Sunan-nasai:
The Book Of Faith and its Signs
(Chapter: Pledging to Follow Islam)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5002.
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم نبی اکرم ﷺ سے کے پاس ایک مجلس میں موجو د تھے۔ آپ نے فرمایا: ”مجھ سے بیعت کرو کہ اللہ تعالی ٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناؤ گے، چوری نہیں کرو گے ،زنا نہیں کروگے، آپ نے پوری آیت تلاوت فرمائی ۔(پھر فرمایا) ”جو شخص اس عہد کو پورا کر ے گا ، اس کا اجر وثواب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے ۔ اور جس شخص نے ان (مذکورہ کاموں) میں سے کسی کام کا ارتکاب کیا ،پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہوگا ۔چاہے اسے عذاب دے، چاہے معاف کرے۔“
تشریح:
(1) یہ روایت پیچھے گزر چکی ہے اور ضروری تفصیل بیان ہو چکی ہے ۔بعیت سے مراد عہد ہے ۔ نیکی کے کاموں پر بیعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ وتابعین نے کسی ہاتھ پر بھی نہیں کی حتیٰ کہ خلفائے راشدین کے ہاتھ پر بھی نہیں کی ،لہذا اس بعیت کی اب ضرورت نہیں ۔ اگر چہ عقلی وشرعی طور پر اس میں کو ئی قباحت معلوم نہیں ہوتی مگر صحابہ وتابعین کا اسے مطلقا چھوڑ دینا بھی تو مظبوط دلیل ہے ۔ (2) ”پوری آیت پڑھی“ اس آیت سے سورہ ممتحنہ کی آیت مراد ہے جو عورتوں کی بیعت کے بارے میں اتر ی تھی ۔شاید آپنے مؤنث کے صغیے مذکر سے بدل لیے ہوں گے کیو نکہ آپ قرآن تو نہیں پڑھ رہے تھے، عہد لے رہے تھے ،لہذا الفاظ میں تبدیلی پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5016
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5017
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5005
تمہید کتاب
لغةًایمان امن سےہے ۔ امن کے معنی ہیں بے خوف ہونا ۔ اور ایمان کےمعنی ہییں بے خوف کرنا لیکن عموما اس لفظ کا استعمال مان لینے ، تسلیم کر لینے او ر تصدیق کرنے کے معانی میں ہوتا ہے اور وہ بھی غیبی امور میں ۔ قرآن وحدیث میں عموما ایمان واسلام ایک معنی میں استعمال ہونے ہیں ۔البتہ کبھی کبھی لغوی کی رعایت سے ان میں فرق بھی کیا گیا ہے ۔( قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا) (الحجرات 49:14)یہاں اسلام ،ظاہر ی اطاعت اور ایمان قلبی تصدیق کے معنی میں ہے ۔جمہور اہل سنت (صحابہ وتابعین)کےنزدیک ایمان ) اقرار باللسان و تصديق بالقلب و عمل بالجوارح کو کہتے ہیں ۔ مختصرا قول وعمل کو ایمان کہتے ہیں کیونکہ تصدیق عمل آجاتی ہے۔ اور وہ دل کا عمل ہے ۔اسی طرح اہل سنت کےنزدیک ایمان میں مختلف وجوہ سے کمی بیشی کے لحاظ سے ۔سلف کے بعد ائمہ ثلاثہ مالک،شافعی ،احمد اہل مدینہ اور تمام محدثین اسی بات کے قائل ہیں ۔ بدعتی فرقے ، مثلا جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ اور خوارج وغیرہ اہل سنت سے اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اہل سنت میں سے اشعری اور احناف بھی محدثین سے کچھ اختلاف رکھتے ہیں ، مثلا :احناف عمل کو ایمان کا جز نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایمان کا لازم قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح ایمان میں کمی بیشی کے بھی قائل نہیں ،ہاں اہل ایمان میں تفاضل کے قائل ہیں ۔ اہل سنت کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی واجب وفرض کے ترک یا کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بنا پر ایمان سےخارج نہیں کرتے جب کہ معتزلہ اور خوارج اس کوایمان سے خارج کردیتے ہیں بلکہ خوارج تو صراحتا کافر کہہ دتے ہیں ۔معاذ اللہ ۔ جہمیہ اور مرجئہ ویسے ہی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک صرف تصدیق قلب کافی ہے ۔مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم نبی اکرم ﷺ سے کے پاس ایک مجلس میں موجو د تھے۔ آپ نے فرمایا: ”مجھ سے بیعت کرو کہ اللہ تعالی ٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناؤ گے، چوری نہیں کرو گے ،زنا نہیں کروگے، آپ نے پوری آیت تلاوت فرمائی ۔(پھر فرمایا) ”جو شخص اس عہد کو پورا کر ے گا ، اس کا اجر وثواب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے ۔ اور جس شخص نے ان (مذکورہ کاموں) میں سے کسی کام کا ارتکاب کیا ،پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہوگا ۔چاہے اسے عذاب دے، چاہے معاف کرے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) یہ روایت پیچھے گزر چکی ہے اور ضروری تفصیل بیان ہو چکی ہے ۔بعیت سے مراد عہد ہے ۔ نیکی کے کاموں پر بیعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ وتابعین نے کسی ہاتھ پر بھی نہیں کی حتیٰ کہ خلفائے راشدین کے ہاتھ پر بھی نہیں کی ،لہذا اس بعیت کی اب ضرورت نہیں ۔ اگر چہ عقلی وشرعی طور پر اس میں کو ئی قباحت معلوم نہیں ہوتی مگر صحابہ وتابعین کا اسے مطلقا چھوڑ دینا بھی تو مظبوط دلیل ہے ۔ (2) ”پوری آیت پڑھی“ اس آیت سے سورہ ممتحنہ کی آیت مراد ہے جو عورتوں کی بیعت کے بارے میں اتر ی تھی ۔شاید آپنے مؤنث کے صغیے مذکر سے بدل لیے ہوں گے کیو نکہ آپ قرآن تو نہیں پڑھ رہے تھے، عہد لے رہے تھے ،لہذا الفاظ میں تبدیلی پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبادہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک مجلس میں نبی اکرم ﷺ کے پاس تھے تو آپ نے فرمایا: ”تم لوگ مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، نہ چوری کرو گے، نہ زنا کرو گے“ ، پھر آپ نے سورۃ الممتحنہ کی آیت پڑھی ۱؎ پھر فرمایا: ”تم میں سے جو اپنے اقرار کو پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، اور جو ان میں سے کوئی کام کرے گا پھر اللہ تعالیٰ اسے چھپا لے تو اب یہ اللہ تعالیٰ پر ہے کہ چاہے تو سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : وہ آیت یہ ہے : «يا أيها النبي إذا جائك المؤمنات يبايعنك» ( سورة الممتحنة : 12 )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Ubadah bin As-Samit said: "We were with the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) in a gathering and he said: 'Give me your pledge that you will not associate anything with Allah, you will not steal and you will not have unlawful sexual relations'- and then he recited the Verse to them. 'Whoever among you fulfills this pledge, his reward will be with Allah, and whoever commits any of those actions and Allah, the Mighty and Sublime, conceals him, it is up to Allah: If He wills, He will punish him, and if He wills, He will forgive him.