Sunan-nasai:
The Book Of Faith and its Signs
(Chapter: Religion is Easy)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5034.
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دین آسان ہے۔ جو شخص دین کو سخت بنائے گا، دین اس پر غالب آجائے گا، لہٰذا تم اپنے اعمال درست رکھو، میا نہ روی اختیار کرو، خوش رہو۔ لوگوں پر آسانی کرو، کچھ سفر پہلے پہر کر لیا کر، کچھ پچھلے پہر اور کچھ آخررات کو۔“
تشریح:
(1) ”دین آسان ہے“ یعنی جواحکام اللہ تعالیٰ نے مشروع فرمائے ہیں، وہ انسانی طاقت سےباہر نہیں۔ ان پ ریہ آسانی عمل ہو سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالی ٰ وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ یہ مطلب نہیں کہ جو کام مشکل نظر آئے وہ دین نہیں ہو سکتا کیونکہ بد نیت آدمی کے لیے تو دین کا ہر کام ہی مشکل ہے۔ (2) ”سخت بنائے گا“ یعنی دین میں طرف اپنی طرف سے سخت احکام و داخل کرے گا یا غلو کرے گا تو ایک وقت آئے گا کہ وہ خود اپنی پیدا کردہ سختی پر پورا نہیں اتر سکے گا۔ اور اس کا غلو اس کے گلے کا طوق بن جائے گا۔ (3) ”میانہ روی“ نوافل کے بارے میں ورنہ فرائض کی ادائیگی تو ہمیشہ ضرور ی ہے۔ نوافل اتنے ہی اختیار کرنے چاہییں جن پر آسانی اور ہمیشہ عمل ہو سکے۔ (4) ”خوش رہو“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ثواب ورحمت پر یقین رکھواور پر امید رہو۔ (5) ”کچھ سفر“ عمل کو سفر سے تشبیہ دی گئی ہے ۔سفر مناسب طریق سے کیا جائے تو مسافر اور سواری دونوں سہولت میں رہتے ہیں اور سفر بھی اچھا کٹتا ہے لیکن اگر سفر کو مسلسل جاری رکھا جائے اور سواری کو تھکا دیا جائے تو سفر منقطع ہوجاتا ہے۔ مسافر بھی بیمار پڑجاتا ہے۔ اسی طرح عمل بھی اختیار کیا جائے جس پر سہولت سےعمل ہوسکے، دیگر فرائض بھی ادا ہوسکیں اور جسم بھی کمزور نہ پڑے۔ عرب معاشرے میں یہ تین اوقات سفر کےلیے بہترین تھے۔ باقی اوقات آرام اور کھانے پینے کے لیے ہوتےتھے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5048
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5049
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5037
تمہید کتاب
لغةًایمان امن سےہے ۔ امن کے معنی ہیں بے خوف ہونا ۔ اور ایمان کےمعنی ہییں بے خوف کرنا لیکن عموما اس لفظ کا استعمال مان لینے ، تسلیم کر لینے او ر تصدیق کرنے کے معانی میں ہوتا ہے اور وہ بھی غیبی امور میں ۔ قرآن وحدیث میں عموما ایمان واسلام ایک معنی میں استعمال ہونے ہیں ۔البتہ کبھی کبھی لغوی کی رعایت سے ان میں فرق بھی کیا گیا ہے ۔( قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا) (الحجرات 49:14)یہاں اسلام ،ظاہر ی اطاعت اور ایمان قلبی تصدیق کے معنی میں ہے ۔جمہور اہل سنت (صحابہ وتابعین)کےنزدیک ایمان ) اقرار باللسان و تصديق بالقلب و عمل بالجوارح کو کہتے ہیں ۔ مختصرا قول وعمل کو ایمان کہتے ہیں کیونکہ تصدیق عمل آجاتی ہے۔ اور وہ دل کا عمل ہے ۔اسی طرح اہل سنت کےنزدیک ایمان میں مختلف وجوہ سے کمی بیشی کے لحاظ سے ۔سلف کے بعد ائمہ ثلاثہ مالک،شافعی ،احمد اہل مدینہ اور تمام محدثین اسی بات کے قائل ہیں ۔ بدعتی فرقے ، مثلا جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ اور خوارج وغیرہ اہل سنت سے اس مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں جن کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اہل سنت میں سے اشعری اور احناف بھی محدثین سے کچھ اختلاف رکھتے ہیں ، مثلا :احناف عمل کو ایمان کا جز نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایمان کا لازم قرار دیتے ہیں ۔اسی طرح ایمان میں کمی بیشی کے بھی قائل نہیں ،ہاں اہل ایمان میں تفاضل کے قائل ہیں ۔ اہل سنت کسی کلمہ گو مسلمان کو کسی واجب وفرض کے ترک یا کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بنا پر ایمان سےخارج نہیں کرتے جب کہ معتزلہ اور خوارج اس کوایمان سے خارج کردیتے ہیں بلکہ خوارج تو صراحتا کافر کہہ دتے ہیں ۔معاذ اللہ ۔ جہمیہ اور مرجئہ ویسے ہی عمل کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک صرف تصدیق قلب کافی ہے ۔مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دین آسان ہے۔ جو شخص دین کو سخت بنائے گا، دین اس پر غالب آجائے گا، لہٰذا تم اپنے اعمال درست رکھو، میا نہ روی اختیار کرو، خوش رہو۔ لوگوں پر آسانی کرو، کچھ سفر پہلے پہر کر لیا کر، کچھ پچھلے پہر اور کچھ آخررات کو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”دین آسان ہے“ یعنی جواحکام اللہ تعالیٰ نے مشروع فرمائے ہیں، وہ انسانی طاقت سےباہر نہیں۔ ان پ ریہ آسانی عمل ہو سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالی ٰ وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ یہ مطلب نہیں کہ جو کام مشکل نظر آئے وہ دین نہیں ہو سکتا کیونکہ بد نیت آدمی کے لیے تو دین کا ہر کام ہی مشکل ہے۔ (2) ”سخت بنائے گا“ یعنی دین میں طرف اپنی طرف سے سخت احکام و داخل کرے گا یا غلو کرے گا تو ایک وقت آئے گا کہ وہ خود اپنی پیدا کردہ سختی پر پورا نہیں اتر سکے گا۔ اور اس کا غلو اس کے گلے کا طوق بن جائے گا۔ (3) ”میانہ روی“ نوافل کے بارے میں ورنہ فرائض کی ادائیگی تو ہمیشہ ضرور ی ہے۔ نوافل اتنے ہی اختیار کرنے چاہییں جن پر آسانی اور ہمیشہ عمل ہو سکے۔ (4) ”خوش رہو“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ثواب ورحمت پر یقین رکھواور پر امید رہو۔ (5) ”کچھ سفر“ عمل کو سفر سے تشبیہ دی گئی ہے ۔سفر مناسب طریق سے کیا جائے تو مسافر اور سواری دونوں سہولت میں رہتے ہیں اور سفر بھی اچھا کٹتا ہے لیکن اگر سفر کو مسلسل جاری رکھا جائے اور سواری کو تھکا دیا جائے تو سفر منقطع ہوجاتا ہے۔ مسافر بھی بیمار پڑجاتا ہے۔ اسی طرح عمل بھی اختیار کیا جائے جس پر سہولت سےعمل ہوسکے، دیگر فرائض بھی ادا ہوسکیں اور جسم بھی کمزور نہ پڑے۔ عرب معاشرے میں یہ تین اوقات سفر کےلیے بہترین تھے۔ باقی اوقات آرام اور کھانے پینے کے لیے ہوتےتھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ دین آسان ہے اور جو دین میں (عملی طور پر) سختی برتے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا (اور اسے تھکا دے گا) لہٰذا صحیح راستے پر چلو (اگر مکمل طور سے عمل نہ کر سکو تو کم از کم) دین سے قریب رہو، لوگوں کو دین کے معاملے میں خوش رکھو (نفرت نہ پیدا کرو) انہیں آسانی دو اور صبح و شام اور کچھ رات گئے کی مدد سے اللہ کی عبادت کرو۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : ان اوقات سے مدد طلب کرنے کا مطلب ہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah said: 'Indeed, this religion is easy, and no one will ever overburden himself in religion, except that it will overcome him. So seek what is appropriate, and come as close as you can, and receive the glad tidings (that you will be rewarded), and take it easy; and gain strength by worshipping in the mornings, afternoons, and during the last hours of the nights.