Sunan-nasai:
The Book of Adornment
(Chapter: Parting the Hair)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5238.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے سر کے بال لٹکائے ركھتے (بالوں میں مانگ نہیں نکالا کرتے تھے) جب کہ مشرکین اپنے سر کے بالوں کی مانگ نکالتے۔ اور رسول اللہ ﷺ کو جب تک کسی بات کے متعلق (بذریعہ وحی) کوئی حکم نہ آتا تو آپ اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے۔ پھر اس کے بعد رسول اللہ ﷺ بھی (سرمیں) مانگ نکالنے لگے تھے۔
تشریح:
(1) عادات میں جب تک نہی نہ آئے جواز قائم رہتا ہے۔ چونکہ مانگ نکالنے سے نہی وارد نہیں ہوئی لہٰذا مانگ نکالنا جائز ہے اور نہ نکالنا بھی جائز ہے کیونکہ نکالنے کا حکم وارد نہیں۔ آپ سے مانگ نکالنا بھی ثابت ہے اور نہ نکالنا بھی۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس کی بابت شریعت نے کوئی مخصوص حکم نہیں دیا۔ حالات کے تحت دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کیا جاسکتا ہے ۔ ایسے مسائل میں آپ کا اہل کتاب کی موافقت کرنا ان کی تالیف قلب کے لیے تھا کہ شاید وہ اسلام کی طرف مائل ہو جائیں مگر جب محسوس فرمایا کہ ان کے لیے موافقت بھی مفید نہیں تو آپ نے ان کی موافقت چھوڑ دی۔ رسول اللہ ﷺ کو اہل کتاب کی موافقت اس لیے موافقت بھی مفید نہیں توآپ نے ان کی موافقت چھوڑ دی۔ رسول اللہ ﷺ کو اہل کتاب کی موافقت اس لیے بھی پسند تھی کہ وہ کم از کم دعوے کی حد تک ہی سہی سماوی دین پر عمل پیرا ہونے کے دعویدار تھے۔ اس کے برعکس مشرکین تو پکے بت پرست تھے۔ (2) مانگ سر کے درمیان میں نکالنے چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ درمیان میں مانگ نکالنا ہی تھی۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5252
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5253
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5240
تمہید کتاب
مجتبیٰ ، سنن کبری ہی سے مختصر ہے ، اس لیے مجتبی کی اکثر روایات سنن کبری میں آتی ہین ۔ كتاب الزينة (سنن كبرى) میں آئندہ روایات میں سےگزر چکی ہیں ۔ بہت سی روایات نئی بھی ہیں ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے سر کے بال لٹکائے ركھتے (بالوں میں مانگ نہیں نکالا کرتے تھے) جب کہ مشرکین اپنے سر کے بالوں کی مانگ نکالتے۔ اور رسول اللہ ﷺ کو جب تک کسی بات کے متعلق (بذریعہ وحی) کوئی حکم نہ آتا تو آپ اہل کتاب کی موافقت پسند فرماتے تھے۔ پھر اس کے بعد رسول اللہ ﷺ بھی (سرمیں) مانگ نکالنے لگے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) عادات میں جب تک نہی نہ آئے جواز قائم رہتا ہے۔ چونکہ مانگ نکالنے سے نہی وارد نہیں ہوئی لہٰذا مانگ نکالنا جائز ہے اور نہ نکالنا بھی جائز ہے کیونکہ نکالنے کا حکم وارد نہیں۔ آپ سے مانگ نکالنا بھی ثابت ہے اور نہ نکالنا بھی۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس کی بابت شریعت نے کوئی مخصوص حکم نہیں دیا۔ حالات کے تحت دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کیا جاسکتا ہے ۔ ایسے مسائل میں آپ کا اہل کتاب کی موافقت کرنا ان کی تالیف قلب کے لیے تھا کہ شاید وہ اسلام کی طرف مائل ہو جائیں مگر جب محسوس فرمایا کہ ان کے لیے موافقت بھی مفید نہیں تو آپ نے ان کی موافقت چھوڑ دی۔ رسول اللہ ﷺ کو اہل کتاب کی موافقت اس لیے موافقت بھی مفید نہیں توآپ نے ان کی موافقت چھوڑ دی۔ رسول اللہ ﷺ کو اہل کتاب کی موافقت اس لیے بھی پسند تھی کہ وہ کم از کم دعوے کی حد تک ہی سہی سماوی دین پر عمل پیرا ہونے کے دعویدار تھے۔ اس کے برعکس مشرکین تو پکے بت پرست تھے۔ (2) مانگ سر کے درمیان میں نکالنے چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ درمیان میں مانگ نکالنا ہی تھی۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے بال چھوڑ دیتے تھے اور کفار و مشرکین بالوں میں مانگ نکالتے تھے، آپ ایسے معاملات میں جن میں کوئی حکم نہ ملتا اہل کتاب (یہود و نصاری) کی موافقت پسند فرماتے تھے، پھر اس کے بعد آپ نے بھی مانگ نکالی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Abbas that: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) used to let his hair hang down (without a parting) and the Mushrikun used to part their hair. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) liked to act in accordance with the People of the Book, in matters where no specific command had been given to him. Then the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) parted his hair after that.