Sunan-nasai:
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
(Chapter: Things for which the hand may not be cut off)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4974.
حضرت جابر ؓ نے فرمایا: خیانت کرنے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ ابو عبد الرحمٰن (امام نسائی رحمہ اللہ) نے فرمایا: عیسیٰ بن یونس، فضل بن موسیٰ، ابن وہب، محمد بن ربیعہ، مخلد بن یزید اور سلمہ بن سعید جو کہ بصری اور ثقہ ہیں (اور جن کے بارے میں محمد بن عثمان) ابن ابو صفوان نے کہا ہے کہ وہ (سلمہ بن سعید) اپنے زمانے کے بہترین شخص تھے، ان سب نےابن جریج سے یہ (مذکورہ) روایت بیان کی ہے لیکن ان (چھ جلیل القدر اور ثقہ اہل علم میں سے کسی ایک نے بھی ”حدثنی ابو الزبیر“ نہیں کہا۔ اور میرا نہیں خیال کہ اس (ابن جریج) نے ابو الزبیر سے سنا ہو۔ واللہ أعلم۔
تشریح:
امام نسائی رحمہ اللہ کے کلام کا ما حاصل یہ ہے کہ یہ روایت سندا منقطع ہے۔ انھوں نے ابو الزبیر سےابن جریج کے، یہ روایت سننے کی نفی کی ہے۔ امام نسائی کا کہنا ہے کہ مذکورہ چھ جید اہل علم نے ابن جریج سے یہ روایت تو بیان کی ہے لیکن ان میں سےکسی نے بھی ابو الزبیر سے ان کے سماع (سننے ) کی تصریح نہیں کی، اس لیے یہ روایت منقطع، یعنی ضغیف ہے۔یہ ہے امام نسائی رحمہ اللہ کا رجحان لیکن مذکورہ چھ اہل علم کا ابن جریج کے ابو الزبیر سے مذکورہ حدیث کے سماع کی تصریح سے ان محدثین کےاثبات تصریح کی نفی نہیں ہو سکتی جنھوں نے ابن جریج کے ابو الزبیر سے، مذکورہ حدیث سننے کی تصریح کی ہے۔ ویسے بھی اثبات کرنے والا نفی کرنے والے سےمقدم ہوتا ہے کیونکہ جس شخص کو بات یاد ہوتی ہے وہ اس شخص کے مقابلے میں حجت ہوتا ہےجسے بات یاد نہیں ہوتی۔ یہ مسلمہ اصول ہے۔ محقق العصر شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے صحیح سند سے ابن جریج کے ابو الزبیر سےسماع کی تصریح کی ہے جیسا کہ پہلے بھی ارشاد کیا گیا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي للأ تیوبي: ۹۹/۳۷۔۱۰۱،والمصنف لعبد الرزاق : ۲۰۶/۱۰) مصنف عبد الرزاق کے الفاظ توسماع میں بالکل واضح اور دوٹوک ہیں جو یہ ہیں : عن ابن جریج، قال: قال لي أبو الزبیر، یعنی ابن جریج نے کہا ہےکہ مجھے ابو الزبیر نے کہا، پھر مذکورہ روایت بیان کی، لہذا جب صحیح طور پر تحدیث وسماع کی صراحت موجود ہے تو یقینا اسے ہی تر جیح حاصل ہو گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4988
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4989
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4977
تمہید کتاب
چوری انتہائی قبیح عمل ہے جس کی کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں یہ قابل سزا عمل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل کے یورپی قوانین ( جو یورپ کے علاوہ ان ممالک میں رائج ہیں جہاں ان کی حکومت رہی ہے ) میں اس کی سزا قید اور جرمانہ ہے ۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ آج کل کے ’’ روشن خیال ‘‘ حضرات ہاتھ کاٹنے کی سزا کو وحشیانہ اور ظالمانہ کہتے ہیں کہ اس طرح معاشرے میں معذور افراد زیادہ ہوں گے اور وہ معاشرے اور حکومت کے لیے بوجھ بن جائیں گے ، حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ ایسی سزا ہے جو چوری کو معاشرے سے تقریبا کالعدم کردے گی ۔صرف چند ہاتھ کاٹنے سے اگر معاشرہ چوری سے پاک ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ۔ ان چند افراد کا بوجھ حکومت یا معاشرے کے لیے اٹھانا ان کروڑوں اربوں کے اخراجات سے بہت ہلکا ہے جو پولیس اور جیلوں پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جب کہ جیلوں میں چھوٹے چور بڑے چور بنتے ہیں ۔ وہاں جرائم پیشہ افراد اکھٹے ہو جاتے ہیں جس سے جرائم کے منصوبے بنتے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ اسلامی سزا کے نفاذ سے ’’ ہتھ کٹے ‘‘ افراد کی کثرت ہوتی ہے ، جہالت ہے ۔ چند ہاتھ کٹنے سے چوری ختم ہو جائے گی ۔ پولیس اور عدالتوں کی توسیع کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ شہر میں ایک آدھ ’’ ہتھ کٹا ‘‘ فرد سارے شہر کے لیے عبرت بنا رہے گا ۔ اس سے کہیں زیادہ افراد کے ہاتھ حادثات میں کٹ جاتے ہیں لہذا یہ صرف پروپیگنڈا ہے کہ اس سزا سے ’’ ہتھ کٹوں ‘‘ کا سیلاب آجائے گا ۔سعودی عرب جہاں اسلامی سزائیں سختی سے نافذ ہیں ، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے ۔ وہاں کوئی فرد ہتھ کٹا نظر نہیں آتا مگر چوری کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ کروڑوں کی مالیت کا سامان بغیر کسی محافظ کے پڑا رہتا ہے اور لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں ۔ زیورات سے لدی پھندی عورتیں صحراوں میں ہزاروں میلوں کا سفر کرتی ہیں مگر کسی کو نظر بد کی بھی جرات نہیں ہوتی حالانکہ اسلامی سزا کے نفاذ سے قبل دن دہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے ۔ اور لوگ حاجیوں کی موجودگی میں ان کا سامان اٹھا کر بھاگ جایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل امریکہ وغیرہ میں حال ہے ، باوجود اس کے کہ وہاں جیلیں بھری پڑی ہیں مگر چوری ، ڈاکے روز روز بڑھ رہے ہیں۔اسلام نے چوری کی یہ سزا اس لیے رکھی ہے کہ چوری بڑھتے بڑھتے ڈاکا ڈالنے کی عادت ڈالتی ہے ۔ڈاکے میں بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں اور جبرا عصمتیں لوٹی جاتی ہیں ۔ گویا چور آہستہ آہستہ ڈاکو ، قاتل اور زنا بالجر کا مرتکب بن جاتا ہے ، لہذا ابتدا ہی میں اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے تاکہ وہ خود بھی پہلے قدم پر ہی رک جائے بلکہ واپس پلٹ جائے اور معاشرہ بھی ڈاکوؤں ، بے گنا ہ قتل اور زنا بالجر جیسے خوف ناک اور قبیح جرائم سے محفوظ رہ سکے ۔ بتائیے ! اس سزا سے چور اور معاشرے کو فائدہ حاصل ہوا یا نقصان ؟ جب کہ قید اور جرمانے کی سزا ان جرائم میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ پہلی چوری کا جرمانہ اس سے بڑی چوری کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے اور جیل جرائم کی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے ۔جرائم تبھی ختم ہوں گے جب ان پر کڑی اور بے لاگ اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں گی کیونکہ وہ فطرت کے عین مطابق ہیں ۔
حضرت جابر ؓ نے فرمایا: خیانت کرنے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ ابو عبد الرحمٰن (امام نسائی رحمہ اللہ) نے فرمایا: عیسیٰ بن یونس، فضل بن موسیٰ، ابن وہب، محمد بن ربیعہ، مخلد بن یزید اور سلمہ بن سعید جو کہ بصری اور ثقہ ہیں (اور جن کے بارے میں محمد بن عثمان) ابن ابو صفوان نے کہا ہے کہ وہ (سلمہ بن سعید) اپنے زمانے کے بہترین شخص تھے، ان سب نےابن جریج سے یہ (مذکورہ) روایت بیان کی ہے لیکن ان (چھ جلیل القدر اور ثقہ اہل علم میں سے کسی ایک نے بھی ”حدثنی ابو الزبیر“ نہیں کہا۔ اور میرا نہیں خیال کہ اس (ابن جریج) نے ابو الزبیر سے سنا ہو۔ واللہ أعلم۔
حدیث حاشیہ:
امام نسائی رحمہ اللہ کے کلام کا ما حاصل یہ ہے کہ یہ روایت سندا منقطع ہے۔ انھوں نے ابو الزبیر سےابن جریج کے، یہ روایت سننے کی نفی کی ہے۔ امام نسائی کا کہنا ہے کہ مذکورہ چھ جید اہل علم نے ابن جریج سے یہ روایت تو بیان کی ہے لیکن ان میں سےکسی نے بھی ابو الزبیر سے ان کے سماع (سننے ) کی تصریح نہیں کی، اس لیے یہ روایت منقطع، یعنی ضغیف ہے۔یہ ہے امام نسائی رحمہ اللہ کا رجحان لیکن مذکورہ چھ اہل علم کا ابن جریج کے ابو الزبیر سے مذکورہ حدیث کے سماع کی تصریح سے ان محدثین کےاثبات تصریح کی نفی نہیں ہو سکتی جنھوں نے ابن جریج کے ابو الزبیر سے، مذکورہ حدیث سننے کی تصریح کی ہے۔ ویسے بھی اثبات کرنے والا نفی کرنے والے سےمقدم ہوتا ہے کیونکہ جس شخص کو بات یاد ہوتی ہے وہ اس شخص کے مقابلے میں حجت ہوتا ہےجسے بات یاد نہیں ہوتی۔ یہ مسلمہ اصول ہے۔ محقق العصر شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے صحیح سند سے ابن جریج کے ابو الزبیر سےسماع کی تصریح کی ہے جیسا کہ پہلے بھی ارشاد کیا گیا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي للأ تیوبي: ۹۹/۳۷۔۱۰۱،والمصنف لعبد الرزاق : ۲۰۶/۱۰) مصنف عبد الرزاق کے الفاظ توسماع میں بالکل واضح اور دوٹوک ہیں جو یہ ہیں : عن ابن جریج، قال: قال لي أبو الزبیر، یعنی ابن جریج نے کہا ہےکہ مجھے ابو الزبیر نے کہا، پھر مذکورہ روایت بیان کی، لہذا جب صحیح طور پر تحدیث وسماع کی صراحت موجود ہے تو یقینا اسے ہی تر جیح حاصل ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر ؓ کہتے ہیں کہ کسی خیانت کرنے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: اس حدیث کو ابن جریج سے: عیسیٰ بن یونس، فضل بن موسیٰ، ابن وہب، محمد بن ربیعہ، مخلد بن یزید اور سلمہ بن سعید، یہ بصریٰ ہیں اور ثقہ ہیں، نے روایت کیا ہے۔ ابن ابی صفوان کہتے ہیں- اور یہ سب اپنے زمانے کے سب سے بہتر آدمی تھے: ان میں سے کسی نے «حدثنی ابوالزبیر» یعنی ”مجھ سے ابوالزبیر نے بیان کیا“ نہیں کہا۔ اور میرا خیال ہے ان میں سے کسی نے ابوالزبیر سے اسے سنا بھی نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : لیکن اگلی سند کے ”مغیرہ بن مسلم“ کا ابوالزبیر سے سماع ثابت ہے، نیز اس حدیث کے دیگر صحیح شواہد بھی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Hajjaj from Ibn Juraij from Abu Az-Zubair, that Jabir said: "The hands of the traitor is not to be cut off." (Sahih) Abu 'Abdur-Rahman (An-Nasai) said: This Hadith had been reported from Ibn Juraij by 'Isa bin Yunus, Al-Fadl bin Musa, Ibn Wahb, Muhammad bin Rabiah, Makhlad bin Yazid, and Salamah bin Saeed from Al-Basrah, who is trustworthy and Ibn Abi Safwan said: "He was the best of the people of his time" and not one of them said: "Abu Az-Zubair narrated to me" and I do not think that he heard it from Abu Az-Zubair, and Allah knows best.