باب: عورتوں کےلیے زیورات اور سونے کی نمائش کی کراہت کابیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Adornment
(Chapter: Dislike for Women to Show Their Jewelry and Gold)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5136.
حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں کو زیورات اور ریشم سے روکتے تھے اور فرماتے تھے: اگر تم جنت کے زیورات اور ریشم پہننا چاہتے ہو تو ان کو دنیا میں نہ پہنو۔
تشریح:
(1) اہل بیت کا مقام و مرتبہ بہت بلند و بالا ہے۔ ان کے لیے بعض ایسی چیزیں بھی نامناسب قرار دی گئیں جو عام مسلمانوں کے لیے جائز تھیں۔ ہر بیوی اپنے خاوند سے نقفے وغیرہ کا مطالبہ کرسکتی ہے مگر ازواج مطہرات کو ہر قسم کے مطالبے سے روک دیا گیا۔ ان کو غلطی پر دگنی سزا کی وعید سنائی گئی جب کہ نیکی پر ان کا اجر بھی دوہرا ہے ارشاد باری تعالی ہے: ﴿يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا﴾(سورة الأحزاب ۳۱،۳۰:۳۳)”اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کوئی کھلی بے حیائی کا ارتکاب کرے، اسے دوہرا عذاب دیا جائے گا اور اللہ کے لیے یہ نہایت آسان ہے۔ اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے اور نیک عمل کرے تو ہم اسے اس کا اجر دوگنا دیں گے اور اس کے لیے ہم نے عزت کا رزق تیار کر رکھا ہے۔“ مذکورہ حدیث بھی اہل بیت کے ساتھ خاص ہے کہ ان کو زیورات اور ریشم سے روک دیا گیا جب کہ دوسری عورتوں کے لیےآپ نے صراحتاً فرمایا: (أُحِلَّالذَّهَبُ والحريرُ لإناثِ أمَّتي، وحُرِّمَ على ذُكورِها)”ریشم اور سونا میری امت کی عورتوں کے لیے حلال ہے، مردوں کےلیے حرام ہے۔“(جامع الترمذي، اللباس، حدیث :۱۷۲۰، وسنن النسائي، الزینة، باب تحریم الذهب علی الرجال، حدیث:۵۱۵۱) اس کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ پہننا جائز ہے، نمائش مکروہ ہے۔ (2) اس حدیث مبارکہ کی بابت قوی احتمال یہی ہے کہ وہ یہ امہات المومنین ازواج رسول کریم ﷺ کے ساتھ خاص ہے، تاہم مسلمان خواتین کے شایان شان اور ان کے لائق بھی یہی ہے کہ وہ جنت کے زیورات سے آراستہ ہونے اور جنت کے ریشم سے شاد کام ہونے کا خاطر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی اقتدا کرتے ہوئے دنیا میں سونے اور ریشم سے مزین ہونے سے حتی الامکان پرہیز کریں۔ ریشم اور سونا اگرچہ مسلمان خواتین کے لیے مباح اور حلال ہے، تاہم عزیمت اور استحباب اس میں ہے کہ ممکن حد تک دنیوی بناؤ سنگھار اور زیب و زینت سے محتاط رہا جائے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 597 :
أخرجه النسائي ( 2 / 284 ) و ابن حبان ( 1463 ) و الحاكم ( 4 / 191 ) و أحمد
( 4 / 145 ) من طريق عمرو بن الحارث أن أبا عشانة المعافري حدثه أنه سمع عقبة
بن عامر يخبر به .
و قال الحاكم : " صحيح على شرط الشيخين " . و تعقبه الذهبي بقوله :
" قلت : لم يخرجا لأبي عشانة " .
قلت : و اسمه حي بن يؤمن ، و هو ثقة .
قال السندي في حاشيته على النسائي .
" قوله : " أهله الحلية " بكسر فسكون . الظاهر أنه يمنع أزواجه الحلية مطلقا
سواء كان من ذهب أو فضة ، و لعل ذلك مخصوص بهم ، ليؤثروا الآخرة على الدنيا ،
و كذا الحرير ، و يحتمل أن المراد بـ ( الأهل ) الرجال من أهل البيت ، فالأمر
واضح " .
قلت : هذا الاحتمال بعيد غير متبادر فالاعتماد على ما ذكره أولا و الله أعلم .
و أقول : فهذا الحديث يدل على مثل ما دل عليه الحديث المشهور الذي سبق آنفا من
إباحة الحرير لسائر النساء ، إلا أنه قد يقال : إن الأولى بهن الرغبة عنه و عن
الحلية مطلقا تشبيها بنسائه صلى الله عليه وسلم ، لاسيما و قد ثبت عنه أنه
قال : ويل للنساء من الأحمرين : الذهب و المعصفر "
.المشكاة ( 4404 / التحقيق الثاني )
حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں کو زیورات اور ریشم سے روکتے تھے اور فرماتے تھے: اگر تم جنت کے زیورات اور ریشم پہننا چاہتے ہو تو ان کو دنیا میں نہ پہنو۔
حدیث حاشیہ:
(1) اہل بیت کا مقام و مرتبہ بہت بلند و بالا ہے۔ ان کے لیے بعض ایسی چیزیں بھی نامناسب قرار دی گئیں جو عام مسلمانوں کے لیے جائز تھیں۔ ہر بیوی اپنے خاوند سے نقفے وغیرہ کا مطالبہ کرسکتی ہے مگر ازواج مطہرات کو ہر قسم کے مطالبے سے روک دیا گیا۔ ان کو غلطی پر دگنی سزا کی وعید سنائی گئی جب کہ نیکی پر ان کا اجر بھی دوہرا ہے ارشاد باری تعالی ہے: ﴿يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا﴾(سورة الأحزاب ۳۱،۳۰:۳۳)”اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کوئی کھلی بے حیائی کا ارتکاب کرے، اسے دوہرا عذاب دیا جائے گا اور اللہ کے لیے یہ نہایت آسان ہے۔ اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے اور نیک عمل کرے تو ہم اسے اس کا اجر دوگنا دیں گے اور اس کے لیے ہم نے عزت کا رزق تیار کر رکھا ہے۔“ مذکورہ حدیث بھی اہل بیت کے ساتھ خاص ہے کہ ان کو زیورات اور ریشم سے روک دیا گیا جب کہ دوسری عورتوں کے لیےآپ نے صراحتاً فرمایا: (أُحِلَّالذَّهَبُ والحريرُ لإناثِ أمَّتي، وحُرِّمَ على ذُكورِها)”ریشم اور سونا میری امت کی عورتوں کے لیے حلال ہے، مردوں کےلیے حرام ہے۔“(جامع الترمذي، اللباس، حدیث :۱۷۲۰، وسنن النسائي، الزینة، باب تحریم الذهب علی الرجال، حدیث:۵۱۵۱) اس کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ پہننا جائز ہے، نمائش مکروہ ہے۔ (2) اس حدیث مبارکہ کی بابت قوی احتمال یہی ہے کہ وہ یہ امہات المومنین ازواج رسول کریم ﷺ کے ساتھ خاص ہے، تاہم مسلمان خواتین کے شایان شان اور ان کے لائق بھی یہی ہے کہ وہ جنت کے زیورات سے آراستہ ہونے اور جنت کے ریشم سے شاد کام ہونے کا خاطر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی اقتدا کرتے ہوئے دنیا میں سونے اور ریشم سے مزین ہونے سے حتی الامکان پرہیز کریں۔ ریشم اور سونا اگرچہ مسلمان خواتین کے لیے مباح اور حلال ہے، تاہم عزیمت اور استحباب اس میں ہے کہ ممکن حد تک دنیوی بناؤ سنگھار اور زیب و زینت سے محتاط رہا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عقبہ بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر والوں کو زیورات اور ریشم سے منع فرماتے تھے اور فرماتے: ”اگر تم لوگ جنت کے زیورات اور اس کا ریشم چاہتے ہو تو اسے دنیا میں نہ پہنو۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس باب میں مذکور بعض احادیث میں عورتوں کے لیے بھی سونے کے استعمال کو حرام بتایا گیا ہے ، مؤلف نیز جمہور أئمہ عورتوں کے لیے سونے کے مطلق استعمال کے جواز کے قائل ہیں ، اس لیے مؤلف نے ان احادیث کی گویا ایک طرح سے تاویل کرتے ہوئے یہ باب باندھا ہے ، یعنی : ان احادیث میں جو عورتوں کے لیے سونے کے زیورات کو حرام قرار دیا گیا ہے ، وہ اس صورت میں ہے جب وہ ان کو پہن کر بطور فخر و مباہات کی نمائش کرتی پھریں ، ورنہ ہر طرح کا سونے کا زیور عورتوں کے لیے حلال ہے ، بعض علماء ان احادیث کو اس حدیث سے منسوخ مانتے ہیں ، ” رسول+اللہ+صلی+اللہ+علیہ+وسلم+نے+فرمایا : سونا اور ریشم کو مردوں کے لیے حرام کر دیا گیا ہے ، اور عورتوں کے حلال کر دیا گیا ہے “ ، اس حدیث میں کوئی قید نہیں کہ سونے کا زیور حلقہ دار ہو یا ٹکڑے والا ، علامہ البانی نے دونوں طرح کی احادیث میں تطبیق کی راہ یہ نکالی ہے ( جس کی تائید بعض احادیث سے بھی ہوتی ہے ) کہ عورتوں کے لیے حلقہ دار سونے کا زیور ( جیسے کنگن ، بالی اور انگوٹھی وغیرہ ) حرام ہے ، ہاں ٹکڑے ٹکڑے والا زیور حلال ہے جیسے بٹن ، ٹپ ، اور ایسا ہار جس کا بعض حصہ دھاگہ ہو ، وغیرہ وغیرہ ، احتیاط علامہ البانی کے قول ہی میں ہے ۔ ( ملاحظہ ہو : آداب الزفاف للألبانی )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Uqbah bin 'Amir narrated that: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) used to tell his wives not to wear jewelry and silk. He said: "If you want the jewelry and silk of Paradise, then do not wear them in this world.