Sunan-nasai:
The Book of Drinks
(Chapter: Explanation of Al-Bit' (Mead) and Al-Mizr (Beer))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5606.
حضرت ابو الجویریہ نے کہا: میں نےسنا کہ حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا گیا: باذق کے بارے میں فتوی دیجیے۔ انھوں نےفرمایا: حضرت محمد باذق سے پہلے تشریف لے گئے اور (یاد رکھو) جو چیز نشہ آور ہے، حرام ہے۔
تشریح:
(1) یہ حدیث صریح دلیل ہے کہ وہ شراب جسے باذق کا نام دیا جاتا ہےاس کا پینا حرام ہے ۔ باذق کہتے ہیں انگوروں کا نچوڑا اور شیرہ جسے معمولی سا جو ش دے کر ہلکا سا پکا لیا جائے۔اس طرح اس کا نشہ شدید ہو جاتا ہے۔ (2) یہ حدیث مبارکہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی عظیم فقاہت کی دلیل ہے کہ انھوں نے مسائل کو انتہائی مختصر مگر نہایت بلیغ وجامع جواب دیا ۔ بعد ازاں انھوں نے اس کے سامنے یہ اصول بیان فرما دیا کہ ماأسكرَفهو حَرامٌ یعنی جو چیز نشہ آور ہو وہ حرام ہے۔ یہ بعینہ اسی طرح کی بات ہے جیسی مختصر بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی تھی۔ (3) ”تشریف لےگئے“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تو نہیں تھی، نہ آپ اسے جانتے تھے مگر آپ نے ضابطہ بیان فرما دیا ہے کہ ہر نشہ آور چیزرحرام ہے۔ (4) یہ تقریبا پینتیس روایات ہیں جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے اور مصنف کا مقصود بھی یہی ہے کہ شراب کی حرمت کی وجہ نشہ ہے، لہٰذا جس چیز میں نشہ پایا جائے گا وہ شراب کی طرح قطعا حرام ہے۔ قلیل بھی اور کثیر بھی۔ اور یہ بات عرفا، عقلا اور شرعا بالکل واضح ہے۔ اور یہی مسلک ہے جمہور اہل علم اور صحابہ وتابعین کا۔ مگر احناف کو یہ سیدھی سادی بات سمجھ میں نہیں آتی اور وہ بھول بھلیوں میں پڑگئے، حالانکہ احناف قیاس کے سب سے بڑے داعی ہیں اور وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ شراب کی حرمت کی قطعی وجہ نشہ ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ کسی اور چیز میں نشہ پایا جائے تو وہ شراب کی طرح حرام نہ ہو؟ شراب تو قلیل بھی حرام اور کثیر بھی لیکن دوسری نشہ آور اشیاء نشے سے کم کم حلال؟ کیا اس کی کوئی عقلی یا شرعی تو جیہ کی جا سکتی ہے؟ ہر گز نہیں، خصوصا قیاس کے داعی تو ایسا نہیں کر سکتے جب کہ بے شمار احادیث بھی صراحتا اس تفریق کے خلاف ہیں۔ یہی بات سمجھانے کے لیے مصنف ؒ نے آئندہ باب بھی قائم فرمایا جس میں یہ مسئلہ صراحتا ذکر فرمایا۔ اللہ تعالی ہدایت دے۔ آمین.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5621
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5622
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5609
تمہید کتاب
أشرِبَةٌ شراب کی جمع ہے کومشروب کے معنی میں استعمال ہوتا ہےیعنی پی جانےوالی چیز خواہ پانی ہو یا دودھ ہویا لسی یا سرکہ نبیذ ہویا خمر۔اردو میں یہ الفظ نشہ اور مشروب میں استعمال ہوتا ہے لہذا اردو میں اس کا ترجمہ مشروب کیا جائے۔اور خمر کے معنی شراب کیے جائیں گے جس سے مراد نشہ آور مشروب ہوگا۔
حضرت ابو الجویریہ نے کہا: میں نےسنا کہ حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا گیا: باذق کے بارے میں فتوی دیجیے۔ انھوں نےفرمایا: حضرت محمد باذق سے پہلے تشریف لے گئے اور (یاد رکھو) جو چیز نشہ آور ہے، حرام ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حدیث صریح دلیل ہے کہ وہ شراب جسے باذق کا نام دیا جاتا ہےاس کا پینا حرام ہے ۔ باذق کہتے ہیں انگوروں کا نچوڑا اور شیرہ جسے معمولی سا جو ش دے کر ہلکا سا پکا لیا جائے۔اس طرح اس کا نشہ شدید ہو جاتا ہے۔ (2) یہ حدیث مبارکہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی عظیم فقاہت کی دلیل ہے کہ انھوں نے مسائل کو انتہائی مختصر مگر نہایت بلیغ وجامع جواب دیا ۔ بعد ازاں انھوں نے اس کے سامنے یہ اصول بیان فرما دیا کہ ماأسكرَفهو حَرامٌ یعنی جو چیز نشہ آور ہو وہ حرام ہے۔ یہ بعینہ اسی طرح کی بات ہے جیسی مختصر بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی تھی۔ (3) ”تشریف لےگئے“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تو نہیں تھی، نہ آپ اسے جانتے تھے مگر آپ نے ضابطہ بیان فرما دیا ہے کہ ہر نشہ آور چیزرحرام ہے۔ (4) یہ تقریبا پینتیس روایات ہیں جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے اور مصنف کا مقصود بھی یہی ہے کہ شراب کی حرمت کی وجہ نشہ ہے، لہٰذا جس چیز میں نشہ پایا جائے گا وہ شراب کی طرح قطعا حرام ہے۔ قلیل بھی اور کثیر بھی۔ اور یہ بات عرفا، عقلا اور شرعا بالکل واضح ہے۔ اور یہی مسلک ہے جمہور اہل علم اور صحابہ وتابعین کا۔ مگر احناف کو یہ سیدھی سادی بات سمجھ میں نہیں آتی اور وہ بھول بھلیوں میں پڑگئے، حالانکہ احناف قیاس کے سب سے بڑے داعی ہیں اور وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ شراب کی حرمت کی قطعی وجہ نشہ ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ کسی اور چیز میں نشہ پایا جائے تو وہ شراب کی طرح حرام نہ ہو؟ شراب تو قلیل بھی حرام اور کثیر بھی لیکن دوسری نشہ آور اشیاء نشے سے کم کم حلال؟ کیا اس کی کوئی عقلی یا شرعی تو جیہ کی جا سکتی ہے؟ ہر گز نہیں، خصوصا قیاس کے داعی تو ایسا نہیں کر سکتے جب کہ بے شمار احادیث بھی صراحتا اس تفریق کے خلاف ہیں۔ یہی بات سمجھانے کے لیے مصنف ؒ نے آئندہ باب بھی قائم فرمایا جس میں یہ مسئلہ صراحتا ذکر فرمایا۔ اللہ تعالی ہدایت دے۔ آمین.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوجویریہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس ؓ کو سنا ان سے مسئلہ پوچھا گیا اور کہا گیا: ہمیں بادہ ۱؎ کے بارے میں فتویٰ دیجئیے۔ تو انہوں نے کہا: محمد (ﷺ) کے زمانے میں بادہ نہیں تھا، (یا آپ نے اس کا حکم پہلے ہی فرما دیا ہے کہ) جو بھی چیز نشہ لانے والی ہو وہ حرام ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : «باذق» فارسی کے لفظ «بادہ» کی تعریب ہے۔ اس کے معنیٰ خمر اور شراب کے ہیں، شاعر کہتا ہے: ہیں رنگ جدا، دور نئے، کیف نرالے شیشہ وہی، بادہ وہی، پیمانہ وہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Al-Juwairiyah said: "I heard Ibn 'Abbas when he was asked: 'Advise us about Badhiq (a drink made from the juice of grapes slightly boiled).' He said: 'Muhammad came before Badhiq (i.e., it was not known during his time), but everything that intoxicates is unlawful.