Sunan-nasai:
The Book of Adornment
(Chapter: Keeping Servants and Mounts)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5372.
حضرت سمرہ بن سہم سے روایت ہے کہ میں حضرت ہاشم عتبہ رضی اللہ عنہ کا مہمان بنا۔ ان کو طاعون کا عارضہ لاحق ہوچکا تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ان کی بیمارپرسی کے لیے آئے تو حضرت ابو ہاشم رونے لگے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ کیوں رو رہے ہیں؟ کیا کوئی تکلیف آپ کو بے چین کر رہی ہے؟ یا دنیا (سے جانے) کا غم ہے جب کہ آپ کی دنیا کا بہترین حصہ گزر چکا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ان دونوں میں سے کوئی نصیحت فرمائی تھی۔ کاش میں اس پر قائم رہتا آپﷺ نے فرمایا تھا: شاید تجھ پر وہ دور آئے جب لوگوں میں بے تحاشا مال تقسیم کیے جائیں گے۔ تجھے صرف ایک نوکر اور ایک سواری جہاد کے لیے کافی ہے۔“ (واقعتاً وہ دور یا مال) میں نے پایا لیکن میں نے زیادہ مال جمع کر لیا۔
تشریح:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ آدمی نوکر اور سواری رکھ سکتا ہے۔ یہ عیش عشرت یا عیاشی کے قبیل سے نہیں بلکہ ایک ضرورت ہے۔ (2) یہ حدیث مبارکہ دنیا، اس کی رنگینیوں، نیز دنیا کی نعمتوں اور اس کا زیادہ مال و متاع جمع کرنے سے بے رغبتی پر دلالت کرتی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ایک بندۂ مومن کی کوشش دنیا کمانے کی بجائے آخرت کمانے کی ہوتی ہے اور اس کی اصل ترجیح اس فانی دنیا کی نعمتوں کا حصول نہیں بلکہ ابدی و دائمی اور لازوال اخروی نعمتوں کا حصول ہی ہوتی ہے۔ حرام اور ناجائز کمائی کے ڈھیر جمع کرنے کی بجائے تھوڑی لیکن حلال اور پاکیزہ کمائی پر توجہ دینا ہی فرض ہے۔ اس کی واضح دلیل حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا انداز حیات ہے۔ اللّهُمَّ وَفقنا لما تحِبُّه و تر ضاه (3) ”بہترین حصہ“ یعنی رسول اللہ ﷺ کی رفاقت یا جوانی والا۔ (4) ”مال“ یعنی غنیمتیں زیادہ ہوں گی۔ (5) ”جمع کرلیا“ یہ ان کی کسر نفسی تھی ورنہ انہوں نے کوئی ترکہ نہیں چھوڑا تھا۔ رضي الله عنه وأرضاه۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5386
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5387
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5374
تمہید کتاب
مجتبیٰ ، سنن کبری ہی سے مختصر ہے ، اس لیے مجتبی کی اکثر روایات سنن کبری میں آتی ہین ۔ كتاب الزينة (سنن كبرى) میں آئندہ روایات میں سےگزر چکی ہیں ۔ بہت سی روایات نئی بھی ہیں ۔
حضرت سمرہ بن سہم سے روایت ہے کہ میں حضرت ہاشم عتبہ رضی اللہ عنہ کا مہمان بنا۔ ان کو طاعون کا عارضہ لاحق ہوچکا تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ان کی بیمارپرسی کے لیے آئے تو حضرت ابو ہاشم رونے لگے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ کیوں رو رہے ہیں؟ کیا کوئی تکلیف آپ کو بے چین کر رہی ہے؟ یا دنیا (سے جانے) کا غم ہے جب کہ آپ کی دنیا کا بہترین حصہ گزر چکا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ان دونوں میں سے کوئی نصیحت فرمائی تھی۔ کاش میں اس پر قائم رہتا آپﷺ نے فرمایا تھا: شاید تجھ پر وہ دور آئے جب لوگوں میں بے تحاشا مال تقسیم کیے جائیں گے۔ تجھے صرف ایک نوکر اور ایک سواری جہاد کے لیے کافی ہے۔“ (واقعتاً وہ دور یا مال) میں نے پایا لیکن میں نے زیادہ مال جمع کر لیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ مسئلہ بیان کرنا ہے کہ آدمی نوکر اور سواری رکھ سکتا ہے۔ یہ عیش عشرت یا عیاشی کے قبیل سے نہیں بلکہ ایک ضرورت ہے۔ (2) یہ حدیث مبارکہ دنیا، اس کی رنگینیوں، نیز دنیا کی نعمتوں اور اس کا زیادہ مال و متاع جمع کرنے سے بے رغبتی پر دلالت کرتی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ایک بندۂ مومن کی کوشش دنیا کمانے کی بجائے آخرت کمانے کی ہوتی ہے اور اس کی اصل ترجیح اس فانی دنیا کی نعمتوں کا حصول نہیں بلکہ ابدی و دائمی اور لازوال اخروی نعمتوں کا حصول ہی ہوتی ہے۔ حرام اور ناجائز کمائی کے ڈھیر جمع کرنے کی بجائے تھوڑی لیکن حلال اور پاکیزہ کمائی پر توجہ دینا ہی فرض ہے۔ اس کی واضح دلیل حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا انداز حیات ہے۔ اللّهُمَّ وَفقنا لما تحِبُّه و تر ضاه (3) ”بہترین حصہ“ یعنی رسول اللہ ﷺ کی رفاقت یا جوانی والا۔ (4) ”مال“ یعنی غنیمتیں زیادہ ہوں گی۔ (5) ”جمع کرلیا“ یہ ان کی کسر نفسی تھی ورنہ انہوں نے کوئی ترکہ نہیں چھوڑا تھا۔ رضي الله عنه وأرضاه۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابووائل سے روایت ہے کہ سمرہ بن سہم جو ابووائل کے قبیلے کے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے ابوہاشم بن عتبہ ؓ کے یہاں ٹھہرا، وہ طاعون میں مبتلا تھے، چنانچہ ان کی عیادت کے لیے معاویہ ؓ آئے، تو ابوہاشم رونے لگے، معاویہ ؓ نے کہا: کیوں رو رہے ہو؟ کیا کسی تکلیف کی وجہ سے رو رہے ہو یا دنیا کے لیے؟ دنیا کی راحت تو اب گئی، انہوں نے کہا: ایسی کوئی بات نہیں ہے، دراصل مجھے رسول اللہ ﷺ کا ایک عہد یاد آ گیا جو آپ نے مجھ سے لیا تھا، میں چاہتا تھا کہ میں اس کی پیروی کروں ، آپ نے فرمایا: ”تیرے سامنے ایسے اموال آئیں گے جو لوگوں کے درمیان تقسیم کیے جائیں گے، لیکن تمہارے لیے اس میں سے صرف ایک خادم اور اللہ کی راہ کے لیے ایک سواری کافی ہے، لیکن میں نے مال پایا پھر اسے جمع کیا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Samurah bin Sahm said: "I came to Abu Hashim bin 'Utbah when he was suffering the plague, and Mu'awiyah came to visit him. Abu Hashim wept. Mu'awiyah said to him: 'Why are you weeping? Is it because of some pain that is hurting you, or is it for this world, the best of which has gone?' He said: 'Neither, but the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) gave me some advice, which I wish that I had followed. He said: "Perhaps you will live to see wealth that will be distributed among the people when all that would suffice you of that would be a servant and a mount to ride in the cause of Allah." I lived to see that, and I accumulated (wealth).