Sunan-nasai:
The Book of the Etiquette of Judges
(Chapter: Ruling According to the Consensus of the Scholars)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5399.
حضرت شریح سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے حضرت عمررضی اللہ عنہ کو خط لکھا۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کرو۔ اگر وہ مسئلہ کتاب اللہ میں نہ ہو تو سنت رسول اللہ کے مطابق فیصلہ کرو اور اگر وہ مسئلہ کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی سنت میں مذکور نہ ہو تو پھر سلف صالحین کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کرو اور اگر وہ مسئلہ نہ کتاب اللہ میں ہو، نہ رسول اللہ ﷺ کی سنت میں ہو اور نہ اس کے بارے میں سلف صالحین سے کوئی فیصلہ منقول ہو تو پھر تیری مرضی ہے، چاہے تو آگے بڑھ (کر جواب دے) اور چاہے تو پیچھے ہٹ جا (خاموشی اختیار کر)۔ اور میرے خیال میں خاموشی ہی تیرے لیے بہتر ہے۔ والسلام علیکم
تشریح:
”خاموشی بہتر ہے“ کیونکہ اجتہاد میں غلطی کا امکان بہر صورت موجود رہتا ہے۔ ان روایات سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث اور اجماع کے بعد اجتہاد یا قیاس کا درجہ ہے، یعنی اگر کوئی مسئلہ قرآن حدیث میں مذکور نہ ہو اور اس بارے میں اجماع بھی موجود نہ ہو تو اسے اجتہاد و قیاس سے حل کیا جائے گا بشرطیکہ اجتہاد کرنے والا صاحب علم ہو، اجتہاد کے قابل ہولیکن اگر کوئی مسئلہ قرآن و حدیث میں موجود ہو یا اس کےبارے میں صحابہ یا تابعین کا اجماع پایا جاتا ہو تو اس کے بارے میں اجتہاد جائز نہیں کیونکہ اجتہاد سے مراد منصوص مسائل میں تبدیلی کرنا نہیں بلکہ غیر منصوص مسائل کا حل معلوم کرنا ہے۔ آج کل بعض علم سے بے بہرہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اجتہاد کا مطلب قرآن و سنت کے احکام معلوم کرنا ہے آج کل بعض علم سے بے بہرہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اجتہاد کا مطلب قرآن و سنت کے احکام میں تبدیلی کرنا ہے اور ان کے بقول قرآن و سنت کے مسائل کو موجودہ حالات کے مطابق کرنا ہے، حالانکہ حق یہ ہے حالات کو قرآن و سنت کے مطابق بدلنا چاہیے نہ کہ قرآن و سنت میں حالات کے مطابق تبدیلی کرنی چاہیے۔
حضرت شریح سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے حضرت عمررضی اللہ عنہ کو خط لکھا۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کرو۔ اگر وہ مسئلہ کتاب اللہ میں نہ ہو تو سنت رسول اللہ کے مطابق فیصلہ کرو اور اگر وہ مسئلہ کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی سنت میں مذکور نہ ہو تو پھر سلف صالحین کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کرو اور اگر وہ مسئلہ نہ کتاب اللہ میں ہو، نہ رسول اللہ ﷺ کی سنت میں ہو اور نہ اس کے بارے میں سلف صالحین سے کوئی فیصلہ منقول ہو تو پھر تیری مرضی ہے، چاہے تو آگے بڑھ (کر جواب دے) اور چاہے تو پیچھے ہٹ جا (خاموشی اختیار کر)۔ اور میرے خیال میں خاموشی ہی تیرے لیے بہتر ہے۔ والسلام علیکم
حدیث حاشیہ:
”خاموشی بہتر ہے“ کیونکہ اجتہاد میں غلطی کا امکان بہر صورت موجود رہتا ہے۔ ان روایات سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث اور اجماع کے بعد اجتہاد یا قیاس کا درجہ ہے، یعنی اگر کوئی مسئلہ قرآن حدیث میں مذکور نہ ہو اور اس بارے میں اجماع بھی موجود نہ ہو تو اسے اجتہاد و قیاس سے حل کیا جائے گا بشرطیکہ اجتہاد کرنے والا صاحب علم ہو، اجتہاد کے قابل ہولیکن اگر کوئی مسئلہ قرآن و حدیث میں موجود ہو یا اس کےبارے میں صحابہ یا تابعین کا اجماع پایا جاتا ہو تو اس کے بارے میں اجتہاد جائز نہیں کیونکہ اجتہاد سے مراد منصوص مسائل میں تبدیلی کرنا نہیں بلکہ غیر منصوص مسائل کا حل معلوم کرنا ہے۔ آج کل بعض علم سے بے بہرہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اجتہاد کا مطلب قرآن و سنت کے احکام معلوم کرنا ہے آج کل بعض علم سے بے بہرہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اجتہاد کا مطلب قرآن و سنت کے احکام میں تبدیلی کرنا ہے اور ان کے بقول قرآن و سنت کے مسائل کو موجودہ حالات کے مطابق کرنا ہے، حالانکہ حق یہ ہے حالات کو قرآن و سنت کے مطابق بدلنا چاہیے نہ کہ قرآن و سنت میں حالات کے مطابق تبدیلی کرنی چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
شریح سے روایت ہے کہ انہوں نے عمر ؓ سے ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے انہیں ایک خط لکھا تو انہوں نے لکھا: فیصلہ کرو اس کے مطابق جو کتاب اللہ (قرآن) میں ہے، اور اگر وہ کتاب اللہ (قرآن) میں نہ ہو تو سنت رسول (حدیث) کے مطابق، اور اگر وہ نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ سنت رسول (حدیث) میں تو اس کے مطابق فیصلہ کرو جو نیک لوگوں نے کیا تھا، اور اگر وہ نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ سنت رسول ﷺ میں اور نہ ہی نیک لوگوں کا کوئی فیصلہ ہو تو اگر تم چاہو تو آگے بڑھو (اور اپنی عقل سے کام لے کر فیصلہ کرو) اور اگر چاہو تو پیچھے رہو (فیصلہ نہ کرو) اور میں پیچھے رہنے ہی کو تمہارے حق میں بہتر سمجھتا ہوں۔ والسلام علیکم۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Shuraih that: He wrote to 'Umar, to ask him (a question), and 'Umar wrote back to him telling him: "Judge according to what is in the Book of Allah. If it is not (mentioned) in the Book of Allah, then (judge) according to the Sunnah of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم). If it is not (mentioned) in the Book of Allah or the Sunnah of the Messenger of Allah, then pass judgment according to the way the righteous passed judgment. If it is not (mentioned) in the Book of Allah, or the Sunnah of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم), and the righteous did not pass judgment concerning it, then if you wish, go ahead (and try to work it out by yourself) or if you wish, leave it. And I think that leaving it is better for you. And peace be upon you.