Sunan-nasai:
The Book of the Etiquette of Judges
(Chapter: Judgment Based on What is Apparent)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5401.
حضرت ام سلمہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میرے پاس مقدمات لاتے ہو۔ میں بھی ایک انسان ہوں۔ ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی شخص اپنی دلیل کو فریق ثانی سے زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کر سکتا ہو، لہٰذا اگر میں (ظاہر دلائل کی بنا پر) کسی شخص کے لیے اس کے بھائی کے حق کا فیصل کر دوں تو وہ اسے نہ لے۔ یوں سمجھے میں اسے آگ کا ٹکڑا دے رہا ہوں۔“
تشریح:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ اہم مسئلہ بیان کرنا ہے کہ قاضی اور جج ظاہری دلائل کے مطابق فیصلہ کرے گا، اس لیے اگر کسی قاضی یا حاکم وغیرہ نے غلط فیصلہ کر دیا تو غلط ہی ہوگا اور ناجائز بھی۔ کسی بھی شخص کے ناجائز فیصلہ کرنے سے وہ فیصلہ شرعی طور پر جائز قرار نہیں پاتا۔ قاضی، ثالث یا حاکم اور جج وغیرہ کے سامنے جس قسم کے دلائل ہوں گے، وہ انہیں کے مطابق فیصلہ صادر کریں گے، اس لیے ان کے فیصلہ کرنے سے نہ کوئی حرام کام حلال قرار پائے گا اور نہ حلال کام حرام ہی ہوگا بلکہ اس کا وبال غلط دلائل مہیا کرنے والے کے سر ہوگا۔ (2) باطل پر ڈٹ جانا، نیز باطل کی حمایت اور وکالت کرنا شرعاً حرام اور ناجائز ہے۔ جو وکیل ناجائز اور باطل کیس لڑتا ہے اور ان کا معاوضہ لیتا ہے، وہ خود بھی حرام کھاتا اور اپنے اہل عیال کو بھی حرام ہی کھلاتا ہے۔ أعاذنا اللہ منه (3) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑا مجتہد بھی غلطی کر سکتا ہے اور اس کی غلطی شرعاً غلطی ہی ہوگی، ظاہر دلائل کی وجہ سے وہ چیز حقیقت میں حلال یا حرام نہیں ہوگی، تاہم مجتہد کو اپنے اجتہاد اور کوشش کرنے کا اجر و ثواب ضرور ملے گا بشرطیکہ اس نے جان بوجھ کر غلطی نہ کی ہو۔ جانتے بوجھتے غلطی کرنے والا تو گناہ گار ہوگا۔ (4) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس مسئلے کی بابت وحی نازل نہ ہوئی ہوتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بابت اپنے اجتہاد سے فیصلہ فرماتے ۔ واللہ أعلم (5) ”انسان ہوں“ دلائل سمجھنے میں غلطی لگ سکتی ہے۔ غیب دان نہیں کہ عین حقیقت پر پہنچ جاؤں۔ میں ظاہری دلائل کی بنا پر فیصلہ کر سکتا ہوں۔
حضرت ام سلمہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میرے پاس مقدمات لاتے ہو۔ میں بھی ایک انسان ہوں۔ ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی شخص اپنی دلیل کو فریق ثانی سے زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کر سکتا ہو، لہٰذا اگر میں (ظاہر دلائل کی بنا پر) کسی شخص کے لیے اس کے بھائی کے حق کا فیصل کر دوں تو وہ اسے نہ لے۔ یوں سمجھے میں اسے آگ کا ٹکڑا دے رہا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ اہم مسئلہ بیان کرنا ہے کہ قاضی اور جج ظاہری دلائل کے مطابق فیصلہ کرے گا، اس لیے اگر کسی قاضی یا حاکم وغیرہ نے غلط فیصلہ کر دیا تو غلط ہی ہوگا اور ناجائز بھی۔ کسی بھی شخص کے ناجائز فیصلہ کرنے سے وہ فیصلہ شرعی طور پر جائز قرار نہیں پاتا۔ قاضی، ثالث یا حاکم اور جج وغیرہ کے سامنے جس قسم کے دلائل ہوں گے، وہ انہیں کے مطابق فیصلہ صادر کریں گے، اس لیے ان کے فیصلہ کرنے سے نہ کوئی حرام کام حلال قرار پائے گا اور نہ حلال کام حرام ہی ہوگا بلکہ اس کا وبال غلط دلائل مہیا کرنے والے کے سر ہوگا۔ (2) باطل پر ڈٹ جانا، نیز باطل کی حمایت اور وکالت کرنا شرعاً حرام اور ناجائز ہے۔ جو وکیل ناجائز اور باطل کیس لڑتا ہے اور ان کا معاوضہ لیتا ہے، وہ خود بھی حرام کھاتا اور اپنے اہل عیال کو بھی حرام ہی کھلاتا ہے۔ أعاذنا اللہ منه (3) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑا مجتہد بھی غلطی کر سکتا ہے اور اس کی غلطی شرعاً غلطی ہی ہوگی، ظاہر دلائل کی وجہ سے وہ چیز حقیقت میں حلال یا حرام نہیں ہوگی، تاہم مجتہد کو اپنے اجتہاد اور کوشش کرنے کا اجر و ثواب ضرور ملے گا بشرطیکہ اس نے جان بوجھ کر غلطی نہ کی ہو۔ جانتے بوجھتے غلطی کرنے والا تو گناہ گار ہوگا۔ (4) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس مسئلے کی بابت وحی نازل نہ ہوئی ہوتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بابت اپنے اجتہاد سے فیصلہ فرماتے ۔ واللہ أعلم (5) ”انسان ہوں“ دلائل سمجھنے میں غلطی لگ سکتی ہے۔ غیب دان نہیں کہ عین حقیقت پر پہنچ جاؤں۔ میں ظاہری دلائل کی بنا پر فیصلہ کر سکتا ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم لوگ میرے سامنے مقدمات لاتے ہو، میں تو بس تمہاری طرح ایک انسان ہوں۱؎، ممکن ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو، لہٰذا اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا حق دلا دوں (اور وہ حقیقت میں اس کا نہ ہو) تو اسے وہ نہ لے کیونکہ میں تو اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی غیب کا علم صرف اللہ کو ہے، میں تو صرف ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ کرتا ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Umm Salamah that: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "You refer your disputes to me, but I am only human, and some of you may be more eloquent in arguing their case than others. If I pass judgment in favor of one of you, against his brother's rights, let him not take it, for it is a piece of fire that I am giving him.