Sunan-nasai:
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
(Chapter: Cutting (The thief's hand off) while traveling)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4980.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی غلام چوری کر لے تو اسے بیچ دو اگر چہ نصف قیمت پر بکے۔“ ابو عبدالرحمٰن (امام نسائی)ؓ بیان کرتے ہیں کہ (حدیث کا روای) عمر بن ابوسلمہ حدیث میں قوی نہیں۔
تشریح:
(1) ”چوری کرلے“ یعنی مالک کی چوری کرے چونکہ کسی دوسرے کی چوری کرے گا تواس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ مالک کی چوری میں ہاتھ کاٹنا جائز نہیں کیونکہ وہ بھی گھر میں رہتا ہے۔ گویا کہ وہ گھر کا ایک فرد ہے اور گھر کے افراد پر گھر سے چوری کی بنا پرحد نہیں لگائی جاتی۔ اس حدیث کی باب سے مناسبت بھی یہی ہے کہ جس طرح گھر کےفرد یاغلام پر چوری کی بنا پر حد نافذ نہیں ہوتی، اسی طرح سرحدی علاقے کے سفر کے دوران میں بھی چوری کی حد نہیں لگائی جائے گی، یعنی یہ بھی اس کی ایک نظیر ہے اگرچہ فرق بھی ہے کہ سفر سے واپسی پرتو حد لگائی جائے گی مگر غلام پر گھر کی چوری میں بالکل حد نہیں لگائی جائے گی۔ البتہ اسے کوئی اور سزا دی جائے گی، مثلا: کوڑے لگائے جائیں یا قید وغیرہ کیا جائے۔ (2) ”بیچ دو“ کیونکہ اس کو چوری کی عادت پڑ گئی ہے، لہذا اس کا گھر میں رہنا اب ٹھیک نہیں۔ یہ مسئلہ بار بار پیدا ہو گا۔ بیج دینا ہی بہتر ہے۔ ممکن ہے دوسرے گھر کے حالات اس کی یہ عادت چھڑا دی لیکن بیچتے وقت اس کا یہ عیب خریدنے والے کو صاف بتایا جائے تاکہ وہ دھوکے میں نہ رہے ورنہ گناہ ہو گا، نیز سودا واپس بھی ہو سکتا ہے۔ (3) ”نصف قیمت“ عربی میں لفظ ”نش“ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنیٰ نصف اوقیہ ہوتے ہیں اور مطلق نصف بھی۔ نصف اوقیہ تو بیس درہم کا ہوتا ہے۔ مطلق نصف سے مراد نصف درہم بھی ہو سکتا ہے اور نصف قیمت بھی۔ تینون معانی ممکن ہیں۔ واللہ أعلم (4) بیچنے کا حکم ضروری نہیں بلکہ بہتر ہے کیونکہ کسی کو اس کا غلام بیچنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اس کی اپنی مرضی پر موقوف ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4994
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4995
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4983
تمہید کتاب
چوری انتہائی قبیح عمل ہے جس کی کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں یہ قابل سزا عمل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل کے یورپی قوانین ( جو یورپ کے علاوہ ان ممالک میں رائج ہیں جہاں ان کی حکومت رہی ہے ) میں اس کی سزا قید اور جرمانہ ہے ۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ آج کل کے ’’ روشن خیال ‘‘ حضرات ہاتھ کاٹنے کی سزا کو وحشیانہ اور ظالمانہ کہتے ہیں کہ اس طرح معاشرے میں معذور افراد زیادہ ہوں گے اور وہ معاشرے اور حکومت کے لیے بوجھ بن جائیں گے ، حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ ایسی سزا ہے جو چوری کو معاشرے سے تقریبا کالعدم کردے گی ۔صرف چند ہاتھ کاٹنے سے اگر معاشرہ چوری سے پاک ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ۔ ان چند افراد کا بوجھ حکومت یا معاشرے کے لیے اٹھانا ان کروڑوں اربوں کے اخراجات سے بہت ہلکا ہے جو پولیس اور جیلوں پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جب کہ جیلوں میں چھوٹے چور بڑے چور بنتے ہیں ۔ وہاں جرائم پیشہ افراد اکھٹے ہو جاتے ہیں جس سے جرائم کے منصوبے بنتے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ اسلامی سزا کے نفاذ سے ’’ ہتھ کٹے ‘‘ افراد کی کثرت ہوتی ہے ، جہالت ہے ۔ چند ہاتھ کٹنے سے چوری ختم ہو جائے گی ۔ پولیس اور عدالتوں کی توسیع کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ شہر میں ایک آدھ ’’ ہتھ کٹا ‘‘ فرد سارے شہر کے لیے عبرت بنا رہے گا ۔ اس سے کہیں زیادہ افراد کے ہاتھ حادثات میں کٹ جاتے ہیں لہذا یہ صرف پروپیگنڈا ہے کہ اس سزا سے ’’ ہتھ کٹوں ‘‘ کا سیلاب آجائے گا ۔سعودی عرب جہاں اسلامی سزائیں سختی سے نافذ ہیں ، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے ۔ وہاں کوئی فرد ہتھ کٹا نظر نہیں آتا مگر چوری کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ کروڑوں کی مالیت کا سامان بغیر کسی محافظ کے پڑا رہتا ہے اور لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں ۔ زیورات سے لدی پھندی عورتیں صحراوں میں ہزاروں میلوں کا سفر کرتی ہیں مگر کسی کو نظر بد کی بھی جرات نہیں ہوتی حالانکہ اسلامی سزا کے نفاذ سے قبل دن دہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے ۔ اور لوگ حاجیوں کی موجودگی میں ان کا سامان اٹھا کر بھاگ جایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل امریکہ وغیرہ میں حال ہے ، باوجود اس کے کہ وہاں جیلیں بھری پڑی ہیں مگر چوری ، ڈاکے روز روز بڑھ رہے ہیں۔اسلام نے چوری کی یہ سزا اس لیے رکھی ہے کہ چوری بڑھتے بڑھتے ڈاکا ڈالنے کی عادت ڈالتی ہے ۔ڈاکے میں بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں اور جبرا عصمتیں لوٹی جاتی ہیں ۔ گویا چور آہستہ آہستہ ڈاکو ، قاتل اور زنا بالجر کا مرتکب بن جاتا ہے ، لہذا ابتدا ہی میں اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے تاکہ وہ خود بھی پہلے قدم پر ہی رک جائے بلکہ واپس پلٹ جائے اور معاشرہ بھی ڈاکوؤں ، بے گنا ہ قتل اور زنا بالجر جیسے خوف ناک اور قبیح جرائم سے محفوظ رہ سکے ۔ بتائیے ! اس سزا سے چور اور معاشرے کو فائدہ حاصل ہوا یا نقصان ؟ جب کہ قید اور جرمانے کی سزا ان جرائم میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ پہلی چوری کا جرمانہ اس سے بڑی چوری کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے اور جیل جرائم کی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے ۔جرائم تبھی ختم ہوں گے جب ان پر کڑی اور بے لاگ اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں گی کیونکہ وہ فطرت کے عین مطابق ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی غلام چوری کر لے تو اسے بیچ دو اگر چہ نصف قیمت پر بکے۔“ ابو عبدالرحمٰن (امام نسائی)ؓ بیان کرتے ہیں کہ (حدیث کا روای) عمر بن ابوسلمہ حدیث میں قوی نہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”چوری کرلے“ یعنی مالک کی چوری کرے چونکہ کسی دوسرے کی چوری کرے گا تواس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ مالک کی چوری میں ہاتھ کاٹنا جائز نہیں کیونکہ وہ بھی گھر میں رہتا ہے۔ گویا کہ وہ گھر کا ایک فرد ہے اور گھر کے افراد پر گھر سے چوری کی بنا پرحد نہیں لگائی جاتی۔ اس حدیث کی باب سے مناسبت بھی یہی ہے کہ جس طرح گھر کےفرد یاغلام پر چوری کی بنا پر حد نافذ نہیں ہوتی، اسی طرح سرحدی علاقے کے سفر کے دوران میں بھی چوری کی حد نہیں لگائی جائے گی، یعنی یہ بھی اس کی ایک نظیر ہے اگرچہ فرق بھی ہے کہ سفر سے واپسی پرتو حد لگائی جائے گی مگر غلام پر گھر کی چوری میں بالکل حد نہیں لگائی جائے گی۔ البتہ اسے کوئی اور سزا دی جائے گی، مثلا: کوڑے لگائے جائیں یا قید وغیرہ کیا جائے۔ (2) ”بیچ دو“ کیونکہ اس کو چوری کی عادت پڑ گئی ہے، لہذا اس کا گھر میں رہنا اب ٹھیک نہیں۔ یہ مسئلہ بار بار پیدا ہو گا۔ بیج دینا ہی بہتر ہے۔ ممکن ہے دوسرے گھر کے حالات اس کی یہ عادت چھڑا دی لیکن بیچتے وقت اس کا یہ عیب خریدنے والے کو صاف بتایا جائے تاکہ وہ دھوکے میں نہ رہے ورنہ گناہ ہو گا، نیز سودا واپس بھی ہو سکتا ہے۔ (3) ”نصف قیمت“ عربی میں لفظ ”نش“ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنیٰ نصف اوقیہ ہوتے ہیں اور مطلق نصف بھی۔ نصف اوقیہ تو بیس درہم کا ہوتا ہے۔ مطلق نصف سے مراد نصف درہم بھی ہو سکتا ہے اور نصف قیمت بھی۔ تینون معانی ممکن ہیں۔ واللہ أعلم (4) بیچنے کا حکم ضروری نہیں بلکہ بہتر ہے کیونکہ کسی کو اس کا غلام بیچنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اس کی اپنی مرضی پر موقوف ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جب غلام چوری کرے تو اسے بیچ دو چاہے اس کی قیمت آدھا درہم ہی کیوں نہ ہو۔“ ۱؎ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: عمر بن ابی سلمہ حدیث میں قوی نہیں ہیں۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ حدیث نہ تو صحیح ہے اور نہ ہی باب سے اس کا کوئی ظاہری مناسبت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "If a slave steals, then sell him, even for half price." (Hasan) Abu 'Abdur-Rahman (An-Nasai) said: 'Umar bin Abi Salamah is not strong in Hadith.