باب: ایک حاکم اپنے جیسے یا اپنے سے بڑے حاکم کے فیصلے کو توڑ سکتا ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of the Etiquette of Judges
(Chapter: The Judge Undoing a Ruling Passed by Someone Else of His Caliber or Greater Than Him)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5404.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے منقول ہے کہ نبیٔ اکرم ﷺ نے فرمایا: ”دو عورتیں (گھر سے) نکلیں۔ ان کے ساتھ ان کے دو بچے (بیٹے) بھی تھے۔ بھیڑیا ان میں سے ایک بچے کو پکڑ کر لے گیا۔ وہ دوسرے بچے کے بارے میں جھگڑا کرتی ہوئی حضرت داؤد ؑ کے پاس پہنچ گئیں۔ انہوں نے بچے کا فیصلہ ان میں سے بڑی کے حق میں دے دیا، پھر وہ حضرت سلیمان ؑ کےپاس سے گزریں تو انہوں نے پوچھا: تمہارے درمیان کیا فیصلہ ہوا؟ چھوٹی نے کہا: بڑی کے حق میں فیصلہ ہوا ہے۔ حضرت سلیمان ؑ فرمانے لگے: میں اس کو دو ٹکڑے کر دیتا ہوں۔ نصف اس کا نصف اس کا۔ بڑی کہنے لگی: ہاں ہاں، دو ٹکڑے کر دو۔ چھوٹی نے کہاں نہ نہ اسے دو ٹکڑے نہ کریں۔ یہ بچہ اسی کا ہے۔ پھر انہوں نے بچے کا فیصلہ اس کے حق میں کیا جس نے اس کو کاٹنے کی تجویز نہیں مانی تھی۔“
تشریح:
(1) مذکورہ مفہوم کی ان احادیث اور ان میں بیان کردہ واقع سے معلوم ہوتا ہے کہ عقل و دانش اور فہم و فراست قطعی طور پر وہبی چیز ہے، اللہ تعالیٰ جسے چاہے عطا فرما دے۔ چھوٹی اور بڑی عمر یا امیری و فقیری اور اقتدار اختیار وغیرہ کا اس سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ (2) یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صحیح اور درست بات معلوم کرنے اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے حیلہ کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس حیلے کا مقصد احقاق حق یا ابطال باطل ہی ہو۔ باطل اور ناجائز کو درست اور جائز قرار دینے کے لیے حیلہ کرنا شرعاً مذموم اور حرام ہے۔ (3) اگر فریقین اپنے حق کے بارے میں دوبارہ کسی اور سے فیصلہ کرانے کے حق میں ہوں تو بڑی خوشی سے کرواسکتے ہیں، خواہ دوسرا قاضی پہلے کے برابر ہو یا اس سے کم مرتبہ ہو جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہے، خصوصاً جب کہ دوسرے کے فیصلے کے بعد کسی اور کی طرف رجوع کرنا بے ایمانی کی دلیل ہے۔ (4) ”بچہ اسی کا ہے“ چونکہ اس قول کا مقصد صرف بچے کی جان بچانا تھا نہ کہ اقرار، اسی لیے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کے اقراری کلام پر عمل نہیں فرمایا بلکہ بچہ اسی کو دے دیا کیونکہ ان کو حق معلوم ہو چکا تھا بلکہ ہر ایک کے لیے واضح ہو چکا تھا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے منقول ہے کہ نبیٔ اکرم ﷺ نے فرمایا: ”دو عورتیں (گھر سے) نکلیں۔ ان کے ساتھ ان کے دو بچے (بیٹے) بھی تھے۔ بھیڑیا ان میں سے ایک بچے کو پکڑ کر لے گیا۔ وہ دوسرے بچے کے بارے میں جھگڑا کرتی ہوئی حضرت داؤد ؑ کے پاس پہنچ گئیں۔ انہوں نے بچے کا فیصلہ ان میں سے بڑی کے حق میں دے دیا، پھر وہ حضرت سلیمان ؑ کےپاس سے گزریں تو انہوں نے پوچھا: تمہارے درمیان کیا فیصلہ ہوا؟ چھوٹی نے کہا: بڑی کے حق میں فیصلہ ہوا ہے۔ حضرت سلیمان ؑ فرمانے لگے: میں اس کو دو ٹکڑے کر دیتا ہوں۔ نصف اس کا نصف اس کا۔ بڑی کہنے لگی: ہاں ہاں، دو ٹکڑے کر دو۔ چھوٹی نے کہاں نہ نہ اسے دو ٹکڑے نہ کریں۔ یہ بچہ اسی کا ہے۔ پھر انہوں نے بچے کا فیصلہ اس کے حق میں کیا جس نے اس کو کاٹنے کی تجویز نہیں مانی تھی۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مذکورہ مفہوم کی ان احادیث اور ان میں بیان کردہ واقع سے معلوم ہوتا ہے کہ عقل و دانش اور فہم و فراست قطعی طور پر وہبی چیز ہے، اللہ تعالیٰ جسے چاہے عطا فرما دے۔ چھوٹی اور بڑی عمر یا امیری و فقیری اور اقتدار اختیار وغیرہ کا اس سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ (2) یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صحیح اور درست بات معلوم کرنے اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے حیلہ کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس حیلے کا مقصد احقاق حق یا ابطال باطل ہی ہو۔ باطل اور ناجائز کو درست اور جائز قرار دینے کے لیے حیلہ کرنا شرعاً مذموم اور حرام ہے۔ (3) اگر فریقین اپنے حق کے بارے میں دوبارہ کسی اور سے فیصلہ کرانے کے حق میں ہوں تو بڑی خوشی سے کرواسکتے ہیں، خواہ دوسرا قاضی پہلے کے برابر ہو یا اس سے کم مرتبہ ہو جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہے، خصوصاً جب کہ دوسرے کے فیصلے کے بعد کسی اور کی طرف رجوع کرنا بے ایمانی کی دلیل ہے۔ (4) ”بچہ اسی کا ہے“ چونکہ اس قول کا مقصد صرف بچے کی جان بچانا تھا نہ کہ اقرار، اسی لیے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کے اقراری کلام پر عمل نہیں فرمایا بلکہ بچہ اسی کو دے دیا کیونکہ ان کو حق معلوم ہو چکا تھا بلکہ ہر ایک کے لیے واضح ہو چکا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”دو عورتیں نکلیں، ان کے ساتھ ان کے دو بچے بھی تھے، ان میں سے ایک پر بھیڑیئے نے حملہ کر دیا اور اس کے بچے کو اٹھا لے گیا، وہ اس بچے کے سلسلے میں جو باقی رہ گیا تھا جھگڑتی ہوئی داود ؑ کے پاس آئیں، انہوں نے ان میں سے بڑی کے حق میں فیصلہ دیا، وہ سلیمان ؑ کے پاس گئیں تو انہوں نے کہا: تم دونوں کے درمیان کیا فیصلہ کیا؟ (چھوٹی) بولی بڑی کے حق میں فیصلہ کیا، سلیمان ؑ نے کہا: میں اس بچے کو دو حصوں میں تقسیم کروں گا، ایک حصہ اس کے لیے اور دوسرا حصہ اس کے لیے ہو گا، بڑی عورت بولی: ہاں! آپ اسے کاٹ دیں، جب کہ چھوٹی عورت نے کہا: ایسا نہ کیجئیے، یہ بچہ اسی کا ہے، چنانچہ انہوں نے اس کے حق میں فیصلہ کیا جس نے بچہ کو کاٹنے سے روکا تھا۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎: سلیمان علیہ السلام نے اپنے باپ داود علیہ السلام کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا، یہی باب سے مطابقت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that : The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "Two women went out with their two children, and the wolf took one of the children from them. They referred their dispute to Prophet Dawud ؑ, and he ruled that (the remaining child) belonged to the older woman. Then they passed by Sulaiman ؑ, and he said: 'How did he judge between you?' She said: 'He ruled that (the child) belongs to the older woman.' Sulaiman ؑ said: 'Cut him in half, and give half to one and half to the other.' The older woman said: 'Yes, cut him in half.' The younger woman said: 'Do not cut him, he is her child.' So he ruled that the child belonged to the woman who refused to let him be cut.