Sunan-nasai:
The Book of Adornment
(Chapter: Braids)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5063.
حضرت ہبیرہ بن مریم سے منقول ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم مجھے کس کی قراءت کے مطابق پڑھنے پر مجبور کرتے ہو؟ (زید کی؟) جب کہ حقیقت یہ ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کو ستر سے زائد سورتیں سنا چکا تھا جب کہ زید کے سر پر دو مینڈھیاں ہوتی تھیں۔ وہ بچوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔
تشریح:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ ہے کہ میں قدیم الاسلام ہوں۔ قرآن کا بڑا قاری ہوں جب کہ حضرت زید بن ثابت توکل کا بچہ ہے۔ یہ مجھ سے بڑا قاری کیسے ہوسکتا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو قرآن جمع کرنے اور ترتیب دینے پر مامور فرمایا۔ انہوں نے بڑی جانفشانی سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن مجید جمع کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن مجید قریش کے لہجے میں مرتب فرمایا۔ ان کو اس اہم کام پر مامور کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ نوجوان اور تیز فہم تھے۔ قرآن مجید کے کاتب تھے۔ رسول اللہ ﷺ اور حضرت جبریل امین علیہ السلام کے درمیان ہوا تھا۔ گویا کہ وہ ناسخ منسوخ، قرآنی لہجہ اور ترتیب سور کے سب سے بڑے عالم اور واقف تھے۔ پھر ان کا حافظہ بھی قوی تھا، بخلاف اس کے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ابتدائی دور میں قرآن مجید پڑھا تھا۔ پھر وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں بوڑھے ہو چکے تھے۔ ظاہر ہے کہ بوڑھے آدمی کی یاد داشت جوان آدمی کے برابر نہیں ہو سکتی مگر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اپنی بات پر اڑے رہے اور تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے متفقہ نسخۂ قرآن کی مخالفت کرتے رہے۔ یہ ان کی فرو گزاشت تھی مگر ان کی جلالت، قدر اوربزرگی کی وجہ سے انہیں معذور قرار دیا گیا اور ان پر سختی نہ کی گئی۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ
حضرت ہبیرہ بن مریم سے منقول ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم مجھے کس کی قراءت کے مطابق پڑھنے پر مجبور کرتے ہو؟ (زید کی؟) جب کہ حقیقت یہ ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کو ستر سے زائد سورتیں سنا چکا تھا جب کہ زید کے سر پر دو مینڈھیاں ہوتی تھیں۔ وہ بچوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ ہے کہ میں قدیم الاسلام ہوں۔ قرآن کا بڑا قاری ہوں جب کہ حضرت زید بن ثابت توکل کا بچہ ہے۔ یہ مجھ سے بڑا قاری کیسے ہوسکتا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو قرآن جمع کرنے اور ترتیب دینے پر مامور فرمایا۔ انہوں نے بڑی جانفشانی سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن مجید جمع کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن مجید قریش کے لہجے میں مرتب فرمایا۔ ان کو اس اہم کام پر مامور کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ نوجوان اور تیز فہم تھے۔ قرآن مجید کے کاتب تھے۔ رسول اللہ ﷺ اور حضرت جبریل امین علیہ السلام کے درمیان ہوا تھا۔ گویا کہ وہ ناسخ منسوخ، قرآنی لہجہ اور ترتیب سور کے سب سے بڑے عالم اور واقف تھے۔ پھر ان کا حافظہ بھی قوی تھا، بخلاف اس کے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ابتدائی دور میں قرآن مجید پڑھا تھا۔ پھر وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں بوڑھے ہو چکے تھے۔ ظاہر ہے کہ بوڑھے آدمی کی یاد داشت جوان آدمی کے برابر نہیں ہو سکتی مگر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اپنی بات پر اڑے رہے اور تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے متفقہ نسخۂ قرآن کی مخالفت کرتے رہے۔ یہ ان کی فرو گزاشت تھی مگر ان کی جلالت، قدر اوربزرگی کی وجہ سے انہیں معذور قرار دیا گیا اور ان پر سختی نہ کی گئی۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ تم لوگ مجھے کس کی قرأت کے مطابق پڑھنے کے لیے کہتے ہو؟ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ستر سے زائد سورتیں پڑھیں، اس وقت زید (زید بن ثابت) کی دو چوٹیاں تھیں، وہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : لمبے بال کو «ذُؤَابه» کہتے ہیں، نہ کہ عورتوں کی طرح بندھی ہوئی چوٹی کو، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس اثر نیز اگلی حدیث سے سر کے اتنے بڑے بالوں کا جواز ثابت ہوتا ہے، کیونکہ ان دونوں (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وابن مسعود) نے اس پر اعتراض نہیں کیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبے بالوں کی بجائے انہیں چھوٹے کرنے کو زیادہ پسند کیا، جیسا کہ حدیث نمبر ۵۰۶۹ میں صراحت ہے (نیز ملاحظہ ہو: فتح الباري: کتاب اللباس ، باب الذوائب)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah bin Mas'ud said: "According to whose recitation do you want me to recite? Because I recited seventy-odd Surahs to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) when Zaid had two braids, and was playing with the other boys.