Sunan-nasai:
The Book of Adornment
(Chapter: Calming Down One's Hair)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5236.
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپ نے ایک آدمی کو دیکھا جس کے سر کےبال بکھرے ہوئے تھے۔ آپ نے (ناپسند کرتے ہوئے) فرمایا: ”کیا اسے کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جس سے اپنے بالوں کو سنوار سکے۔“
تشریح:
1۔ مقصد یہ ہے کہ جب کوئی شخص لمبے بال اور زلفیں رکھے تو اسے چاہیے کہ ان کی عزت کرے، یعنی انہیں سنوار کر رکھے، تیل لگائے اور کنگھی کرے، نیز انہیں پراگندہ ہونے سے محفوظ رکھے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: [مَنكانلهشَعَرٌ، فَلْيُكرِمْهُ]”جس شخص نے بال رکھے ہوں تو اسے چاہیے کہ ان کی عزت کرے، یعنی انہیں بنا سنوار کر رکھے۔“(سنن أبي داؤد، الترجل، باب فی اصلاح الشعر، حدیث: ۴۱۶۳، وقال الألباني حسن صحیح) بالوں کی عزت یعنی انہیں سنوارنے کا یہ مفہوم قطعاً نہیں کہ ایک شیشہ اور کنگھی ہمیشہ جیب کی زینت بنی رہے۔ اس حوالے سے کچھ روایات بھی منقول ہیں لیکن وہ درجہ صحت کو نہیں پہنچیں۔ ہاں بوقت ضرورت ان کا خیال کیا جائے، اور اس کی حد ایک دن چھوڑ کر کنگھی کرنا ہے بلا ناغہ ٹیپ ٹاپ کی ممانعت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: [أن رسولُ اللهِ ﷺ نهى عن الترجُّلِ إلّاغِبًّا](سنن أبي داؤد، الترجل، باب النهى عن كثير من الإرفاء، حدیث: ۴۱۵۹) ”رسول اکرم ﷺ نے ہمیں روزانہ کنگھی کرنے سے منع فرمایا۔“ (2) میلا کچیلا رہنا اور بالوں کو نہ سنوارنا زہد ہے نہ سادگی بلکہ یہ حماقت اور جہالت ہے، جو کسی بھی طرح ایک باوقار اور قابل احترام مسلمان کے لائق نہیں۔ اسلام انتہائی صاف ستھرا اور پاکیزہ دین ہے اور اپنے پیروکاروں سے بھی پاکیزگی اور صاف ستھرائی کا تقاضا کرتا ہے۔ مزید برآں رسول کریم ﷺ کاارشاد گرامی ہے: [إنَّ اللهَ جميلٌ يُحِبُّالجمالَ]”بلاشبہ اللہ تعالیٰ حسین و جمیل ہے اور حسن و جمال کو پسند فرماتا ہے۔“ (مسند أحمد: ۴/ ۱۳۳،۱۳۴)
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في السلسلة الصحيحة 1 / 811 :
رواه أبو داود ( رقم 4062 ) و النسائي ( 2 / 292 ) الشطر الأول منه و أحمد
( 3 / 357 ) و دحيم في الأمالي ( 25 / 2 ) و أبو يعلى في مسنده
( ق 114 / 1 ) و ابن حبان ( 1438 ) و الحاكم ( 4 / 186 ) و أبو نعيم في
الحلية ( 6 / 78 ) عن الأوزاعي عن حسان بن عطية عن محمد بن المنكدر عن
جابر بن عبد الله قال :
أتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم ( زائرا في منزلنا ) فرأى رجلا شعثا قد
تفرق شعره فقال ... فذكره .
و السياق لأبي داود و الزيادة لأحمد .
قلت : و هذا سند صحيح على شرط الشيخين كما قال الحاكم ، و وافقه الذهبي .
و الحديث أورده الغزالي في الإحياء ( 1 / 122 ) بلفظ :
دخل عليه صلى الله عليه وسلم رجل ثائر الرأس ، أشعث اللحية ، فقال : أما كان
لهذا دهن يسكن به شعره ؟ ! ثم قال : يدخل أحدكم كأنه شيطان ؟ ! .
فقال الحافظ العراقي في تخريجه :
رواه أبو داود و الترمذي و ابن حبان من حديث جابر بإسناد جيد .
قلت : عزوه للترمذي خطأ ، و لعله جاء من قبل الناسخ أو الطابع فهو قد عزاه إلى
المخرجين بطريقة الرمز ، فرمز إلى الترمذي منهم بحرف ( ت ) فتصحف على الناسخ
أو غيره من ( ن ) و هو النسائي ، و قد علمت أنه أخرجه مختصرا .
ثم إنه ليس في حديث جابر عند أحد من مخرجيه ذكر للحية أصلا ، و لا قوله :
يدخل أحدكم كأنه شيطان .
و إنما ورد ذلك في حديث عطاء بن يسار قال :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد ، فدخل رجل ثائر الرأس و اللحية
فأشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده : أن اخرج ، كأنه يعني إصلاح شعر
رأسه و لحيته ، ففعل الرجل ، ثم رجع ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : هذا
خير من أن يأتي أحدكم ثائر الرأس كأنه شيطان .
أخرجه مالك في الموطأ ( 2 / 949 / 7 ) بسند صحيح ، و لكنه مرسل .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5250
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5251
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5238
تمہید کتاب
مجتبیٰ ، سنن کبری ہی سے مختصر ہے ، اس لیے مجتبی کی اکثر روایات سنن کبری میں آتی ہین ۔ كتاب الزينة (سنن كبرى) میں آئندہ روایات میں سےگزر چکی ہیں ۔ بہت سی روایات نئی بھی ہیں ۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپ نے ایک آدمی کو دیکھا جس کے سر کےبال بکھرے ہوئے تھے۔ آپ نے (ناپسند کرتے ہوئے) فرمایا: ”کیا اسے کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جس سے اپنے بالوں کو سنوار سکے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ مقصد یہ ہے کہ جب کوئی شخص لمبے بال اور زلفیں رکھے تو اسے چاہیے کہ ان کی عزت کرے، یعنی انہیں سنوار کر رکھے، تیل لگائے اور کنگھی کرے، نیز انہیں پراگندہ ہونے سے محفوظ رکھے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: [مَنكانلهشَعَرٌ، فَلْيُكرِمْهُ]”جس شخص نے بال رکھے ہوں تو اسے چاہیے کہ ان کی عزت کرے، یعنی انہیں بنا سنوار کر رکھے۔“(سنن أبي داؤد، الترجل، باب فی اصلاح الشعر، حدیث: ۴۱۶۳، وقال الألباني حسن صحیح) بالوں کی عزت یعنی انہیں سنوارنے کا یہ مفہوم قطعاً نہیں کہ ایک شیشہ اور کنگھی ہمیشہ جیب کی زینت بنی رہے۔ اس حوالے سے کچھ روایات بھی منقول ہیں لیکن وہ درجہ صحت کو نہیں پہنچیں۔ ہاں بوقت ضرورت ان کا خیال کیا جائے، اور اس کی حد ایک دن چھوڑ کر کنگھی کرنا ہے بلا ناغہ ٹیپ ٹاپ کی ممانعت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: [أن رسولُ اللهِ ﷺ نهى عن الترجُّلِ إلّاغِبًّا](سنن أبي داؤد، الترجل، باب النهى عن كثير من الإرفاء، حدیث: ۴۱۵۹) ”رسول اکرم ﷺ نے ہمیں روزانہ کنگھی کرنے سے منع فرمایا۔“ (2) میلا کچیلا رہنا اور بالوں کو نہ سنوارنا زہد ہے نہ سادگی بلکہ یہ حماقت اور جہالت ہے، جو کسی بھی طرح ایک باوقار اور قابل احترام مسلمان کے لائق نہیں۔ اسلام انتہائی صاف ستھرا اور پاکیزہ دین ہے اور اپنے پیروکاروں سے بھی پاکیزگی اور صاف ستھرائی کا تقاضا کرتا ہے۔ مزید برآں رسول کریم ﷺ کاارشاد گرامی ہے: [إنَّ اللهَ جميلٌ يُحِبُّالجمالَ]”بلاشبہ اللہ تعالیٰ حسین و جمیل ہے اور حسن و جمال کو پسند فرماتا ہے۔“ (مسند أحمد: ۴/ ۱۳۳،۱۳۴)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم ﷺ آئے، آپ نے ایک شخص کو دیکھا، اس کے سر کے بال الجھے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا: ”کیا اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہے جس سے اپنے بال ٹھیک رکھ سکے۔؟“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Jabir bin 'Abdullah said: "The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) came to us and saw a man with wild hair. He said: 'Could this man not find anything with which to calm down his hair?