Sunan-nasai:
The Book of Adornment
(Chapter: Stern Warning Against Dragging One's Izar)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5326.
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک دفعہ ایک شخص تکبر سے اپنا تہبند زمین پر گھسیٹتا چلا جارہا تھا کہ اسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ وہ قیامت تک زمین میں دھنستا ہی رہے گا۔“
تشریح:
(1) تہ بند، شلوار اور پینٹ وغیرہ زمین پر گھسیٹ کر چلنا کبیرہ گناہ ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے: جوشخص اپنا کپڑا (تہبند، شلوار اور پینٹ) زمین پر گھسیٹ کر چلتا ہے تو اس کی دو ہی وجہیں ہو سکتی ہیں: ایک تو یہ کہ ایسا کرنے والا شخص ازراہِ تکبر ہی اس طرح کرتا ہے۔ یہ شرعا ناجائز ہے اور حرام ہے اور قیامت والے دن ایسے شخص کی طرف اللہ نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا، نہ ایسے شخص سے کلام فرمائے گا اور نہ اسے پاک ہی کرے گا بلکہ اس کے لیے درد ناک عذاب ہو گا: (صحیح مسلم، الأیمان، باب بیان غلظ تحریم اسبال الإزار ........حدیث :۲۹۳، ۲۹۴) دوسری وجہ غفلت وسستی اور مداہنت ہے۔ احکام شریعت کی بجا آوری میں سستی وغفلت و مداہنت بھی جرم ہے اس لیے ایسے شخص کی بابت رسول اللہ ﷺ کا واضح فرمان ہے: ”ٹخنوں سے نیچے جہاں تک تہبند ہو گا تو وہ (حصہ جسم) کی آگ میں جلے گا۔“ (صحیح البخاري ،اللباس، باب ما أسفل الکعبین فھو فی النار، حدیث ۵۷۸) یہ بات یاد رہے کہ چار قسم کے لوگ اس وعید سے شدید مستثنی ہیں: ٭عورتیں کہ ان کو حکم ہے کہ وہ اپنا کپڑا اتنا نیچے کریں کہ چلتے وقت پاؤں ننگے نہ ہوں۔ ٭اٹھتے وقت بے خیالی میں کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہو جائے۔ ٭کسی کا پیٹ اور توندی بڑی ہو یا کمر پتلی ہو اور کوشش کے باوجود کبھی کبھار کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہو جائے۔ ٭پاؤں یا ٹخنوں سے نیچے کوئی زخم ہو تو گردوغبار اورمکھیوں سے حفاظت کے پیش نظر کپڑا نیچے کرنا۔ (مختصر صحیح بخاری (اردو) فوائد حدیث :۱۹۸۴) (2) ”ایک شخص“ یہ شخص امت مسلمہ سے نہیں بلکہ بنی اسرائیل سے تھا۔ ظاہر تویہی ہے کہ قارون کے علاوہ کوئی اور شخص ہو گا۔ واللہ أعلم.
الحکم التفصیلی:
السلسلة الصحيحه:1507
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 4 / 11 :
أخرجه البزار في " مسنده " ( ص 170 - زوائده ) : حدثنا عبد الله بن سعيد حدثنا
عبد الرحمن بن محمد المحاربي حدثنا رشدين بن كريب عن أبيه قال : " كنت أقود ابن
عباس في زقاق أبي لهب ، و ذلك بعدما ذهب بصره ، فقال : سمعت أبي يقول :
سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : " . فذكره .
قلت : و هذا إسناد رجاله ثقات رجال الشيخين غير رشدين بن كريب و هو ضعيف كما في
" التقريب " ، و قد اضطرب في لفظه ، فرواه تارة هكذا ، و تارة على أنها قصة
وقعت في عهد النبي صلى الله عليه وسلم و بين يديه ! فقال : أبو يعلى في " مسنده
" ( 4 / 1580 ) : حدثنا الحسن بن حماد الكوفي أخبرنا عبد الرحمن بن محمد
المحاربي عن ابن كريب عن أبيه قال : " كنت أقود ابن عباس في زقاق أبي لهب ،
فقال : يا كريب ! بلغنا مكان كذا و كذا ؟ قلت : أنت عنده الآن ، فقال : حدثني
العباس بن عبد المطلب قال : " بينما أنا مع النبى صلى الله عليه وسلم في هذا
الموضع ، إذ أقبل رجل يتبختر بين برديه و ينظر إلى عطفيه و قد أعجبته نفسه ، إذ
خسف الله به الأرض في هذا الموطن ، فهو يتجلجل فيها إلى يوم القيامة " . و هذا
إسناد رجاله ثقات أيضا غير رشدين ، و بهذا اللفظ أورده الهيثمي في " المجمع " (
5 / 125 ) و قال : " رواه أبو يعلى و الطبراني و البزار بنحوه باختصار ، و فيه
رشدين بن كريب و هو ضعيف " .
قلت : و اللفظ الأول أقرب إلى الصواب لأن له شاهدا من حديث عبد الله بن عمر
و أبي هريرة مرفوعا بلفظ : " بينما رجل يجر إزاره إذ خسف به ، فهو يتجلجل في
الأرض إلى يوم القيامة " . أخرجه البخاري ( 4 / 73 ) .
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5340
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5341
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5328
تمہید کتاب
مجتبیٰ ، سنن کبری ہی سے مختصر ہے ، اس لیے مجتبی کی اکثر روایات سنن کبری میں آتی ہین ۔ كتاب الزينة (سنن كبرى) میں آئندہ روایات میں سےگزر چکی ہیں ۔ بہت سی روایات نئی بھی ہیں ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک دفعہ ایک شخص تکبر سے اپنا تہبند زمین پر گھسیٹتا چلا جارہا تھا کہ اسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔ وہ قیامت تک زمین میں دھنستا ہی رہے گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) تہ بند، شلوار اور پینٹ وغیرہ زمین پر گھسیٹ کر چلنا کبیرہ گناہ ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے: جوشخص اپنا کپڑا (تہبند، شلوار اور پینٹ) زمین پر گھسیٹ کر چلتا ہے تو اس کی دو ہی وجہیں ہو سکتی ہیں: ایک تو یہ کہ ایسا کرنے والا شخص ازراہِ تکبر ہی اس طرح کرتا ہے۔ یہ شرعا ناجائز ہے اور حرام ہے اور قیامت والے دن ایسے شخص کی طرف اللہ نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا، نہ ایسے شخص سے کلام فرمائے گا اور نہ اسے پاک ہی کرے گا بلکہ اس کے لیے درد ناک عذاب ہو گا: (صحیح مسلم، الأیمان، باب بیان غلظ تحریم اسبال الإزار ........حدیث :۲۹۳، ۲۹۴) دوسری وجہ غفلت وسستی اور مداہنت ہے۔ احکام شریعت کی بجا آوری میں سستی وغفلت و مداہنت بھی جرم ہے اس لیے ایسے شخص کی بابت رسول اللہ ﷺ کا واضح فرمان ہے: ”ٹخنوں سے نیچے جہاں تک تہبند ہو گا تو وہ (حصہ جسم) کی آگ میں جلے گا۔“ (صحیح البخاري ،اللباس، باب ما أسفل الکعبین فھو فی النار، حدیث ۵۷۸) یہ بات یاد رہے کہ چار قسم کے لوگ اس وعید سے شدید مستثنی ہیں: ٭عورتیں کہ ان کو حکم ہے کہ وہ اپنا کپڑا اتنا نیچے کریں کہ چلتے وقت پاؤں ننگے نہ ہوں۔ ٭اٹھتے وقت بے خیالی میں کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہو جائے۔ ٭کسی کا پیٹ اور توندی بڑی ہو یا کمر پتلی ہو اور کوشش کے باوجود کبھی کبھار کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہو جائے۔ ٭پاؤں یا ٹخنوں سے نیچے کوئی زخم ہو تو گردوغبار اورمکھیوں سے حفاظت کے پیش نظر کپڑا نیچے کرنا۔ (مختصر صحیح بخاری (اردو) فوائد حدیث :۱۹۸۴) (2) ”ایک شخص“ یہ شخص امت مسلمہ سے نہیں بلکہ بنی اسرائیل سے تھا۔ ظاہر تویہی ہے کہ قارون کے علاوہ کوئی اور شخص ہو گا۔ واللہ أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک شخص تکبر (گھمنڈ) سے اپنا تہبند لٹکاتا تھا) تو اسے زمین میں دھنسا دیا گیا، چنانچہ وہ قیامت تک زمین میں دھنستا جا رہا ہے۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اگر کسی مجبوری سے خود سے پاجامہ (تہبند) ٹخنے سے نیچے آ جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور ”تکبر سے“ کی قید احتراز نہیں ہے، (کہ اگر تکبر سے تہبند لٹکائے تو حرام ہے، ورنہ نہیں) بلکہ یہ لفظ اس لیے آیا ہے کہ عام طور سے تہبند کا لٹکانا پہلے تکبر اور گھمنڈ ہی سے ہوتا تھا، بہت سی روایات میں لفظ «خیلاء» نہیں ہے، «ازار» میں وہ سارے کپڑے شامل ہیں جو تہبند (لنگی) کی جگہ پہنے جاتے ہیں، دیکھئیے حدیث نمبر ۵۳۳۱، ۵۳۳۷۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Abdullah bin 'Umar that: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "While a man was dragging his Izar out of pride, the earth swallowed him up, and he will continue sinking into it until the Day of Resurrection.