باب: بلوغت کی حد ،نیز اس کابیان کہ کس عمر تک پہنچنے کی صورت میں مرد اور عورت پر حد لگائی جائے گی؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
(Chapter: Definition of Puberty and the age at which the Hadd punishment May be carried out on a man or a woman)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4981.
حضرت عطیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں بنو قریظہ کے قیدیوں میں شامل تھا۔ (فیصلے کے مطابق) دیکھا جاتا تھا کہ جس قیدی کے زیر ناف بال اگے ہوتےتھے، اس قتل کردیا جاتا تھا اور جسکے زیر ناف بال نہیں اگے ہوتے تھے، اسے زندہ چھوڑ دیا جاتا تھا اور قتل نہیں کیا جاتا تھا۔
تشریح:
(1) مقصد یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکی کس عمر میں بالغ ہوتے ہیں؟ اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ شرعی حدیں اور سزائیں کسی مجرم پر اس وقت نافذ ہوتی ہیں جب انسان بالغ ہو جائے۔ جب تک کوئی شخص بالغ نہیں ہو جاتا اس وقت تک اس پر حد نہیں لگ سکتی۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ اگر کوئی نا بالغ بچہ ایسا جرم کر بیٹھے جس پر شرعی حد لاگو ہوتی ہو تواس وقت کیا کیا جائے؟ مسئلہ بالکل یہی ہے کہ نابالغ بچے پر شرعی حد نہیں لگ سکتی، تاہم قابل حد جرم سرزد ہونےکی صورت میں قاضی اور جج یا حاکم وقت، ادب سکھانے کی خاطر اسے کوئی مناسب سزا دے سکتا ہے۔ واللہ أعلم. (2) شریعت مطہرہ نے کچھ علامات بتائی ہیں جب ان میں سے کوئی ایک علامت کسی لڑکے یا لڑکی میں پائی جائے تو وہ بالغ ہوتاہے۔ مردوں کے لیے تین علامتیں ہیں، وہ تینوں ہوں یا ان میں سے کوئی ایک ہوتو مرد بالغ سمجھا جائے گا: احتلام ہو نا، زیرناف سخت بال اگنا یا عمر پندرہ سال ہونا۔ البتہ عورت کے لیے مذکورہ تین علامتوں کے علاوہ، جو کہ مرد اور عورت دونوں میں مشتر ک ہیں، دواور بھی ہیں جو صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور وہ ہیں: حیض آنا کسی عور ت کا حاملہ ہونا۔ (3) ”بنو قریظہ کے قیدی“ بنو قریظہ مدینہ میں رہنے والے یہو دیوں کا ایک قبیلہ تھا جنہوں نے جنگ خندق میں مسلمانوں سے بغاوت کرکے حملہ کرنے والے دشمن کا ساتھ دیا، لہٰذا جنگ خندق ختم ہونے کے بعد انھوں نے اپنا فیصلہ اپنے حلیف قبیلے کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ کے سپرد کر دیا۔ انھوں نے فیصلہ دیا کہ ان کے بالغ مرد قتل کردیے جائیں اور عورتیں بچے قید کرلیے جائیں، لہذا ان کےفیصلے کے مطابق عمل ہوا۔ (4) میاں بیوی کےسوا کسی کے لیے یہ جائز اور حلا ل نہیں کہ وہ کسی کی شرم گاہ دیکھے، تاہم حقیقی شرعی عذر اس اصول سے مستثنیٰ ہے، مثلا: کسی کی جان بچانے کا مسئلہ در پیش ہو اور آپریشن ناگزیر ہوتو معالج مریض کو ضرورت کے مطابق، بے لباس کرسکتا ہے۔ اور پھر ضرورت حتم ہوتے ہی شرم گا ہ کو ڈھانپنا ضروری ہے۔ (5) ”جس قیدی“ یعنی نوعمر قیدی جس کی بلوغت میں شک ہوتا تھا ورنہ بڑی عمر کے آدمی کے بال دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ (6) ”زندہ چھوڑ دیا جاتا“ یعنی اسے قیدی (غلام ) بنا لیا جاتا تھا۔ یہ عطیہ بھی ان میں شامل تھے اور بعد میں مسلمان ہو گئے۔ؓ
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4995
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4996
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4984
تمہید کتاب
چوری انتہائی قبیح عمل ہے جس کی کوئی مذہب بھی اجازت نہیں دیتا بلکہ دنیا کے ہر مذہب میں یہ قابل سزا عمل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کل کے یورپی قوانین ( جو یورپ کے علاوہ ان ممالک میں رائج ہیں جہاں ان کی حکومت رہی ہے ) میں اس کی سزا قید اور جرمانہ ہے ۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ۔ آج کل کے ’’ روشن خیال ‘‘ حضرات ہاتھ کاٹنے کی سزا کو وحشیانہ اور ظالمانہ کہتے ہیں کہ اس طرح معاشرے میں معذور افراد زیادہ ہوں گے اور وہ معاشرے اور حکومت کے لیے بوجھ بن جائیں گے ، حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ ایسی سزا ہے جو چوری کو معاشرے سے تقریبا کالعدم کردے گی ۔صرف چند ہاتھ کاٹنے سے اگر معاشرہ چوری سے پاک ہو جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ۔ ان چند افراد کا بوجھ حکومت یا معاشرے کے لیے اٹھانا ان کروڑوں اربوں کے اخراجات سے بہت ہلکا ہے جو پولیس اور جیلوں پر خرچ کرنے پڑتے ہیں جب کہ جیلوں میں چھوٹے چور بڑے چور بنتے ہیں ۔ وہاں جرائم پیشہ افراد اکھٹے ہو جاتے ہیں جس سے جرائم کے منصوبے بنتے ہیں ۔ یہ سمجھنا کہ اسلامی سزا کے نفاذ سے ’’ ہتھ کٹے ‘‘ افراد کی کثرت ہوتی ہے ، جہالت ہے ۔ چند ہاتھ کٹنے سے چوری ختم ہو جائے گی ۔ پولیس اور عدالتوں کی توسیع کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ شہر میں ایک آدھ ’’ ہتھ کٹا ‘‘ فرد سارے شہر کے لیے عبرت بنا رہے گا ۔ اس سے کہیں زیادہ افراد کے ہاتھ حادثات میں کٹ جاتے ہیں لہذا یہ صرف پروپیگنڈا ہے کہ اس سزا سے ’’ ہتھ کٹوں ‘‘ کا سیلاب آجائے گا ۔سعودی عرب جہاں اسلامی سزائیں سختی سے نافذ ہیں ، اس حقیقت کی زندہ مثال ہے ۔ وہاں کوئی فرد ہتھ کٹا نظر نہیں آتا مگر چوری کا تصور تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ کروڑوں کی مالیت کا سامان بغیر کسی محافظ کے پڑا رہتا ہے اور لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں ۔ زیورات سے لدی پھندی عورتیں صحراوں میں ہزاروں میلوں کا سفر کرتی ہیں مگر کسی کو نظر بد کی بھی جرات نہیں ہوتی حالانکہ اسلامی سزا کے نفاذ سے قبل دن دہاڑے قافلے لوٹ لیے جاتے تھے ۔ اور لوگ حاجیوں کی موجودگی میں ان کا سامان اٹھا کر بھاگ جایا کرتے تھے جیسا کہ آج کل امریکہ وغیرہ میں حال ہے ، باوجود اس کے کہ وہاں جیلیں بھری پڑی ہیں مگر چوری ، ڈاکے روز روز بڑھ رہے ہیں۔اسلام نے چوری کی یہ سزا اس لیے رکھی ہے کہ چوری بڑھتے بڑھتے ڈاکا ڈالنے کی عادت ڈالتی ہے ۔ڈاکے میں بے دریغ قتل کیے جاتے ہیں اور جبرا عصمتیں لوٹی جاتی ہیں ۔ گویا چور آہستہ آہستہ ڈاکو ، قاتل اور زنا بالجر کا مرتکب بن جاتا ہے ، لہذا ابتدا ہی میں اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے تاکہ وہ خود بھی پہلے قدم پر ہی رک جائے بلکہ واپس پلٹ جائے اور معاشرہ بھی ڈاکوؤں ، بے گنا ہ قتل اور زنا بالجر جیسے خوف ناک اور قبیح جرائم سے محفوظ رہ سکے ۔ بتائیے ! اس سزا سے چور اور معاشرے کو فائدہ حاصل ہوا یا نقصان ؟ جب کہ قید اور جرمانے کی سزا ان جرائم میں مزید اضافے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ پہلی چوری کا جرمانہ اس سے بڑی چوری کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے اور جیل جرائم کی تربیت گاہ ثابت ہوتی ہے ۔جرائم تبھی ختم ہوں گے جب ان پر کڑی اور بے لاگ اسلامی سزائیں نافذ کی جائیں گی کیونکہ وہ فطرت کے عین مطابق ہیں ۔
حضرت عطیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں بنو قریظہ کے قیدیوں میں شامل تھا۔ (فیصلے کے مطابق) دیکھا جاتا تھا کہ جس قیدی کے زیر ناف بال اگے ہوتےتھے، اس قتل کردیا جاتا تھا اور جسکے زیر ناف بال نہیں اگے ہوتے تھے، اسے زندہ چھوڑ دیا جاتا تھا اور قتل نہیں کیا جاتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) مقصد یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکی کس عمر میں بالغ ہوتے ہیں؟ اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ شرعی حدیں اور سزائیں کسی مجرم پر اس وقت نافذ ہوتی ہیں جب انسان بالغ ہو جائے۔ جب تک کوئی شخص بالغ نہیں ہو جاتا اس وقت تک اس پر حد نہیں لگ سکتی۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ اگر کوئی نا بالغ بچہ ایسا جرم کر بیٹھے جس پر شرعی حد لاگو ہوتی ہو تواس وقت کیا کیا جائے؟ مسئلہ بالکل یہی ہے کہ نابالغ بچے پر شرعی حد نہیں لگ سکتی، تاہم قابل حد جرم سرزد ہونےکی صورت میں قاضی اور جج یا حاکم وقت، ادب سکھانے کی خاطر اسے کوئی مناسب سزا دے سکتا ہے۔ واللہ أعلم. (2) شریعت مطہرہ نے کچھ علامات بتائی ہیں جب ان میں سے کوئی ایک علامت کسی لڑکے یا لڑکی میں پائی جائے تو وہ بالغ ہوتاہے۔ مردوں کے لیے تین علامتیں ہیں، وہ تینوں ہوں یا ان میں سے کوئی ایک ہوتو مرد بالغ سمجھا جائے گا: احتلام ہو نا، زیرناف سخت بال اگنا یا عمر پندرہ سال ہونا۔ البتہ عورت کے لیے مذکورہ تین علامتوں کے علاوہ، جو کہ مرد اور عورت دونوں میں مشتر ک ہیں، دواور بھی ہیں جو صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور وہ ہیں: حیض آنا کسی عور ت کا حاملہ ہونا۔ (3) ”بنو قریظہ کے قیدی“ بنو قریظہ مدینہ میں رہنے والے یہو دیوں کا ایک قبیلہ تھا جنہوں نے جنگ خندق میں مسلمانوں سے بغاوت کرکے حملہ کرنے والے دشمن کا ساتھ دیا، لہٰذا جنگ خندق ختم ہونے کے بعد انھوں نے اپنا فیصلہ اپنے حلیف قبیلے کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ کے سپرد کر دیا۔ انھوں نے فیصلہ دیا کہ ان کے بالغ مرد قتل کردیے جائیں اور عورتیں بچے قید کرلیے جائیں، لہذا ان کےفیصلے کے مطابق عمل ہوا۔ (4) میاں بیوی کےسوا کسی کے لیے یہ جائز اور حلا ل نہیں کہ وہ کسی کی شرم گاہ دیکھے، تاہم حقیقی شرعی عذر اس اصول سے مستثنیٰ ہے، مثلا: کسی کی جان بچانے کا مسئلہ در پیش ہو اور آپریشن ناگزیر ہوتو معالج مریض کو ضرورت کے مطابق، بے لباس کرسکتا ہے۔ اور پھر ضرورت حتم ہوتے ہی شرم گا ہ کو ڈھانپنا ضروری ہے۔ (5) ”جس قیدی“ یعنی نوعمر قیدی جس کی بلوغت میں شک ہوتا تھا ورنہ بڑی عمر کے آدمی کے بال دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ (6) ”زندہ چھوڑ دیا جاتا“ یعنی اسے قیدی (غلام ) بنا لیا جاتا تھا۔ یہ عطیہ بھی ان میں شامل تھے اور بعد میں مسلمان ہو گئے۔ؓ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عطیہ قرظی ؓ کہتے ہیں کہ میں بنو قریظہ کے قیدیوں میں تھا، وہ لوگ دیکھتے جس کے زیر ناف کے بال اگ آئے ہوتے، اسے قتل کر دیا جاتا، اور جس کے بال نہ اگے ہوتے، اسے چھوڑ دیا جاتا اور قتل نہ کیا جاتا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Atiyyah said: 'I was among the prisoners of Quraizah; we were examined, and whoever had grown (pubic) hair was killed, and whoever had not grown hair, he was allowed to live and was not killed.