باب: اللہ تعالی ٰ کے فرمان : ’’بدوی کہتے ہیں ہم ایمان لائے کہہ دیجیے :(ابھی ) تم میں ایمان نہیں آیا بلکہ تم کہو ہم مسلمان ہو گئے،،کی تفسیر
)
Sunan-nasai:
The Book Of Faith and its Signs
(Chapter: Interpreting the Saying of Allah, The Mighty and Sublime: "The Bedouins say: We believe,)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4992.
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے فرمایا: نبی ﷺ نے کچھ لوگوں کو مال دیا لیکن ان میں سے ایک آدمی کو کچھ نہ دیا۔ سعد نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے فلاں فلاں کو تو مال دیا ہے لیکن فلاں کو کچھ نہیں دیا، حالانکہ وہ بھی صاحب ایمان ہے۔ نبی اکر م ﷺ نے فرمایا: ”(بلکہ وہ) مسلمان ہے۔“ سعد نے اپنی بات تین دفعہ دہرائی ۔ نبی اکرم ﷺ ہر دفعہ یہی فرماتے تھے: ”(بلکہ وہ) مسلمان ہے۔“ پھر لوگوں کو مال دیتا ہوں جب کہ ان لوگوں کو چھوڑدیتا ہوں جو مجھے زیا دہ پیارے ہوتے ہیں ۔ میں انھیں کچھ نہیں دیتا۔ (دیتا ہوں) اس خوف سے کہ کہیں وہ جہنم میں اوندھے من نہ گرائے جائیں۔“
تشریح:
(1) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اوراسلام کی حقیقت الگ الگ ہے ، یعنی اسلام ظاہری انقیاد واعمال کا نام ہے جبکہ ایمان یقین قلب اور تصدیق لسان کے ساتھ ساتھ کما حقہ ان کے تقاضے پورے کرنے کا نام ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ایمان ،اسلام سے اعلیٰ وارفع درجہ ہوتا ہے اور اس کا تعلق ظاہری انقیاد کے مقابلے میں ایقان قلب سے زیادہ ہوتا ہے۔ (2) یہ حدیث مبارکہ اس اہم مسئلے کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ حتمی طور پر کسی شخص کے کامل مومن ہونے کی تصدیق اس وقت تک نہیں کرنی چاہیے جب تک اس پر شارع علیہ السلام کی طرف سے واضح نص نہ ہو۔ (3) اس حدیث سے مرجئہ گمراہ فرقے کا بھی صریح طور پر رد ہوتا ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صرف زبان سے ایمان کا اقرار کرنے سے انسان جنت میں چلا جائے گا ،عمل کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ (4) شرعی حاکم کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ سرکاری مال میں اپنی صوابدید کے مطابق تصرف کرے ، کسی کو دے کسی نہ دے اور کسی کو کم دے کسی کو زیادہ دے ، نیز ظاہرا اہم آدمی کو چھوڑ دے، اس کی نسبت غیر اہم کو دے دے ۔ شرعی مصلحت کی بنیاد پر یہ سب کچھ کیا جا سکتا ہے، خواہ رعایا اورعوام الناس پر یہ معاملہ مخفی ہی ہو۔ (5) حاکم کے ہاں سفارش کرنا درست ہے بشرطیکہ وہ سفارش جائز ہو۔ اسی طرح مقام ومرتبے کے لحاظ سے کم تر شخص ،اپنے سے برتر شخص کو مشورہ دے سکتا ہے ، تاہم نصیحت اور خیر خواہی کا جذبہ ہو ، نیز کسی کے روبرو کہنے کے بجائے تنہائی میں ہو، زیادہ مؤثر ہوتی ہے الا یہ کہ حالات کا تقاضا علانیہ بات کرت کا ہو۔ (6) ”(بلکہ وہ) مسلمان ہے“ یعنی تم کسی شخص کی ظاہری حالت ہی کو دیکھتے ہو ، لہذا تم ظاہر کی گواہی دو ۔ باطن کی اللہ جانے ۔بعض نےمعنی کیے ہیں ”بلکہ مسلمان کہو“ یہ معنیٰ بھی کیے گئے ہیں کہ صرف مومن نہ کہو بلکہ یوں کہو”وہ مومن یامسلمان ہے۔“ اس صورت میں او عاطفہ ہوگا اور اسے عطف تلقینی کہتے ہیں کہ تم یہ بھی کہو۔ تینوں معانی ٹھیک ہیں۔ (7) ”خوف سے“ اس کا تعلق شروع جملہ کے ساتھ ہے ، یعنی میں کچھ لوگوں کو اس لیے دیتا ہوں کہ ان کا ایمان ابھی کمزور ہے ۔ خطرہ ہے کہ مرتد نہ جائیں اور مرتد اوندھے منہ آگ میں گرنے کے مترادف ہے جبکہ پختہ ایمان والے شخص کے بارےمیں کوئی خطرہ نہیں ہوتا ،لہذا کبھی اس کو نہیں بھی دیتا تووہ محسوس نہیں کرتا ہے ۔ مومن کو مال کی طمع نہیں ہوتی ۔مل گیا خیر ،نہ ملا تب بھی خیر۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5006
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5007
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4995
تمہید کتاب
لغةًایمان امن سےہے ۔ امن کے معنی ہیں بے خوف ہونا ۔ اور ایمان کےمعنی ہییں بے خوف کرنا لیکن عموما اس لفظ کا استعمال مان لینے ، تسلیم کر لینے او ر تصدیق کرنے کے معانی میں ہوتا ہے اور وہ بھی غیبی امور میں ۔ قرآن وحدیث میں عموما ایمان واسلام ایک معنی میں استعمال ہونے ہیں ۔البتہ کبھی کبھی لغوی کی رعایت سے ان میں فرق بھی کیا گیا ہے ۔( قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا) (الحجرات 49:14)یہاں اسلام ،ظاہر ی اطاعت اور ایمان قلبی تصدیق کے معنی میں ہے ۔جمہور اہل سنت (صحابہ وتابعین)کےنزدیک ایمان ) اقرار باللسان و تصديق بالقلب و عمل بالجوارح کو کہتے ہیں ۔ مختصرا قول وعمل کو ایمان کہتے ہیں کیونکہ تصدیق عمل آجاتی ہے۔ اور وہ دل کا عمل ہے ۔اسی طرح اہل سنت کےنزدیک ایمان میں مختلف وجوہ سے کمی بیشی کے لحاظ سے ۔سلف کے بعد ائمہ ثلاثہ مالک،شافعی ،احمد اہل مدینہ اور تمام محدثین اسی بات کے قائل ہیں ۔ بدعتی فرقے ، مثلا جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ اور خوارج وغیرہ اہل سنت سے اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اہل سنت میں سے اشعری اور احناف بھی محدثین سے کچھ اختلاف رکھتے ہیں ، مثلا :احناف عمل کو ایمان کا جز نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایمان کا لازم قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح ایمان میں کمی بیشی کے بھی قائل نہیں ،ہاں اہل ایمان میں تفاضل کے قائل ہیں ۔ اہل سنت کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی واجب وفرض کے ترک یا کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بنا پر ایمان سےخارج نہیں کرتے جب کہ معتزلہ اور خوارج اس کوایمان سے خارج کردیتے ہیں بلکہ خوارج تو صراحتا کافر کہہ دتے ہیں ۔معاذ اللہ ۔ جہمیہ اور مرجئہ ویسے ہی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک صرف تصدیق قلب کافی ہے ۔مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے فرمایا: نبی ﷺ نے کچھ لوگوں کو مال دیا لیکن ان میں سے ایک آدمی کو کچھ نہ دیا۔ سعد نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے فلاں فلاں کو تو مال دیا ہے لیکن فلاں کو کچھ نہیں دیا، حالانکہ وہ بھی صاحب ایمان ہے۔ نبی اکر م ﷺ نے فرمایا: ”(بلکہ وہ) مسلمان ہے۔“ سعد نے اپنی بات تین دفعہ دہرائی ۔ نبی اکرم ﷺ ہر دفعہ یہی فرماتے تھے: ”(بلکہ وہ) مسلمان ہے۔“ پھر لوگوں کو مال دیتا ہوں جب کہ ان لوگوں کو چھوڑدیتا ہوں جو مجھے زیا دہ پیارے ہوتے ہیں ۔ میں انھیں کچھ نہیں دیتا۔ (دیتا ہوں) اس خوف سے کہ کہیں وہ جہنم میں اوندھے من نہ گرائے جائیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اوراسلام کی حقیقت الگ الگ ہے ، یعنی اسلام ظاہری انقیاد واعمال کا نام ہے جبکہ ایمان یقین قلب اور تصدیق لسان کے ساتھ ساتھ کما حقہ ان کے تقاضے پورے کرنے کا نام ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ایمان ،اسلام سے اعلیٰ وارفع درجہ ہوتا ہے اور اس کا تعلق ظاہری انقیاد کے مقابلے میں ایقان قلب سے زیادہ ہوتا ہے۔ (2) یہ حدیث مبارکہ اس اہم مسئلے کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ حتمی طور پر کسی شخص کے کامل مومن ہونے کی تصدیق اس وقت تک نہیں کرنی چاہیے جب تک اس پر شارع علیہ السلام کی طرف سے واضح نص نہ ہو۔ (3) اس حدیث سے مرجئہ گمراہ فرقے کا بھی صریح طور پر رد ہوتا ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صرف زبان سے ایمان کا اقرار کرنے سے انسان جنت میں چلا جائے گا ،عمل کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ (4) شرعی حاکم کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ سرکاری مال میں اپنی صوابدید کے مطابق تصرف کرے ، کسی کو دے کسی نہ دے اور کسی کو کم دے کسی کو زیادہ دے ، نیز ظاہرا اہم آدمی کو چھوڑ دے، اس کی نسبت غیر اہم کو دے دے ۔ شرعی مصلحت کی بنیاد پر یہ سب کچھ کیا جا سکتا ہے، خواہ رعایا اورعوام الناس پر یہ معاملہ مخفی ہی ہو۔ (5) حاکم کے ہاں سفارش کرنا درست ہے بشرطیکہ وہ سفارش جائز ہو۔ اسی طرح مقام ومرتبے کے لحاظ سے کم تر شخص ،اپنے سے برتر شخص کو مشورہ دے سکتا ہے ، تاہم نصیحت اور خیر خواہی کا جذبہ ہو ، نیز کسی کے روبرو کہنے کے بجائے تنہائی میں ہو، زیادہ مؤثر ہوتی ہے الا یہ کہ حالات کا تقاضا علانیہ بات کرت کا ہو۔ (6) ”(بلکہ وہ) مسلمان ہے“ یعنی تم کسی شخص کی ظاہری حالت ہی کو دیکھتے ہو ، لہذا تم ظاہر کی گواہی دو ۔ باطن کی اللہ جانے ۔بعض نےمعنی کیے ہیں ”بلکہ مسلمان کہو“ یہ معنیٰ بھی کیے گئے ہیں کہ صرف مومن نہ کہو بلکہ یوں کہو”وہ مومن یامسلمان ہے۔“ اس صورت میں او عاطفہ ہوگا اور اسے عطف تلقینی کہتے ہیں کہ تم یہ بھی کہو۔ تینوں معانی ٹھیک ہیں۔ (7) ”خوف سے“ اس کا تعلق شروع جملہ کے ساتھ ہے ، یعنی میں کچھ لوگوں کو اس لیے دیتا ہوں کہ ان کا ایمان ابھی کمزور ہے ۔ خطرہ ہے کہ مرتد نہ جائیں اور مرتد اوندھے منہ آگ میں گرنے کے مترادف ہے جبکہ پختہ ایمان والے شخص کے بارےمیں کوئی خطرہ نہیں ہوتا ،لہذا کبھی اس کو نہیں بھی دیتا تووہ محسوس نہیں کرتا ہے ۔ مومن کو مال کی طمع نہیں ہوتی ۔مل گیا خیر ،نہ ملا تب بھی خیر۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سعد بن ابی وقاص ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے کچھ لوگوں کو عطیہ دیا اور ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہیں دیا، سعد ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں فلاں کو دیا اور فلاں کو کچھ نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہے؟ تو نبی آپ نے فرمایا: ”بلکہ وہ مسلم ہے“ ۱؎، سعد ؓ نے تین بار دہرایا (یعنی وہ مومن ہے) اور نبی اکرم ﷺ (ہر بار) کہتے رہے: ”وہ مسلم ہے“، پھر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”میں بعض لوگوں کو عطیہ دیتا ہوں اور بعض ایسے لوگوں کو محروم کر دیتا ہوں جو مجھے ان سے زیادہ محبوب ہیں، میں اسے اس اندیشے سے انہیں دیتا ہوں کہ کہیں وہ اپنے چہروں کے بل جہنم میں نہ ڈال دیئے جائیں۔“ ۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : چونکہ ایمان کی جگہ دل ہے اور وہ کسی دوسرے پر ظاہر نہیں ہو سکتا ہے اس لیے کسی کے بارے میں یقینی طور پر یہ دعویٰ کرنا کہ وہ صحیح معنوں میں مومن ہے“ جائز نہیں اس کو صرف اللہ عالم الغیوب ہی جانتا ہے، اور ”اسلام“ چونکہ ظاہری ارکان پر عمل کا نام ہے اس لیے کسی آدمی کو ”مسلم“ کہا جا سکتا ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ کو ”مومن“ کی بجائے ”مسلم“ کہنے کی تلقین کی۔ ۲؎ : یعنی: جن کو نہیں دیتا ہوں ان کے بارے میں یہ یقین سے جانتا ہوں کہ دینے نہ دینے سے ان کے ایمان میں کچھ فرق پڑنے والا نہیں ہے، اور جن کو دیتا ہوں ان کے بارے میں اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر (تالیف قلب کے طور پر) نہ دوں تو ایمان سے پھر کر جہنم میں جا سکتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Amir bin Sa'd bin Abi Waqqas that his father said: "The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) gave a share (of some spoils of war) to some men and not to others. Sa'd said: 'O Messenger of Allah, you gave to so-and-so and so-and-so, but you did not give anything to so-and-so, and he is a believer.' The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'Or a Muslim,' until Sa'd had repeated it three times, and the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'I give to some men, and leave those who are dearer to me, without giving them anything, lest (the former) be thrown into Hell on their faces.