Sunan-nasai:
The Book of the Etiquette of Judges
(Chapter: Seeking Help Against Another Person)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5409.
حضرت عباد بن شرجیل ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فر مایا: میں اپنے چچاؤں کے ساتھ مدینہ منورہ آیا۔ میں ایک باغ میں داخل ہوا اور میں نے کچھ سٹے توڑ کر ان کے دانے نکال لیے۔ باغ کا مالک آیا، اس نے میری چادر چھین لی اور مجھے مارا بھی۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور دعویٰ دائر کر دیا۔ آپ نے اس شخص کو بلا بھیجا۔ لوگ اس کے لے کر آپ کے پاس آئے۔ آپ نے فرمایا: ”تو نے ایسے کیوں کیا؟“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ میرے باغ میں داخل ہوا۔ اس نے کچھ سٹے توڑے اور ان کے دانے نکال لیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ جاہل تھا، تو نے اسے تعلیم نہ دی۔ یہ بھوکا تھا، تونے اسے کھانے کو نہ دیا۔ اس کی چادر واپس کر۔“ اور مجھے ایک یا نصف وسق دینے کا حکم جاری فرمایا۔
تشریح:
(1) باب کا مقصد یہ ہے کہ دعویٰ دائر کرنا شرعاً جائز ہے۔ یہ فریق ثانی پر زیادتی نہیں بلکہ اپنا حق لینے کے لیے درست ہے۔ (2) ”جاہل تھا“ مقصود یہ ہے کہ غلطی کرنے والے کو صحیح اور درست عمل بتانا چاہیے تھا، اجنبی تھا پھر بھوکا بھی تھا، اس لیے تجھے چاہیے تھا کہ اسے پیار کے ساتھ بتاتا کہ اس طرح اپنی مرضی سے توڑنے کی بجائے مالک سے مانگ لینا چاہیے۔ پھر تو اسے کھانے کو مزید دیتا تاکہ اس کی ضرورت پوری ہوتی جب کہ تو نے اس غریب کی چادر بھی چھین لی اور مارا بھی۔ (3) معلوم ہوا جرائم کی سزا دینے سے پہلے لوگوں کی تعلیم و تربیت ضروری ہے، نیز ان کی بنیادی ضروریات بھی پوری کی جائیں تاکہ وہ جان بچانے کے لیے جرم نہ کریں۔ (4) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ضرورت مند، بقدر ضرورت کسی کے باغ یا کھیت سے لے اور کھا سکتا ہے، البتہ اتنا زیادہ لینا درست نہیں جو ضرورت پوری ہونے کے بعد ساتھ بھی لے جائے۔ یاد رہے کہ بغیر اجازت کسی کے باغ سے کھا پی لینا ایسا جرم نہیں کہ اس پر چوری کی حد نافذ ہو بلکہ اگر وہ بھوکا ہو تو اسے کچھ نہیں کہا جائے گا اور اگر وہ بھوک کے بغیر ہو تو سے جرمانہ وغیرہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر ضرورت محسوس ہو تو جسمانی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ (5) ”حکم جاری فرمایا“ یعنی بیت المال سے نہ کہ اس آدمی کے مال سے۔ ابو داؤد کی روایت میں صراحت ہے کہ آپ نے غلے کا ایک یا نصف وسق مجھے عطا فرمایا۔ (سنن أبي داؤد، الجهاد، حدیث: ۲۶۲۰) (6) ایک اونٹ پر جتنا غلہ لادا جاتا ہے، اسے بھی وسق کہتے ہیں۔ (7) کسی کی تھوڑی بہت چیز بلا اجازت لے لینا اس چوری میں شامل نہیں جس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ اس پر مناسب تعزیر ہی کافی ہے، البتہ بلا اجازت کسی کا مال لینے والے سے پہلے اس کا سبب معلوم کرنا چاہیے اور اگر اس کا کوئی معقول عذر ہو تو پھر اسے معاف کردینا چاہیے کیونکہ بعض حالات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان میں معافی ہی درست ہوتی ہے۔ (8) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے مستحق شخص کی مدد بیت المال اور حکومتی خزانے سے کرنی چاہیے۔ یہ اس کا حق ہے۔
حضرت عباد بن شرجیل ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فر مایا: میں اپنے چچاؤں کے ساتھ مدینہ منورہ آیا۔ میں ایک باغ میں داخل ہوا اور میں نے کچھ سٹے توڑ کر ان کے دانے نکال لیے۔ باغ کا مالک آیا، اس نے میری چادر چھین لی اور مجھے مارا بھی۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور دعویٰ دائر کر دیا۔ آپ نے اس شخص کو بلا بھیجا۔ لوگ اس کے لے کر آپ کے پاس آئے۔ آپ نے فرمایا: ”تو نے ایسے کیوں کیا؟“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ میرے باغ میں داخل ہوا۔ اس نے کچھ سٹے توڑے اور ان کے دانے نکال لیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ جاہل تھا، تو نے اسے تعلیم نہ دی۔ یہ بھوکا تھا، تونے اسے کھانے کو نہ دیا۔ اس کی چادر واپس کر۔“ اور مجھے ایک یا نصف وسق دینے کا حکم جاری فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
(1) باب کا مقصد یہ ہے کہ دعویٰ دائر کرنا شرعاً جائز ہے۔ یہ فریق ثانی پر زیادتی نہیں بلکہ اپنا حق لینے کے لیے درست ہے۔ (2) ”جاہل تھا“ مقصود یہ ہے کہ غلطی کرنے والے کو صحیح اور درست عمل بتانا چاہیے تھا، اجنبی تھا پھر بھوکا بھی تھا، اس لیے تجھے چاہیے تھا کہ اسے پیار کے ساتھ بتاتا کہ اس طرح اپنی مرضی سے توڑنے کی بجائے مالک سے مانگ لینا چاہیے۔ پھر تو اسے کھانے کو مزید دیتا تاکہ اس کی ضرورت پوری ہوتی جب کہ تو نے اس غریب کی چادر بھی چھین لی اور مارا بھی۔ (3) معلوم ہوا جرائم کی سزا دینے سے پہلے لوگوں کی تعلیم و تربیت ضروری ہے، نیز ان کی بنیادی ضروریات بھی پوری کی جائیں تاکہ وہ جان بچانے کے لیے جرم نہ کریں۔ (4) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ضرورت مند، بقدر ضرورت کسی کے باغ یا کھیت سے لے اور کھا سکتا ہے، البتہ اتنا زیادہ لینا درست نہیں جو ضرورت پوری ہونے کے بعد ساتھ بھی لے جائے۔ یاد رہے کہ بغیر اجازت کسی کے باغ سے کھا پی لینا ایسا جرم نہیں کہ اس پر چوری کی حد نافذ ہو بلکہ اگر وہ بھوکا ہو تو اسے کچھ نہیں کہا جائے گا اور اگر وہ بھوک کے بغیر ہو تو سے جرمانہ وغیرہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر ضرورت محسوس ہو تو جسمانی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ (5) ”حکم جاری فرمایا“ یعنی بیت المال سے نہ کہ اس آدمی کے مال سے۔ ابو داؤد کی روایت میں صراحت ہے کہ آپ نے غلے کا ایک یا نصف وسق مجھے عطا فرمایا۔ (سنن أبي داؤد، الجهاد، حدیث: ۲۶۲۰) (6) ایک اونٹ پر جتنا غلہ لادا جاتا ہے، اسے بھی وسق کہتے ہیں۔ (7) کسی کی تھوڑی بہت چیز بلا اجازت لے لینا اس چوری میں شامل نہیں جس کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ اس پر مناسب تعزیر ہی کافی ہے، البتہ بلا اجازت کسی کا مال لینے والے سے پہلے اس کا سبب معلوم کرنا چاہیے اور اگر اس کا کوئی معقول عذر ہو تو پھر اسے معاف کردینا چاہیے کیونکہ بعض حالات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ان میں معافی ہی درست ہوتی ہے۔ (8) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے مستحق شخص کی مدد بیت المال اور حکومتی خزانے سے کرنی چاہیے۔ یہ اس کا حق ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عباد بن شرحبیل ؓ کہتے ہیں کہ میں اپنے چچاؤں کے ساتھ مدینے آیا تو وہاں کے ایک باغ میں گیا اور ایک بالی (توڑ کر) مسل ڈالی، اتنے میں باغ کا مالک آ گیا، اس نے میری چادر چھین لی اور مجھے مارا، میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر آپ سے اس کے خلاف مدد چاہی، چنانچہ آپ نے اس شخص کو بلا بھیجا۔ لوگ اسے لے کر آئے، آپ نے فرمایا: ”اس اقدام پر تمہیں کس چیز نے اکسایا؟“ وہ بولا: اللہ کے رسول! یہ میرے باغ میں آیا اور بالی توڑ کر مسل دی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”نہ تو تم نے اسے بتایا جب کہ وہ ناسمجھ تھا، نہ تم نے اسے کھلایا جبکہ وہ بھوکا تھا، اس کی چادر اسے لوٹا دو“، اور مجھے رسول اللہ ﷺ نے ایک وسق یا آدھا وسق دینے کا حکم دیا۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : ابوداؤد کے الفاظ ہیں «وأعطانی» یعنی اس باغ والے نے مجھے ایک یا آدھا صاع غلہ دیا“ یعنی اس نے جو میری ساتھ زیادتی کی تھی اس کے بدلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے اس تاوان کا حکم دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Abbad bin Shurahbil said: "I came to Al-Madinah with my paternal uncles and entered one of its gardens, where I rubbed an ear of grain (to take some grains). The owner of the garden came, took my cloak and hit me. I came to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) and sought his help against him. He sent for the man and they brought him. He said: 'What made you do that?' He said: 'O Messenger of Allah, he entered my garden and took one of the ears of grain and rubbed it.' The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'You did not teach him if he was ignorant, nor feed him if he was hungry. Give him back his cloak.' And the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) ordered me with a Wasq or half a Wasq.