Sunan-nasai:
The Book of the Etiquette of Judges
(Chapter: Ruling of a Judge Based on His Knowledge)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5402.
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا: ”دو عورتیں تھیں۔ ان کے ساتھ ان کے دو بیٹے بھی تھے۔ بھیڑیا آیا اور ایک کے بیٹے کو اٹھا کر لے گیا۔ یہ (جس کا بچہ بھیڑیا اٹھا کر لےگیا) دوسری کو کہنے لگی: وہ تیرے بیٹے کو لے گیا ہے۔ دونوں حضرت داود ؑ کے پاس فیصلہ لے گئیں۔ آپ نے بڑی کے حق میں فیصلہ کر دیا ۔ وہ باہر نکلیں تو حضرت سلیمان بن داؤد ؑ ملے۔ انہوں نے ان سے پورا واقعہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا: میرے پاس چھری لاؤ۔ میں اسے کاٹ کر دونوں میں تقسیم کردوں۔ چھوٹی بولی: اللہ تعالیٰ آپ رحم کرے! ایسے نہ کریں۔ یہ اسی کا بیٹا ہے آپ نے وہ چھوٹی کو دے دیا۔“ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ نے فرمایا: میں نے سِكِّيْن کا لفظ اسی دن سنا ورنہ ہم چھری کو مُدْيَهُ کہتے تھے۔
تشریح:
(1) ”بڑی کے حق میں“ کیونکہ بچہ اس کے ہاتھ میں تھا۔ دلیل کسی کے پاس نہیں تھی۔ انہوں نے ظاہری قبضے کی رعایت سے فیصلہ کر دیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے حکمت سے کام لیا اور حقیقت تک پہنچ گئے۔ باب کا مقصد بھی یہی ہے کہ قاضی اپنی ذہانت سے بھی معاملے کی تہہ تک پہنچ کر حقیقت کے مطابق فیصلہ کر سکتا ہے، خواہ گوہ اور دلائل نہ ہوں مگر یہ تب ہے جب حاکم یا قاضی کے خلاف بدگمانی پیدا نہ ہوتی ہو، نیز فریق ثانی بھی چپ ہو جائے اور مان لے۔ (2) ”یہ اسی کا ہے“ کیونکہ کاٹ دینے اور ٹکڑے کرنے سے کسی کا بھی نہیں رہے گا۔ اس کو دینے کی صورت میں بچہ نظر تو آئے گا اور ممتا کو کچھ نہ کچھ سکون تو ملتا رہے گا۔ اسی سے معلوم ہوا کہ بیٹا اس کا ہے تبھی تو اسے زیادہ تکلیف ہوئی۔ (3) ”سکین“ عربی میں چھری کو سکین کہتے ہیں اور مدیہ بھی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاقے میں صرف مدیہ کہتے ہوں گے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا: ”دو عورتیں تھیں۔ ان کے ساتھ ان کے دو بیٹے بھی تھے۔ بھیڑیا آیا اور ایک کے بیٹے کو اٹھا کر لے گیا۔ یہ (جس کا بچہ بھیڑیا اٹھا کر لےگیا) دوسری کو کہنے لگی: وہ تیرے بیٹے کو لے گیا ہے۔ دونوں حضرت داود ؑ کے پاس فیصلہ لے گئیں۔ آپ نے بڑی کے حق میں فیصلہ کر دیا ۔ وہ باہر نکلیں تو حضرت سلیمان بن داؤد ؑ ملے۔ انہوں نے ان سے پورا واقعہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا: میرے پاس چھری لاؤ۔ میں اسے کاٹ کر دونوں میں تقسیم کردوں۔ چھوٹی بولی: اللہ تعالیٰ آپ رحم کرے! ایسے نہ کریں۔ یہ اسی کا بیٹا ہے آپ نے وہ چھوٹی کو دے دیا۔“ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ نے فرمایا: میں نے سِكِّيْن کا لفظ اسی دن سنا ورنہ ہم چھری کو مُدْيَهُ کہتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”بڑی کے حق میں“ کیونکہ بچہ اس کے ہاتھ میں تھا۔ دلیل کسی کے پاس نہیں تھی۔ انہوں نے ظاہری قبضے کی رعایت سے فیصلہ کر دیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے حکمت سے کام لیا اور حقیقت تک پہنچ گئے۔ باب کا مقصد بھی یہی ہے کہ قاضی اپنی ذہانت سے بھی معاملے کی تہہ تک پہنچ کر حقیقت کے مطابق فیصلہ کر سکتا ہے، خواہ گوہ اور دلائل نہ ہوں مگر یہ تب ہے جب حاکم یا قاضی کے خلاف بدگمانی پیدا نہ ہوتی ہو، نیز فریق ثانی بھی چپ ہو جائے اور مان لے۔ (2) ”یہ اسی کا ہے“ کیونکہ کاٹ دینے اور ٹکڑے کرنے سے کسی کا بھی نہیں رہے گا۔ اس کو دینے کی صورت میں بچہ نظر تو آئے گا اور ممتا کو کچھ نہ کچھ سکون تو ملتا رہے گا۔ اسی سے معلوم ہوا کہ بیٹا اس کا ہے تبھی تو اسے زیادہ تکلیف ہوئی۔ (3) ”سکین“ عربی میں چھری کو سکین کہتے ہیں اور مدیہ بھی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاقے میں صرف مدیہ کہتے ہوں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دو عورتیں تھیں ان دونوں کے ساتھ ان کا ایک ایک بچہ تھا، اتنے میں بھیڑیا آیا اور ایک کا بچہ اٹھا لے گیا، تو اس نے دوسری سے کہا: وہ تمہارا بچہ لے گیا، دوسری بولی: تمہارا بچہ لے گیا، پھر وہ دونوں مقدمہ لے کر داود ؑ کے پاس گئیں تو آپ نے بڑی کے حق میں فیصلہ کیا۔ پھر وہ دونوں سلیمان ؑ کے پاس گئیں اور ان سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: ایک چھری لاؤ، میں اسے دونوں کے درمیان تقسیم کر دیتا ہوں، چھوٹی بولی: ایسا نہ کیجئیے، اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے، وہ اسی کا بیٹا ہے، تو انہوں نے چھوٹی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! سوائے اس دن کے ہم نے کبھی چھری کا نام «سکین» نہیں سنا، ہم) تو اسے «مدیہ» کہا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah narrated that: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "There were two woman who had two children, and the wolf came and took away the son of one of them. She said to her companion: 'It took away your son.' The other one said: 'No, it took away your son.' They referred the matter to Dawud ؑ, for judgment (about the remaining child) and he ruled in favor of the older one. Then they went out to Sulaiman bin Dawud ؑ and told him (about that). He said: 'Give me a knife and I will cut him in half (to be shared) between you.' The younger one said: 'Do not do that, may Allah have mercy on you; he is her son.' So he ruled that (the child) belonged to the younger woman." Abu Hurairah said: "By Allah! I never heard 'Sikkin' used until that day. We would only say: 'Mudyah.