Sunan-nasai:
The Book of Adornment
(Chapter: Wearing Ad-Dibaj Interwoven With Gold)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5302.
حضرت واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ سے روایت ہے کہ جب حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ تشریف لائے تو میں ان کے پاس حاضر ہوا اور سلام عرض کیا۔ انہوں نے کہا: تو کن میں سے ہے؟ میں نے کہا: میں واقد بن عمرو ہوں۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا پوتا۔ انہوں نے کہا: حضرت سعد رضی اللہ عنہ بڑے سردار اور لمبے قد کے آدمی تھے۔پھر(ان کو یاد کرکے) روئے اور بہت روئے پھر فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے دومتہ الجندل کے حکمران اکیدر کی طرف ایک لشکر بھیجا تو اس نے (اطاعت قبول کی اور) آپ کی خدمت میں ریشم کا ایک حلہ بھیجا جوسونے کے تاروں سے بنا گیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے زیب تن کیا پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ صرف بیٹھے رہے۔ کوئی تقریر نہیں فرمائی۔ کچھ دیر بعد اتر آئے۔ لوگ ہاتھ لگا لگا کر حلے کو دیکھتے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم اس (کی عمدگی اور نرمی) پر تعجب کرتے ہو؟ اللہ کی قسم! (حضرت) سعد بن معاذ کے (ہاتھ منہ کی صفائی والے) رومال جنت میں اس سے کہیں بڑھ کر خوب صروت ہیں۔“
تشریح:
(1) اما م نسائی رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب سے مقصد یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ریشم کا ایسا جوڑا زیب تن کیا تھا جس کی بنائی سونے کے تاروں سے کی گئی تھی۔ امام صاحب کا مقصد یہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں مذکور الفاظ فلبسه رسول الله ﷺ شاذ ہیں۔ یہ حدیث صحیح بخاری میں بھی مذکور ہے لیکن اس میں یہ الفاظ (جنہیں شاذ کہا گیا ہے) نہیں ہیں بہر حال یہ امام نسائی رحمہ اللہ کا اپنا رجحان ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اگلا باب اس کے نسخ کے متعلق قائم کیا ہے۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کےلیے دیکھیے: (ذخیرة العقبی شرح سنن النسائي:۳۹/ ۲۸، ۲۹) (2) اس حدیث مبارکہ سے قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور جنت میں اعلیٰ مقام نیز اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی قدرو منزلت معلوم ہوتی ہے کہ ان کے ”اونی کپڑے“ دنیا کے قیمتی اور بہترین ریشم سے بہتر ہیں کیونکہ تولیہ یا ہاتھ صاف کرنے والا رومال دیگر کپڑوں اور لباس کے مقابلے میں انتہائی کم قیمت اورگھٹیا ہوتا ہے جب وہ اس قدر قیمتی ہے تو ان کے استعمال کے دوسرے کپڑے اور لباس کس قدر بہتر اور قیمتی ہوں گے۔ (3) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ مشرک کا ہدیہ قبول کیا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں مذکورہ حدیث پر ان الفاظ سے عنوان قائم کیا ہے: ”قبول الهدية من المشركين“(صحیح البخاري: الهبة وفضلها والتحريض عليها، باب۲۸) (4) ”تشریف لائے“ حضرت انس رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ کے انصاری تھے مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں وہ بصرہ چلے گئے۔ کبھی کبھی اپنی جنم بھومی ”مدینہ منورہ“ میں تشریف لاتے تھے۔ (5) ”لمبے قد کے“ ان کے پوتے واقد بھی لمبے قد کاٹھ کے تھے اس لیے ان کو دیکھ کر یہ ذکر فرمایا۔ (6) ”رومال“ عربی میں لفظ مندیل استعمال ہوا ہے۔ مندیل چھوٹے رومال کو کہتے ہیں جو گردوغبار صاف کرنے کےلیے ہاتھ میں رکھا جاتا ہے۔ عموماً یہ باقی لباس سے کم تر ہوتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5316
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5317
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5304
تمہید کتاب
مجتبیٰ ، سنن کبری ہی سے مختصر ہے ، اس لیے مجتبی کی اکثر روایات سنن کبری میں آتی ہین ۔ كتاب الزينة (سنن كبرى) میں آئندہ روایات میں سےگزر چکی ہیں ۔ بہت سی روایات نئی بھی ہیں ۔
حضرت واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ سے روایت ہے کہ جب حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ تشریف لائے تو میں ان کے پاس حاضر ہوا اور سلام عرض کیا۔ انہوں نے کہا: تو کن میں سے ہے؟ میں نے کہا: میں واقد بن عمرو ہوں۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا پوتا۔ انہوں نے کہا: حضرت سعد رضی اللہ عنہ بڑے سردار اور لمبے قد کے آدمی تھے۔پھر(ان کو یاد کرکے) روئے اور بہت روئے پھر فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے دومتہ الجندل کے حکمران اکیدر کی طرف ایک لشکر بھیجا تو اس نے (اطاعت قبول کی اور) آپ کی خدمت میں ریشم کا ایک حلہ بھیجا جوسونے کے تاروں سے بنا گیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے زیب تن کیا پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ صرف بیٹھے رہے۔ کوئی تقریر نہیں فرمائی۔ کچھ دیر بعد اتر آئے۔ لوگ ہاتھ لگا لگا کر حلے کو دیکھتے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم اس (کی عمدگی اور نرمی) پر تعجب کرتے ہو؟ اللہ کی قسم! (حضرت) سعد بن معاذ کے (ہاتھ منہ کی صفائی والے) رومال جنت میں اس سے کہیں بڑھ کر خوب صروت ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اما م نسائی رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب سے مقصد یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ریشم کا ایسا جوڑا زیب تن کیا تھا جس کی بنائی سونے کے تاروں سے کی گئی تھی۔ امام صاحب کا مقصد یہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں مذکور الفاظ فلبسه رسول الله ﷺ شاذ ہیں۔ یہ حدیث صحیح بخاری میں بھی مذکور ہے لیکن اس میں یہ الفاظ (جنہیں شاذ کہا گیا ہے) نہیں ہیں بہر حال یہ امام نسائی رحمہ اللہ کا اپنا رجحان ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اگلا باب اس کے نسخ کے متعلق قائم کیا ہے۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کےلیے دیکھیے: (ذخیرة العقبی شرح سنن النسائي:۳۹/ ۲۸، ۲۹) (2) اس حدیث مبارکہ سے قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور جنت میں اعلیٰ مقام نیز اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی قدرو منزلت معلوم ہوتی ہے کہ ان کے ”اونی کپڑے“ دنیا کے قیمتی اور بہترین ریشم سے بہتر ہیں کیونکہ تولیہ یا ہاتھ صاف کرنے والا رومال دیگر کپڑوں اور لباس کے مقابلے میں انتہائی کم قیمت اورگھٹیا ہوتا ہے جب وہ اس قدر قیمتی ہے تو ان کے استعمال کے دوسرے کپڑے اور لباس کس قدر بہتر اور قیمتی ہوں گے۔ (3) یہ حدیث مبارکہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ مشرک کا ہدیہ قبول کیا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں مذکورہ حدیث پر ان الفاظ سے عنوان قائم کیا ہے: ”قبول الهدية من المشركين“(صحیح البخاري: الهبة وفضلها والتحريض عليها، باب۲۸) (4) ”تشریف لائے“ حضرت انس رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ کے انصاری تھے مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں وہ بصرہ چلے گئے۔ کبھی کبھی اپنی جنم بھومی ”مدینہ منورہ“ میں تشریف لاتے تھے۔ (5) ”لمبے قد کے“ ان کے پوتے واقد بھی لمبے قد کاٹھ کے تھے اس لیے ان کو دیکھ کر یہ ذکر فرمایا۔ (6) ”رومال“ عربی میں لفظ مندیل استعمال ہوا ہے۔ مندیل چھوٹے رومال کو کہتے ہیں جو گردوغبار صاف کرنے کےلیے ہاتھ میں رکھا جاتا ہے۔ عموماً یہ باقی لباس سے کم تر ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ کہتے ہیں کہ انس بن مالک ؓ جب مدینے آئے، تو میں ان کے پاس گیا، میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے کہا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں واقد بن عمرو بن سعد بن معاذ ہوں، وہ بولے: سعد تو بہت عظیم شخص تھے اور لوگوں میں سب سے لمبے تھے، پھر وہ رو پڑے اور بہت روئے، پھر بولے: رسول اللہ ﷺ نے دومۃ کے بادشاہ اکیدر کے پاس ایک وفد بھیجا، تو اس نے آپ کے پاس دیبا کا ایک جبہ بھیجا، جس میں سونے کی کاریگری تھی، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے پہنا، پھر آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور بیٹھ گئے، پھر کچھ کہے بغیر اتر گئے، لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھونے لگے، تو آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں اس پر تعجب ہے؟ سعد کے رومال جنت میں اس سے کہیں زیادہ بہتر ہیں جسے تم دیکھ رہے ہو۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : دیبا نامی ایسا ریشمی کپڑا پہننا منسوخ ہے، جیسا کہ اگلی روایت میں آ رہا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Waqid bin 'Amr bin Sa'd bin Mu'adh said: "I entered upon 'Anas bin Malik (RA) when he came to Al-Madinah and greeted him with Salam. He said: 'Where are you from?' I said: 'I am Waqid bin 'Amr bin Sa'd bin Mu'adh.' He said: 'Sa'd was the greatest and most virtuous of people.' Then he wept a great deal, then he said: 'The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) sent a delegation to Ukaidir the ruler of Dumah, who sent him a Jubbah made of Ad-Dibaj interwoven with gold. The Messenger of Allah put it on, then he stood on the Minbar and sat, without speaking, then he came down and the people started touching it with their hands. He said: 'Are you admiring this? The handkerchiefs of Sa'd in Paradise are more beautiful than what you see.