باب: جو مشروب زیادہ پنیے سے نشہ آتا ہو اسے پینا مطلقا حرام ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of Drinks
(Chapter: Prohibition of Every Drink that Intoxicates in Large Amounts)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5610.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے علم تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے روزہ رکھا ہوا ہے تو میں نے آپ کی افطاری کے لیے کدو کے برتن میں نبیذ تیار کر کے ایک طرف رکھ چھوڑی۔ پھر افطاری کے وقت میں وہ نبیذ لے کر آپ کے پاس حاضر ہوا تو آپ نےفرمایا: ”(میرے) قریب کرو۔“ میں نے وہ آپ کے قریب کی تو وہ جوش مار رہی تھی۔ آپ نے فرمایا: ”اسے اس دیوار پر دے مارو۔ اس قسم کی نبیذ تو وہ لوگ پیتے ہیں جو اللہ تعالی اور آخرت کو نہیں مانتے۔“ ابو عبد الرحمان (امام نسائی ؒ) نے فرمایا: اس حدیث میں دلیل ہے کہ نشہ آور چیز قلیل بھی حرام ہے کثیر بھی، نہ کہ جیسے اپنے آپ کو دھوکا دینے والے لوگ کہتے ہیں کہ آخری گھونٹ جس سے نشہ آیا، حرام ہے۔ پہلے گھونٹ حلال ہیں، خواہ وہ ایک فرق پی لے، حالانکہ اہل علم اس باب پر متفق ہیں کہ نشہ صرف آخری گھونٹ سے ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ پہلے گھونٹ بھی نشے والے ہی ہیں اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نشہ آور طعام وشراب کو ضائع کرنا ضروری ہے حتیٰ کہ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی ملکیت نشہ آور چیز کو اس طرح ضائع کردے تو اس پر کوئی تاوان وغیرہ نہیں۔ کسی مسلمان شخص کے ہاں منشیات کی کو ئی وقعت اور ان کو کوئی احترام نہیں ہونا چاہیے۔ ساری کی ساری نشہ آور اشیاء اور ہر قسم کی منشیات حرام ہیں۔ (2) بعض اعمال ایمان کامل کے منافی ہیں، اس لیے ان سے بچنا چاہئے۔ (3) امام صاحب ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر نشہ آور نبیذ تھوڑی مقدار میں پینی جائز ہوتی تو آپ ایک گھونٹ سے روزہ افطار کرلیتے اور باقی واپس کردیتے تا کہ کوئی دوسرا شخص بھی تھوڑی سی پی سکے، جبکہ آپ نے تو ساری ضائع کرنے کا حکم دیا۔ ثابت ہوا نشہ آور مشروب کا ایک گھونٹ بھی جائز نہیں، خواہ کوئی سا بھی مشروب ہو۔ اوریہ بالکل صحیح استدلال ہے ۔ (4) ”جوش مار رہی تھی“ یعنی اس میں نشے کی علامات تھیں۔ (5) ”نہیں مانتے“ یعنی یہ کافروں کا مشروب ہے مسلمانوں کا نہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ جو پیے گا، کافر ہو جائے گا، جیسے ریشم کے بارے میں گزرا۔ (6) ”دھوکا دینے والے“ مراد احناف ہیں۔ اور دھوکا یہ ہے کہ شراب کو دوسرے ناموں سے پی لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے شراب نہیں پی۔ (7) ”فرق“ تین صاع کو کہتے ہیں۔ یہ بطور مبالغہ فرمایا ورنہ بیک وقت اتنی پینی ممکن نہیں۔ (8) ”آخری گھونٹ سے“ امام صاحب کا مقصود یہ ہے کہ اپنے آپ کو دھوکا دینے والی بات ہے کہ ”صرف وہ گھونٹ حرام ہے جس سے نشہ پیدا ہوا۔ پہلے گھونٹ نشہ آور نہیں تھے“ جب کہ ایک ہی ہے۔ جب اس کا آخری گھونٹ نشہ آور ہے تو پہلے کیو ں نہیں؟ نیز اگر وہ پہلے گھونٹ نہ پیتا تو کیا صرف اس گھونٹ سے نشہ آتا؟ ظاہر ہے وہ سارا مشروب نشہ آور ہے۔ اتنی بات ہے کہ نشے کا اظہار آخری گھونٹ پر ہو ا، یعنی زیادہ پینے سے ہوا اور شراب (جسے حنفی بھی خمر کہتے ہیں) بھی ایسے ہی ہے۔ اس کا ایک گھونٹ پینے سے نشہ محسوس نہیں ہوتا۔ نشہ زیادہ پینے سے ہی ہوگا۔ تو آخر کس عقلی وشرعی علت کی بنا پر شراب اور دوسرے نشہ آور مشروب میں فرق کیا گیا ہے؟
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5625
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5626
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5613
تمہید کتاب
أشرِبَةٌ شراب کی جمع ہے کومشروب کے معنی میں استعمال ہوتا ہےیعنی پی جانےوالی چیز خواہ پانی ہو یا دودھ ہویا لسی یا سرکہ نبیذ ہویا خمر۔اردو میں یہ الفظ نشہ اور مشروب میں استعمال ہوتا ہے لہذا اردو میں اس کا ترجمہ مشروب کیا جائے۔اور خمر کے معنی شراب کیے جائیں گے جس سے مراد نشہ آور مشروب ہوگا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے علم تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے روزہ رکھا ہوا ہے تو میں نے آپ کی افطاری کے لیے کدو کے برتن میں نبیذ تیار کر کے ایک طرف رکھ چھوڑی۔ پھر افطاری کے وقت میں وہ نبیذ لے کر آپ کے پاس حاضر ہوا تو آپ نےفرمایا: ”(میرے) قریب کرو۔“ میں نے وہ آپ کے قریب کی تو وہ جوش مار رہی تھی۔ آپ نے فرمایا: ”اسے اس دیوار پر دے مارو۔ اس قسم کی نبیذ تو وہ لوگ پیتے ہیں جو اللہ تعالی اور آخرت کو نہیں مانتے۔“ ابو عبد الرحمان (امام نسائی ؒ) نے فرمایا: اس حدیث میں دلیل ہے کہ نشہ آور چیز قلیل بھی حرام ہے کثیر بھی، نہ کہ جیسے اپنے آپ کو دھوکا دینے والے لوگ کہتے ہیں کہ آخری گھونٹ جس سے نشہ آیا، حرام ہے۔ پہلے گھونٹ حلال ہیں، خواہ وہ ایک فرق پی لے، حالانکہ اہل علم اس باب پر متفق ہیں کہ نشہ صرف آخری گھونٹ سے ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ پہلے گھونٹ بھی نشے والے ہی ہیں اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نشہ آور طعام وشراب کو ضائع کرنا ضروری ہے حتیٰ کہ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کی ملکیت نشہ آور چیز کو اس طرح ضائع کردے تو اس پر کوئی تاوان وغیرہ نہیں۔ کسی مسلمان شخص کے ہاں منشیات کی کو ئی وقعت اور ان کو کوئی احترام نہیں ہونا چاہیے۔ ساری کی ساری نشہ آور اشیاء اور ہر قسم کی منشیات حرام ہیں۔ (2) بعض اعمال ایمان کامل کے منافی ہیں، اس لیے ان سے بچنا چاہئے۔ (3) امام صاحب ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر نشہ آور نبیذ تھوڑی مقدار میں پینی جائز ہوتی تو آپ ایک گھونٹ سے روزہ افطار کرلیتے اور باقی واپس کردیتے تا کہ کوئی دوسرا شخص بھی تھوڑی سی پی سکے، جبکہ آپ نے تو ساری ضائع کرنے کا حکم دیا۔ ثابت ہوا نشہ آور مشروب کا ایک گھونٹ بھی جائز نہیں، خواہ کوئی سا بھی مشروب ہو۔ اوریہ بالکل صحیح استدلال ہے ۔ (4) ”جوش مار رہی تھی“ یعنی اس میں نشے کی علامات تھیں۔ (5) ”نہیں مانتے“ یعنی یہ کافروں کا مشروب ہے مسلمانوں کا نہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ جو پیے گا، کافر ہو جائے گا، جیسے ریشم کے بارے میں گزرا۔ (6) ”دھوکا دینے والے“ مراد احناف ہیں۔ اور دھوکا یہ ہے کہ شراب کو دوسرے ناموں سے پی لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے شراب نہیں پی۔ (7) ”فرق“ تین صاع کو کہتے ہیں۔ یہ بطور مبالغہ فرمایا ورنہ بیک وقت اتنی پینی ممکن نہیں۔ (8) ”آخری گھونٹ سے“ امام صاحب کا مقصود یہ ہے کہ اپنے آپ کو دھوکا دینے والی بات ہے کہ ”صرف وہ گھونٹ حرام ہے جس سے نشہ پیدا ہوا۔ پہلے گھونٹ نشہ آور نہیں تھے“ جب کہ ایک ہی ہے۔ جب اس کا آخری گھونٹ نشہ آور ہے تو پہلے کیو ں نہیں؟ نیز اگر وہ پہلے گھونٹ نہ پیتا تو کیا صرف اس گھونٹ سے نشہ آتا؟ ظاہر ہے وہ سارا مشروب نشہ آور ہے۔ اتنی بات ہے کہ نشے کا اظہار آخری گھونٹ پر ہو ا، یعنی زیادہ پینے سے ہوا اور شراب (جسے حنفی بھی خمر کہتے ہیں) بھی ایسے ہی ہے۔ اس کا ایک گھونٹ پینے سے نشہ محسوس نہیں ہوتا۔ نشہ زیادہ پینے سے ہی ہوگا۔ تو آخر کس عقلی وشرعی علت کی بنا پر شراب اور دوسرے نشہ آور مشروب میں فرق کیا گیا ہے؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ مجھے معلوم تھا کہ رسول اللہ ﷺ روزہ رکھ رہے ہیں، تو ایک دن میں نے نبیذ لے کر آپ کے افطار کرنے کے وقت کا انتظار کیا جسے میں نے آپ کے لیے کدو کی تونبی میں تیار کی تھی، میں اسے لے کر آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ”میرے پاس لاؤ“، میں نے اسے آپ کے پاس بڑھا دی، وہ جوش مار رہی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے اس دیوار سے مار دو، اس لیے کہ یہ ان لوگوں کا مشروب ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے۔“ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: اس میں دلیل ہے کہ نشہ لانے والی چیز حرام ہے، خواہ وہ زیادہ ہو یا کم، اور معاملہ ایسا نہیں ہے جیسا کہ حیلہ کرنے والے اپنے لیے کہتے ہیں کہ ایسے مشروب کا آخری گھونٹ حرام ہوتا ہے اور وہ گھونٹ حلال ہوتے ہیں جو پہلے پیے جا چکے ہیں اور اس سے پہلے رگوں میں سرایت کر چکے ہیں، اس بات میں علماء کے درمیان اختلاف نہیں پایا جاتا کہ پورا نشہ ابتدائی گھونٹوں کے علاوہ صرف آخری گھونٹ سے پیدا نہیں ہوتا۔ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی یہ کہنا کہ نشہ کا اثر صرف اخیر گھونٹ سے ہوتا ہے یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس اثر میں تو اس سے پہلے کے گھونٹ کا بھی دخل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah said: "I know that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) was fasting, so I prepared some Nabidh for him to break his fast that I had prepared for him in a gourd. I brought it to him and he said: 'Bring it here.' So I brought it closer and it was bubbling. He said: 'Throw it against the wall (throw it away), for this is the drink of one who does not believe in Allah or the Last Day.