت کا نام بھی فاطمہ تھا۔ فاطمہ بنت اسود بن عبدالاسد۔ (2) ظاہرا تو یہ اور سابقہ روایات ایک ہی واقعہ بیان کرتی ہیں۔ اس صورت میں چوری سے مراد عاریہ کی واپسی سے انکار ہی ہے کیونکہ عاریہ کی واپسی سے انکار کو مجازا چوری کہا جاسکتا ہے مگر چوری کو کسی بھی لحاظ سے عاریہ کی واپسی سے انکار نہیں کہا جاسکتا۔ یا پھر الگ واقعہ ماننا ہوگا مگر یہ مشکل ہے۔ محدثین نے اسے ایک ہی واقعہ قرار دیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4905
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4906
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4895
تمہید کتاب
چوری انتہائی قبیح عمل ہے جس کی کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں یہ قابل سزا عمل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل کے یورپی قوانین ( جو یورپ کے علاوہ ان ممالک میں رائج ہیں جہاں ان کی حکومت رہی ہے ) میں اس کی سزا قید اور جرمانہ ہے ۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ آج کل کے ’’ روشن خیال ‘‘ حضرات ہاتھ کاٹنے کی سزا کو وحشیانہ اور ظالمانہ کہتے ہیں کہ اس طرح معاشرے میں معذور افراد زیادہ ہوں گے اور وہ معاشرے اور حکومت کے لیے بوجھ بن جائیں گے ، حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ ایسی سزا ہے جو چوری کو معاشرے سے تقریبا کالعدم کردے گی ۔صرف چند ہاتھ کاٹنے سے اگر معاشرہ چوری سے پاک ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ۔ ان چند افراد کا بوجھ حکومت یا معاشرے کے لیے اٹھانا ان کروڑوں اربوں کے اخراجات سے بہت ہلکا ہے جو پولیس اور جیلوں پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جب کہ جیلوں میں چھوٹے چور بڑے چور بنتے ہیں ۔ وہاں جرائم پیشہ افراد اکھٹے ہو جاتے ہیں جس سے جرائم کے منصوبے بنتے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ اسلامی سزا کے نفاذ سے ’’ ہتھ کٹے ‘‘ افراد کی کثرت ہوتی ہے ، جہالت ہے ۔ چند ہاتھ کٹنے سے چوری ختم ہو جائے گی ۔ پولیس اور عدالتوں کی توسیع کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ شہر میں ایک آدھ ’’ ہتھ کٹا ‘‘ فرد سارے شہر کے لیے عبرت بنا رہے گا ۔ اس سے کہیں زیادہ افراد کے ہاتھ حادثات میں کٹ جاتے ہیں لہذا یہ صرف پروپیگنڈا ہے کہ اس سزا سے ’’ ہتھ کٹوں ‘‘ کا سیلاب آجائے گا ۔سعودی عرب جہاں اسلامی سزائیں سختی سے نافذ ہیں ، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے ۔ وہاں کوئی فرد ہتھ کٹا نظر نہیں آتا مگر چوری کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ کروڑوں کی مالیت کا سامان بغیر کسی محافظ کے پڑا رہتا ہے اور لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں ۔ زیورات سے لدی پھندی عورتیں صحراوں میں ہزاروں میلوں کا سفر کرتی ہیں مگر کسی کو نظر بد کی بھی جرات نہیں ہوتی حالانکہ اسلامی سزا کے نفاذ سے قبل دن دہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے ۔ اور لوگ حاجیوں کی موجودگی میں ان کا سامان اٹھا کر بھاگ جایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل امریکہ وغیرہ میں حال ہے ، باوجود اس کے کہ وہاں جیلیں بھری پڑی ہیں مگر چوری ، ڈاکے روز روز بڑھ رہے ہیں۔اسلام نے چوری کی یہ سزا اس لیے رکھی ہے کہ چوری بڑھتے بڑھتے ڈاکا ڈالنے کی عادت ڈالتی ہے ۔ڈاکے میں بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں اور جبرا عصمتیں لوٹی جاتی ہیں ۔ گویا چور آہستہ آہستہ ڈاکو ، قاتل اور زنا بالجر کا مرتکب بن جاتا ہے ، لہذا ابتدا ہی میں اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے تاکہ وہ خود بھی پہلے قدم پر ہی رک جائے بلکہ واپس پلٹ جائے اور معاشرہ بھی ڈاکوؤں ، بے گنا ہ قتل اور زنا بالجر جیسے خوف ناک اور قبیح جرائم سے محفوظ رہ سکے ۔ بتائیے ! اس سزا سے چور اور معاشرے کو فائدہ حاصل ہوا یا نقصان ؟ جب کہ قید اور جرمانے کی سزا ان جرائم میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ پہلی چوری کا جرمانہ اس سے بڑی چوری کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے اور جیل جرائم کی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے ۔جرائم تبھی ختم ہوں گے جب ان پر کڑی اور بے لاگ اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں گی کیونکہ وہ فطرت کے عین مطابق ہیں ۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کرلی۔ اے نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا۔ اس نے حضرت ام سلمہ ؓ کے ہاں پناہ حاصل کرلی۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اگر (چوری کرنے والی ) فاطمہ بنت محمد (ﷺ) بھی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔“ پھر اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) فاطمہ بنت محمد“ یہ آپ نے کلام میں زور پیدا کرنے کے لیے فرمایا ورنہ کہاں خانوادہ رسول اور کہاں چوری ؟ معاذ اللہ۔ اتفاقا اس چور عورت کا نام بھی فاطمہ تھا۔ فاطمہ بنت اسود بن عبدالاسد۔ (2) ظاہرا تو یہ اور سابقہ روایات ایک ہی واقعہ بیان کرتی ہیں۔ اس صورت میں چوری سے مراد عاریہ کی واپسی سے انکار ہی ہے کیونکہ عاریہ کی واپسی سے انکار کو مجازا چوری کہا جاسکتا ہے مگر چوری کو کسی بھی لحاظ سے عاریہ کی واپسی سے انکار نہیں کہا جاسکتا۔ یا پھر الگ واقعہ ماننا ہوگا مگر یہ مشکل ہے۔ محدثین نے اسے ایک ہی واقعہ قرار دیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر ؓ کہتے ہیں کہ بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی، چنانچہ اسے نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا، اس نے ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کی پناہ لی تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”اگر فاطمہ بنت محمد بھی ہوتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا“، چنانچہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Jabir that: a woman from Banu Makhzum stole (something), and she was brought to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم). She sought the protection of Umm Salamah, but the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "If Fatimah bint Muhammad were to steal, I would cut off her hand." And he ordered that her hand be cut off.