Sunan-nasai:
The Book of the Etiquette of Judges
(Chapter: What May Cancel a Judgment)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5422.
حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میرے پاس جھگڑے لاتے ہو۔ میں تو بس ایک انسان ہی ہوں۔ ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی دلیل کو دوسرے شخص سے زیادہ واضح طور پربیان کرنے والا ہو۔ میں تو تمھارے درمیان دلائل سن کر (ان کے مطابق) فیصلہ کر دوں گا۔ (لیکن یاد رکھو!) میں جس شخص کے لیے اس کے (اسلامی) بھائی کے حق میں سے کسی چیز کا فیصلہ کر دوں تو درحقیقت میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔“
تشریح:
قاضی کا فیصلہ حرام کو حلال نہیں کر سکتا۔ جمہور اہل علم کا یہی مسلک ہے۔ احناف اس روایت کو اموال کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں گویا عقود‘ مثلا: بیع‘ نکاح‘ طلاق وغیرہ قاضی کے فیصلے سے مفقود ہو جائیں گے لیکن یہ بات بلا دلیل ہے۔ عقود کے لیے فریقین کی رضا مندی ضروری ہے نہ کہ قاضی کا فیصلہ (مزید دیکھیے حدیث:۵۴۰۳)
حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میرے پاس جھگڑے لاتے ہو۔ میں تو بس ایک انسان ہی ہوں۔ ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی دلیل کو دوسرے شخص سے زیادہ واضح طور پربیان کرنے والا ہو۔ میں تو تمھارے درمیان دلائل سن کر (ان کے مطابق) فیصلہ کر دوں گا۔ (لیکن یاد رکھو!) میں جس شخص کے لیے اس کے (اسلامی) بھائی کے حق میں سے کسی چیز کا فیصلہ کر دوں تو درحقیقت میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
قاضی کا فیصلہ حرام کو حلال نہیں کر سکتا۔ جمہور اہل علم کا یہی مسلک ہے۔ احناف اس روایت کو اموال کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں گویا عقود‘ مثلا: بیع‘ نکاح‘ طلاق وغیرہ قاضی کے فیصلے سے مفقود ہو جائیں گے لیکن یہ بات بلا دلیل ہے۔ عقود کے لیے فریقین کی رضا مندی ضروری ہے نہ کہ قاضی کا فیصلہ (مزید دیکھیے حدیث:۵۴۰۳)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم لوگ میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، حالانکہ میں ایک انسان ہوں، اور ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی دوسرے سے دلیل دینے میں چرب زبان ہو۔ میں تو صرف اس کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہوں جو میں سنتا ہوں، اب اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا کوئی حق دلا دوں (اور وہ حقیقت میں اس کا نہ ہو) تو گویا میں اس کو جہنم کا ٹکڑا دلا رہا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : تو کیا وہ پانے والے کے لیے ہر حال میں حلال ہو گا؟ نہیں، خود جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر ملنے سے حلال نہیں ہو سکتا، (اگر حقیقت میں اس کا نہ ہو) تو دوسرے کسی قاضی کے فیصلے سے کیسے جائز ہو سکتا ہے، اس لیے اس طرح کے معاملے میں سخت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے تو یہ فیصلہ ٹھیک ہے، لیکن اس طرح کے فیصلے حرام کو حلال، اور حلال کو حرام نہیں کر سکتے، اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے فیصلے پر یہ عرض کیا کہ حقیقت میں غلط فیصلہ پر عمل آدمی کو جہنم پہنچا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Umm Salamah said: "The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: 'You refer your disputes to me, but I am only human. And some of you may be more eloquent in arguing their case than others, and I may pass judgment on the basis of what I hear. If I pass judgment in favor of one of you against his brother's rights, then it is a piece of the fire that I am giving him.