Sunan-nasai:
The Book Of Faith and its Signs
(Chapter: On How Many (Pillars) is Islam Built?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5001.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نےان سے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے: ”اسلام کی بنیاد پانچ چیزیں ہیں: گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کے کوئی معبو د نہیں (اور حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسو ل ہیں)۔ نماز پابندی کے ساتھ پڑھنا، زکاۃ اداکر نا، حج کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔“
تشریح:
(1) باب کامقصد اسلام کے وہ ستون اور ارکان بیان کرنا ہے جن پر اسلام کی ساری عمارت قائم ہے ۔ اور وہ صرف پانچ ہیں : ان میں سے پہلا اور سب سے افضل ستون کلمہ تو حید کی شہادت دینا ہے ۔ یہ سب سے افضل اس لیے ہے کہ جب تک کافر اس کی شہادت نہ دے تو وہ کافر ہی رہتاہے ،مسلمان نہیں بن سکتا ۔ مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے کہ زبان سے کلمہ شہادت کا اقرار کرے ۔ پھر دوسرے نمبر پر نماز ہے ۔ یہ ہر امیر وغریب مردوعورت پر فرض ہے ۔ (2) جواب کا مفاد یہ ہے کہ جہاد فرائض عینیہ میں شامل نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے جس کی ادائیگی حکومت وقت کا کام ہے ۔وہ جتنے افراد کو مناسب سمجھے ، اس کام پر لگائے ۔جب ضرورت کے مطابق افراد اس کا م پر مامور ہوں اور وہ ملکی دفاع کا فریضہ سرانجام دے رہے ہوں تو عوام الناس کے لیے جہاد میں جانا ضروری نہیں ۔ وہ اپنے دوسرے کام کریں ۔ ہاں! یہ ایک فضیلت ہے ۔اگر کوئی شخص اپنے فرائض کی ادایگی کے بعد حکومت وقت اور متعلقہ افراد خانہ کی اجازت ورضامندی سے جہاد میں شرکت کرے تو اسے فضیلت ہو گی۔ (3) یہ پانچ ارکان اسلام ہیں ، یعنی فرض عین ہیں۔ شہادتین کی ادائیگی کے بغیر تو کوئی شخص اسلام میں داخل ہی نہیں ہوسکتا ۔نماز بھی ہر بالغ وعاقل پر تا حیات فرض ہے ،اس سے کسی کو مفرنہیں ۔ زکاۃ ہر مالدار شخص پر فرض ہے جس کے پاس اس کی ضرورت سے زائد مال ہو ۔(تفصیل پیچھے گزر چکی ہے) حج ہر اس شخص پر فرض ہے جو آسانی کے ساتھ بیت اللہ پہنچ سکتا ہو اوراس کے پاس حج سے واپسی تک کے اخراجات موجود ہوں ۔رمضان المبارک کے روزے ہر عاقل وبالغ پر فرض ہیں ۔ کوئی عذر ہو تو قضا واجب ہوگی اور اگررکھنے کی نہ ہوتو فدیہ واجب ہو گا ۔ (4) رمضان کے روزے کا ذکر آخر میں اس لیے ہے کہ یہ ترکی عبادت ہے (اس میں کچھ کرنا نہیں پڑتا) ورنہ اہمیت کے لحاظ سے اس کا درجہ نماز کے بعد ہے۔ ویسے بھی نماز کی طرح بدنی عبادت ہے۔ (5) تر جمہ میں تو سین والی عبارت اسی حدیث کی دیگر اسانید سے صراحتا مذکورہے۔اس کے بغیر کلمہ شہادت معتبر نہیں۔
الحکم التفصیلی:
" قلت : يا أبا عبد الرحمن ما تقول في الجهاد ؟ قال : من جاهد فانما يجاهد لنفسه " . أخرجه أحمد ( 2 / 93 ) وأبو سويد هذا مجهول وكذلك الراوي عنه بركة بن يعلى التيمي . 2 - وأما حديث جرير فيرويه الشعبي عنه مرفوعا به . أخرجه أحمد ( 4 / 363 ) والطبراني في ( الكبير ) ( 1 / 113 ) من طريق جابر عن الشعبي به . قلت : ورجاله ثقات غير جابر هذا وهو الجعفي وقد ضعف بل اتهم . لكن تابعه داود بن يزيد الأودي وهو ضعيف أيضا
أخرجه الطبراني في " الكبير " ( 1 / 113 / 1 ) . وتابعه عبد الله بن حبيب بن أبي ثابت أيضا . أخرجه في " الكبير " عن سورة بن الحكم . وفي " الصغير " ( ص 161 ) عن أشعب بن عطاف كلاهما عن عبد الله به . وهذا سند حسن سورة بن الحكم ترجم له ابن أبي حاتم ( 2 / 1 / 327 ) والخطيب ( 9 / 228 - 229 ) ولم يذكر فيه جرحا ولا تعديلا وقد روى عنه جماعة . وأشعث بن عطاف قال ابن عدي : " لا بأس به " . وأما عبد الله بن حبيب فثقة احتج به مسلم . 3 - وأما حديث ابن عباس فيرويه عمرو بن مالك عن أبي الجوزاء عن ابن عباس " ولا أعلم إلا رفعه إلى النبي ( صلى الله عليه وسلم ) قال : " بني الإسلام على خمس : شهادة أن لا ( له إلا الله والصلاة وصيام رمضان فمن ترك واحدة منهن كان كافرا حلال ( الدم ) . أخرجه الطبراني في المعجم الكبير ( 3 / 177 / 2 ) من طريق مؤمل ابن اسماعيل عن حماد بن زيد عن عمرو به . قلت : وهذا سند ضعيف عمرو بن مالك هذا هو أبو مالك النكري أورده ابن أبي حاتم ( 3 / 1 / 259 ) ولم يذكر فيه جرحا ولا تعديلا وأما ابن حبان فذكره في " الثقات " ( 2 / 212 ) ولكنه قال : " يعتبر بحديثه " . قلت : والاعتبار والاستشهاد بمعنى واحد تقريبا ففيه إشارة إلى أنه لا يحتج به إذا تفرد وذلك لسوء حفظه والذي يدلك على ذلك من نفس هذا الحديث أنه نقص منه وزاد فيه أما النقص فهو أنه لم يذكر الزكاة والحج ! وليس ذلك من سقط النساخ فقد ذكر الحديث هكذا غير واحد من الحفاظ منهم السيوطي في " الجامع الكبير " ( 1 / 392 / 1 )
وأما الزيادة فهى قوله : " فمن ترك واحدة منهن كان كافرا حلال للدم " . فهي زيادة منكرة لتفرد هذا الضعيف بها وعدم ورودها في شئ من طرق الأحاديث المتقدمة الصحيحة . على أنني لا أستطيع القطع بالصاق الوهم بعمرو هذا فان في الطريق إليه مؤمل بن اسماعيل وهو صدوق سئ الحفظ كما في " التقريب " . فالله أعلم
صحيح الترمذي ( 2749 ) // ، الإيمان لأبي عبيد ( 2 ) //
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5015
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5016
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5004
تمہید کتاب
لغةًایمان امن سےہے ۔ امن کے معنی ہیں بے خوف ہونا ۔ اور ایمان کےمعنی ہییں بے خوف کرنا لیکن عموما اس لفظ کا استعمال مان لینے ، تسلیم کر لینے او ر تصدیق کرنے کے معانی میں ہوتا ہے اور وہ بھی غیبی امور میں ۔ قرآن وحدیث میں عموما ایمان واسلام ایک معنی میں استعمال ہونے ہیں ۔البتہ کبھی کبھی لغوی کی رعایت سے ان میں فرق بھی کیا گیا ہے ۔( قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا) (الحجرات 49:14)یہاں اسلام ،ظاہر ی اطاعت اور ایمان قلبی تصدیق کے معنی میں ہے ۔جمہور اہل سنت (صحابہ وتابعین)کےنزدیک ایمان ) اقرار باللسان و تصديق بالقلب و عمل بالجوارح کو کہتے ہیں ۔ مختصرا قول وعمل کو ایمان کہتے ہیں کیونکہ تصدیق عمل آجاتی ہے۔ اور وہ دل کا عمل ہے ۔اسی طرح اہل سنت کےنزدیک ایمان میں مختلف وجوہ سے کمی بیشی کے لحاظ سے ۔سلف کے بعد ائمہ ثلاثہ مالک،شافعی ،احمد اہل مدینہ اور تمام محدثین اسی بات کے قائل ہیں ۔ بدعتی فرقے ، مثلا جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ اور خوارج وغیرہ اہل سنت سے اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اہل سنت میں سے اشعری اور احناف بھی محدثین سے کچھ اختلاف رکھتے ہیں ، مثلا :احناف عمل کو ایمان کا جز نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایمان کا لازم قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح ایمان میں کمی بیشی کے بھی قائل نہیں ،ہاں اہل ایمان میں تفاضل کے قائل ہیں ۔ اہل سنت کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی واجب وفرض کے ترک یا کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بنا پر ایمان سےخارج نہیں کرتے جب کہ معتزلہ اور خوارج اس کوایمان سے خارج کردیتے ہیں بلکہ خوارج تو صراحتا کافر کہہ دتے ہیں ۔معاذ اللہ ۔ جہمیہ اور مرجئہ ویسے ہی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک صرف تصدیق قلب کافی ہے ۔مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نےان سے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے: ”اسلام کی بنیاد پانچ چیزیں ہیں: گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کے کوئی معبو د نہیں (اور حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسو ل ہیں)۔ نماز پابندی کے ساتھ پڑھنا، زکاۃ اداکر نا، حج کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) باب کامقصد اسلام کے وہ ستون اور ارکان بیان کرنا ہے جن پر اسلام کی ساری عمارت قائم ہے ۔ اور وہ صرف پانچ ہیں : ان میں سے پہلا اور سب سے افضل ستون کلمہ تو حید کی شہادت دینا ہے ۔ یہ سب سے افضل اس لیے ہے کہ جب تک کافر اس کی شہادت نہ دے تو وہ کافر ہی رہتاہے ،مسلمان نہیں بن سکتا ۔ مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے کہ زبان سے کلمہ شہادت کا اقرار کرے ۔ پھر دوسرے نمبر پر نماز ہے ۔ یہ ہر امیر وغریب مردوعورت پر فرض ہے ۔ (2) جواب کا مفاد یہ ہے کہ جہاد فرائض عینیہ میں شامل نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے جس کی ادائیگی حکومت وقت کا کام ہے ۔وہ جتنے افراد کو مناسب سمجھے ، اس کام پر لگائے ۔جب ضرورت کے مطابق افراد اس کا م پر مامور ہوں اور وہ ملکی دفاع کا فریضہ سرانجام دے رہے ہوں تو عوام الناس کے لیے جہاد میں جانا ضروری نہیں ۔ وہ اپنے دوسرے کام کریں ۔ ہاں! یہ ایک فضیلت ہے ۔اگر کوئی شخص اپنے فرائض کی ادایگی کے بعد حکومت وقت اور متعلقہ افراد خانہ کی اجازت ورضامندی سے جہاد میں شرکت کرے تو اسے فضیلت ہو گی۔ (3) یہ پانچ ارکان اسلام ہیں ، یعنی فرض عین ہیں۔ شہادتین کی ادائیگی کے بغیر تو کوئی شخص اسلام میں داخل ہی نہیں ہوسکتا ۔نماز بھی ہر بالغ وعاقل پر تا حیات فرض ہے ،اس سے کسی کو مفرنہیں ۔ زکاۃ ہر مالدار شخص پر فرض ہے جس کے پاس اس کی ضرورت سے زائد مال ہو ۔(تفصیل پیچھے گزر چکی ہے) حج ہر اس شخص پر فرض ہے جو آسانی کے ساتھ بیت اللہ پہنچ سکتا ہو اوراس کے پاس حج سے واپسی تک کے اخراجات موجود ہوں ۔رمضان المبارک کے روزے ہر عاقل وبالغ پر فرض ہیں ۔ کوئی عذر ہو تو قضا واجب ہوگی اور اگررکھنے کی نہ ہوتو فدیہ واجب ہو گا ۔ (4) رمضان کے روزے کا ذکر آخر میں اس لیے ہے کہ یہ ترکی عبادت ہے (اس میں کچھ کرنا نہیں پڑتا) ورنہ اہمیت کے لحاظ سے اس کا درجہ نماز کے بعد ہے۔ ویسے بھی نماز کی طرح بدنی عبادت ہے۔ (5) تر جمہ میں تو سین والی عبارت اسی حدیث کی دیگر اسانید سے صراحتا مذکورہے۔اس کے بغیر کلمہ شہادت معتبر نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ان سے کہا: کیا آپ جہاد نہیں کریں گے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، اور نماز قائم کرنا، زکاۃ دینا، حج کرنا، اور رمضان کے روزے رکھنا۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا مطلب یہ تھا کہ بنیادی باتوں کو میں تسلیم کر چکا ہوں اور جہاد ان میں سے نہیں ہے، جہاد اسباب و مصالح کی بنیاد پر کسی کسی پر فرض عین ہوتا ہے اور ہر ایک پر فرض نہیں ہوتا۔ یہ نہیں سمجھنا چاہیئے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نعوذ باللہ جہاد فی سبیل+اللہ کے منکر تھے، بلکہ آپ تو اپنی زندگی میں دسیوں غزوات میں شریک ہوتے تھے، آپ نے مذکورہ بالا جواب: (۱) ارکان اسلام کو بیان کرنے کے لیے اور (۲) سائل کے سوال کی کیفیت کو سامنے رکھ کر دیا تھا ، واللہ أعلم بالصواب۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Umar that: A man said to him: "Why don't you go out and fight?" He said: "I heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say: 'Islam is built on five (pillars): Testimony that there is none worthy of worship except Allah, establishing Salah, giving Zakah, Hajj, and fasting Ramadan.