Sunan-nasai:
Mention The Fitrah (The Natural Inclination Of Man)
(Chapter: Restricting The Amount Of Water)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
52.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سےروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اس پانی کے بارے میں پوچھا گیا جس پر عام جانور اور درندے (پانی پینے اور نہانے کے لیے) آتے جاتے رہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’جب پانی دو مٹکے (یا اس سے زائد) ہو تو وہ (مذکورہ چیزوں سے) پلید نہیں ہوتا۔‘‘
تشریح:
(1) باب کا مقصد ماء کثیر کی حد بیان کرنا ہے، جو معمولی نجاست سے پلید نہیں ہوتا بشرطیکہ رنگ، بو اور ذائقہ نہ بدلے۔ (2) [قُلَّة] بڑے مٹکے کو کہتے ہیں، اس کے چھوٹے اور بڑے ہونے کی وجہ سے اس کی مقدار میں اختلاف رائے واقع ہوا ہے۔ لیکن عرب میں ھجر (شہر یا بستی کا نام) کے مٹکے مشہور و معروف تھے۔ شعراء نے اپنے اشعار میں بکثرت اس کا استعمال کیا ہے اور امثال میں بھی اسے بہت بیان کیا ہے۔ حدیث میں بیان شدہ مٹکے سے یہی ھجر کا مٹکا مراد ہے، دوسرا کوئی مٹکا مراد نہیں ہوسکتا۔ اور ان کے مٹکے میں اڑھائی سورطل پانی کے سمانے کی گنجائش تھی، لہٰذا دو قلعوں کے پانی کی مقدار پانچ صد رطل ہوئی جو موجودہ زمانے کے پیمانے کے مطابق دو سو ستائیس کلوگرام ہوتی ہے۔ (3) شریعت نے قلیل پانی اور کثیر پانی کے حکم میں فرق کیا ہے۔ قلیل پانی تو تھوڑی سی نجاست سے بھی پلید ہو جاتا ہے، خواہ رنگ، بو اور ذائقہ تبدیل نہ بھی ہو، مگر کثیر پانی اس وقت تک پلید نہیں ہوتا جب تک نجاست کی وجہ سے اس کا رنگ یا بو یا ذائقہ تبدیل نہ ہو جائے۔ ظاہر ہے قلیل پانی برتن میں ہوگا اور برتن والے پانی کی حفاظت ممکن اور آسان ہے جب کہ کثیر پانی کسی کھلی جگہ میں ہوگا اور کھلے پانی کی حفاظت ممکن نہیں۔ ہوا اور بارش کے ذریعے سے اس میں مختلف چیزیں گرتی رہتی ہیں۔ جانوروں اور پرندوں کی نجاست بھی اس میں گرتی رہتی ہے۔ اگر تھوڑی سی نجاست سے اسے پلید قرار دے دیا جاتا تو لوگوں کو انتہائی تنگی کا سامنا کرنا پڑتا۔ تنگی دور کرنا بھی شریعت کا مستقل ضابطہ ہے، لہٰذا کھلا پانی اس وقت تک پاک رہتا ہے جب تک اس میں اتنی زیادہ نجاست نہ مل جائے کہ رنگ، بو اور ذائقہ تک بدل جائے۔ (4) اس حدیث میں اگرچہ رنگ، بو اور ذائقے کا ذکر نہیں، مگر دوسری احادیث میں صراحتاً مذکور ہے۔ فتویٰ دیتے ہوئے کسی ایک روایت کو بنیاد نہیں بنایا جا سکتا، بلکہ پیش آمدہ مسئلے سے متعلقہ تمام آیات و احادیث اور آثار کو مدنظر رکھ کر ہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ (5) علمائے احناف نے اس تحدید کو تو تسلیم نہیں کیا مگر اپنی طرف سے دَہ در دَہ (10x10) کی حد مقرر کی ہے، اس کے علاوہ ان میں باہم سخت اختلاف بھی ہے یہاں تک کہ ان کے فقہاء کے قلیل و کثیر پانی کی تحدید کے متعلق چودہ اقوال ہیں۔ (6) پانی سے متعلق تفصیلی احکام و مسائل کی بابت کتاب المیاہ کا ابتدائیہ دیکھیے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سےروایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اس پانی کے بارے میں پوچھا گیا جس پر عام جانور اور درندے (پانی پینے اور نہانے کے لیے) آتے جاتے رہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’جب پانی دو مٹکے (یا اس سے زائد) ہو تو وہ (مذکورہ چیزوں سے) پلید نہیں ہوتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) باب کا مقصد ماء کثیر کی حد بیان کرنا ہے، جو معمولی نجاست سے پلید نہیں ہوتا بشرطیکہ رنگ، بو اور ذائقہ نہ بدلے۔ (2) [قُلَّة] بڑے مٹکے کو کہتے ہیں، اس کے چھوٹے اور بڑے ہونے کی وجہ سے اس کی مقدار میں اختلاف رائے واقع ہوا ہے۔ لیکن عرب میں ھجر (شہر یا بستی کا نام) کے مٹکے مشہور و معروف تھے۔ شعراء نے اپنے اشعار میں بکثرت اس کا استعمال کیا ہے اور امثال میں بھی اسے بہت بیان کیا ہے۔ حدیث میں بیان شدہ مٹکے سے یہی ھجر کا مٹکا مراد ہے، دوسرا کوئی مٹکا مراد نہیں ہوسکتا۔ اور ان کے مٹکے میں اڑھائی سورطل پانی کے سمانے کی گنجائش تھی، لہٰذا دو قلعوں کے پانی کی مقدار پانچ صد رطل ہوئی جو موجودہ زمانے کے پیمانے کے مطابق دو سو ستائیس کلوگرام ہوتی ہے۔ (3) شریعت نے قلیل پانی اور کثیر پانی کے حکم میں فرق کیا ہے۔ قلیل پانی تو تھوڑی سی نجاست سے بھی پلید ہو جاتا ہے، خواہ رنگ، بو اور ذائقہ تبدیل نہ بھی ہو، مگر کثیر پانی اس وقت تک پلید نہیں ہوتا جب تک نجاست کی وجہ سے اس کا رنگ یا بو یا ذائقہ تبدیل نہ ہو جائے۔ ظاہر ہے قلیل پانی برتن میں ہوگا اور برتن والے پانی کی حفاظت ممکن اور آسان ہے جب کہ کثیر پانی کسی کھلی جگہ میں ہوگا اور کھلے پانی کی حفاظت ممکن نہیں۔ ہوا اور بارش کے ذریعے سے اس میں مختلف چیزیں گرتی رہتی ہیں۔ جانوروں اور پرندوں کی نجاست بھی اس میں گرتی رہتی ہے۔ اگر تھوڑی سی نجاست سے اسے پلید قرار دے دیا جاتا تو لوگوں کو انتہائی تنگی کا سامنا کرنا پڑتا۔ تنگی دور کرنا بھی شریعت کا مستقل ضابطہ ہے، لہٰذا کھلا پانی اس وقت تک پاک رہتا ہے جب تک اس میں اتنی زیادہ نجاست نہ مل جائے کہ رنگ، بو اور ذائقہ تک بدل جائے۔ (4) اس حدیث میں اگرچہ رنگ، بو اور ذائقے کا ذکر نہیں، مگر دوسری احادیث میں صراحتاً مذکور ہے۔ فتویٰ دیتے ہوئے کسی ایک روایت کو بنیاد نہیں بنایا جا سکتا، بلکہ پیش آمدہ مسئلے سے متعلقہ تمام آیات و احادیث اور آثار کو مدنظر رکھ کر ہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ (5) علمائے احناف نے اس تحدید کو تو تسلیم نہیں کیا مگر اپنی طرف سے دَہ در دَہ (10x10) کی حد مقرر کی ہے، اس کے علاوہ ان میں باہم سخت اختلاف بھی ہے یہاں تک کہ ان کے فقہاء کے قلیل و کثیر پانی کی تحدید کے متعلق چودہ اقوال ہیں۔ (6) پانی سے متعلق تفصیلی احکام و مسائل کی بابت کتاب المیاہ کا ابتدائیہ دیکھیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے اس پانی کے بارے میں پوچھا گیا جس پر چوپائے اور درندے آتے جاتے ہوں، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ” جب پانی دو قلہ ۱؎ ہو تو وہ گندگی کو اثر انداز نہیں ہونے دے گا۔“ یعنی اسے دفع کر دے گا ؟ ۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ مطلب نہیں کہ وہ نجاست اٹھانے سے عاجز ہو گا کیونکہ یہ معنی لینے کی صورت میں «قلتین» (دو قلہ) کی تحدید بے معنی ہو جائے گی ۔ «قُلّة» سے مراد بڑا مٹکا ہوتا ہے کہ جس میں پانچ سو رطل پانی آتا ہے، یعنی اڑھائی مشک ۔ ۲؎ : حاکم کی روایت میں «لم يحمل الخبث» کی جگہ «لم ينجسه شيء» ہے، جس سے «لم يحمل الخبث» کے معنی کی وضاحت ہوتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from ‘Abdullah bin ‘Abdullah bin ‘Umar that his father said: “The Messenger of Allah (ﷺ) was asked about water and how some animals and carnivorous beasts might drink from it. He said: ‘If the water is more than two Qullahs, it will not carry filth.” (Sahih)