باب: حاکم (مقدمےکا)فيصلہ کرنے سے پہلے کسی فریق سےسفارش کرسکتاہے
)
Sunan-nasai:
The Book of the Etiquette of Judges
(Chapter: The Judge Seeking to Intercede for One of the Disputing Parties Before Passing Judgment)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5417.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت بریرہ ضی اللہ عنہا کا خاوند حضرت مغیث ؓ غلام تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہےکہ میں اسے بریرہ کے پیچھے گھومتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ وہ رہ رہا ہے اور اس کے آنسو اس کی ڈاڑھی پر گررہے ہیں۔ نبئ اکرم ﷺ نے حضرت عباس ؓ سے فرمایا : ”عباس! آپ کو تعجب نہیں کہ مغیث کو بریرہ سے کس قدر محبت ہے اوربریرہ کو مغیث سے کس قدر نفرت ہے؟“ رسول اللہ ﷺ نے بریرہ سے فرمایا: ”اگر تو اپنے خاوند کوقبول کرلے (توبہتر ہے)۔ آخر وہ تیرے بچوں کا باپ ہے ۔ ”انھوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں‘ میں نے توصرف سفارش کرتا ہوں۔“ انھوں نے کہا: پھر مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔
تشریح:
(1) اگر کوئی فریق یا شخص کسی اہم راہنما یا حاکم وغیرہ کی سفارش قبول نہ کرے تو کوئی حرج نہیں۔ سفارش کرنا مشروع ہے جبکہ سفارش قبول کرنا ضروری نہیں‘ لہٰذا سفارش کرنے والے شخص کوسفارش قبول نہ کرنے پرغصہ نہیں کرنا چاہیے اورنہ اسے کسی قسم کا کوئی اورنقصان ہی پہنچانا چاہیے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی کی درخواست کے بغیر ازخود بھی سفارش کرنا درست اور جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت مغیث رضی اللہ عنہ کے مطالبہ سفارش کے بغیر ہی حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا سے سفارش فرمائی تھی۔ اور پھر ان کے سفارش قبول نہ کرنے پراظہار ناراضی قطعا نہیں فرمایا‘ البتہ اصلاح کی کوشش ضرور فرمائی ہے اور یہ مستحب ہے۔ (3) یہ حدیث مبارکہ حضر ت بریرہ رضی اللہ عنہا کے اس حسن ادب کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جو ان سے رسول اللہ ﷺ کی بابت صادر ہوا کہ انھوں نے پوچھا: آپ حکم فرما رہے ہیں یا سفارش؟ نیز انھوں نے صراحتا آپ کی سفارش کو رد نہیں کیا بلکہ یہ کہ مجھے ان کی ضرورت نہیں۔ (4) کسی چیز کی حد سے زیادہ محبت حیا ختم کر دیتی ہے اور آدمی اندھا بہرا ہوجاتا ہے۔ (5) جھگڑا کرنے والے‘ خواہ میاں بیوی ہوں یا کوئی اور ان کے مابین صلح کرانا اورجھگڑا ختم کرنے کی سفارش کرنا مستحب اورپسندیدہ شرعی عمل ہے نیز مومن کے دل کو مسرور کرنا اورقلبی مسرت وخوشی بہم پہنچانا بھی مستحب ہے۔ (6) یہ مسئلہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ لونڈی آزاد ہوجائے اوراس کا خاوند ابھی غلام ہو تواسے اختیار ہے نکاح قائم رکھے یا توڑ دے۔ یہاں یہی مسئلہ تھا۔ گویا ضروری نہیں حاکم فیصلہ ہی کرے بلکہ وہ کسی ایک فریق سے دوسرے کےحق میں سفارش کرکے مصالحت بھی کرا سکتا ہے بلکہ یہ افضل ہے خصوصا جہاں ٹوٹ پھوٹ کا معاملہ ہو۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وأخرجه البخاري)
إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا حَمَاد عن خالد الحَذّاء عن عكرمة
عن ابن عباس.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ غير حماد- وهو ابن سلمة-،
فهو على شرط مسلم وحده، لكنه قد توبع كما يأتي قريباً.
والحديث أخرجه البخاري والدارمي والبيهقي وأحمد (1/215) من طرق
أخرى عن خالد الحذاء... به.
وأخرجه البخاري وابن الجارود والبيهقي وأحمد وابن سعد (8/260) من طرق
أخرى عن عكرمة... به.
وفي رواية لابن سعد من طريق أيوب عن عكرمة... بلفظ:
(7/3)
كان زوجُ بريرَةَ يومَ خُيِّرَتْ مملوكاً لبني المغيرة- يقال له: مغيث- أسود...
الحديث وهو مخرج في الإرواء (1873) .
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت بریرہ ضی اللہ عنہا کا خاوند حضرت مغیث ؓ غلام تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہےکہ میں اسے بریرہ کے پیچھے گھومتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ وہ رہ رہا ہے اور اس کے آنسو اس کی ڈاڑھی پر گررہے ہیں۔ نبئ اکرم ﷺ نے حضرت عباس ؓ سے فرمایا : ”عباس! آپ کو تعجب نہیں کہ مغیث کو بریرہ سے کس قدر محبت ہے اوربریرہ کو مغیث سے کس قدر نفرت ہے؟“ رسول اللہ ﷺ نے بریرہ سے فرمایا: ”اگر تو اپنے خاوند کوقبول کرلے (توبہتر ہے)۔ آخر وہ تیرے بچوں کا باپ ہے ۔ ”انھوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں‘ میں نے توصرف سفارش کرتا ہوں۔“ انھوں نے کہا: پھر مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اگر کوئی فریق یا شخص کسی اہم راہنما یا حاکم وغیرہ کی سفارش قبول نہ کرے تو کوئی حرج نہیں۔ سفارش کرنا مشروع ہے جبکہ سفارش قبول کرنا ضروری نہیں‘ لہٰذا سفارش کرنے والے شخص کوسفارش قبول نہ کرنے پرغصہ نہیں کرنا چاہیے اورنہ اسے کسی قسم کا کوئی اورنقصان ہی پہنچانا چاہیے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی کی درخواست کے بغیر ازخود بھی سفارش کرنا درست اور جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت مغیث رضی اللہ عنہ کے مطالبہ سفارش کے بغیر ہی حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا سے سفارش فرمائی تھی۔ اور پھر ان کے سفارش قبول نہ کرنے پراظہار ناراضی قطعا نہیں فرمایا‘ البتہ اصلاح کی کوشش ضرور فرمائی ہے اور یہ مستحب ہے۔ (3) یہ حدیث مبارکہ حضر ت بریرہ رضی اللہ عنہا کے اس حسن ادب کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جو ان سے رسول اللہ ﷺ کی بابت صادر ہوا کہ انھوں نے پوچھا: آپ حکم فرما رہے ہیں یا سفارش؟ نیز انھوں نے صراحتا آپ کی سفارش کو رد نہیں کیا بلکہ یہ کہ مجھے ان کی ضرورت نہیں۔ (4) کسی چیز کی حد سے زیادہ محبت حیا ختم کر دیتی ہے اور آدمی اندھا بہرا ہوجاتا ہے۔ (5) جھگڑا کرنے والے‘ خواہ میاں بیوی ہوں یا کوئی اور ان کے مابین صلح کرانا اورجھگڑا ختم کرنے کی سفارش کرنا مستحب اورپسندیدہ شرعی عمل ہے نیز مومن کے دل کو مسرور کرنا اورقلبی مسرت وخوشی بہم پہنچانا بھی مستحب ہے۔ (6) یہ مسئلہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ لونڈی آزاد ہوجائے اوراس کا خاوند ابھی غلام ہو تواسے اختیار ہے نکاح قائم رکھے یا توڑ دے۔ یہاں یہی مسئلہ تھا۔ گویا ضروری نہیں حاکم فیصلہ ہی کرے بلکہ وہ کسی ایک فریق سے دوسرے کےحق میں سفارش کرکے مصالحت بھی کرا سکتا ہے بلکہ یہ افضل ہے خصوصا جہاں ٹوٹ پھوٹ کا معاملہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ بریرہ ؓ کے شوہر غلام تھے جنہیں مغیث کہا جاتا تھا، گویا میں اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ وہ اس (بریرہ) کے پیچھے پیچھے روتے پھر رہے ہیں، اور ان کے آنسو ڈاڑھی پر بہہ رہے ہیں، نبی اکرم ﷺ نے عباس ؓ سے کہا: عباس! کیا آپ کو حیرت نہیں ہے کہ مغیث بریرہ سے کتنی محبت کرتا ہے اور بریرہ مغیث سے کس قدر نفرت کرتی ہے؟، رسول اللہ ﷺ نے اس (بریرہ) سے فرمایا: ”اگر تم اس کے پاس واپس چلی جاتی (تو بہتر ہوتا) اس لیے کہ وہ تمہارے بچے کا باپ ہے“، وہ بولیں: اللہ کے رسول! کیا مجھے آپ حکم دے رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، میں تو سفارش کر رہا ہوں“، وہ بولیں: پھر تو مجھے اس کی ضرورت نہیں۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : مغیث اور بریرہ (رضی اللہ عنہما) کے معاملہ میں عدالتی قانونی فیصلہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ ”بریرہ رضی اللہ عنہا کو آزادی مل جانے کے بعد مغیث کے نکاح میں نہ رہنے کا حق حاصل ہے“ مگر اس عدالتی فیصلہ سے پہلے بریرہ رضی اللہ عنہا سے قانوناً نہیں اخلاقی طور پر مغیث کے نکاح میں باقی رہنے کی سفارش کی، یہی باب سے مناسبت ہے، اور اس طرح کی سفارش صرف ایسے ہی معاملات میں کی جا سکتی ہے، جس میں مدعی کو اختیار ہو (جیسے بریرہ کا معاملہ اور قصاص ودیت والا معاملہ وغیرہ) لیکن چوری و زنا کے حدود کے معاملے میں اس طرح کی سفارش نہیں کی جا سکتی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn 'Abbas that: The husband of Barirah was a slave called Mughith. It is as if I can see him walking behind her weeping, with the tears running down onto his beard. The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said to Al-'Abbas: "O 'Abbas, are you not amazed by the love of Mughith for Barirah and the hatred of Barirah for Mughith?" The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said to her: "Why don't you take him back, for he is the father of your child?" She said: "O Messenger of Allah, are you commanding me (to do so)?" He said: "I am just interceding." She said: "I have no need of him.