باب: وہ احادیث جن سے بعض لوگوں نے نشہ آور مشروب پینے کا جواز نکالا ہے
)
Sunan-nasai:
The Book of Drinks
(Chapter: Reports Used by Those Who Permit the Drinking of Intoxicants)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5708.
حضرت سائب بن یزید نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت عمر بن خطاب ؓ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں نے فلاں شخص سے شراب کی بو محسوس کی ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ یہ طلاء کی شراب ہے۔ میں اس کے بارے میں پوچھ گچھ کروں گا۔ اگر وہ طلاء نشہ آور ثابت ہوا تو میں اس پر حد لگاؤں گا۔ پھر(تحقیق کے بعد) حضرت عمر بن خطاب ؓ نے اس پر پوری حد لگائی۔
تشریح:
(1) اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو ہر نشہ آور مشروب کو حرام اور قابل حد سمجھتے تھے حالانکہ یہ مشروب احناف کی تعریف کے مطابق خمر نہیں پھر بھی آپ نے اس کے پینے پر حد نافذ فرما دی حالانکہ پینے والے کو نشہ نہیں آتا تھا کیونکہ اگر اسے نشہ آیا ہوتا تو تحقیق کی ضرورت ہی نہ تھی کہ وہ مشروب نشے والا تھا یا نہیں۔ معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک نشہ آور مشروب حرام اور قابل حد ہے قلیل ہو یا کثیر۔ نشہ آئے یا نہ آئے لہٰذا ان کی طرف ایسے مشروب کے پینے کی نسبت صحیح نہیں ہوسکتی۔ (2) ”فلاں شخص“ یہ ان کے بیٹے عبیداللہ بن عمر تھے۔ یہ صحابی نہیں تھے۔ صحیح بخاری میں صراحت موجود ہے۔ (3) ”پوری حد لگائی“ کوئی رعایت نہیں فرمائی۔ رضي الله عنه وأرضاه۔ (4) ”طلاء“ انگور کے جوس کو آگ پرخشک کیا جاتا ہے۔ جب وہ دو تہائی خشک ہوجاتا ہےاور لئی جیسا بن جاتا ہے تو اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ عموماً اس میں نشہ نہیں ہوتا لہذا جائز ہے، تاہم اگر نشہ پیدا ہوجائے تو حرام ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5723
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5724
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5711
تمہید کتاب
أشرِبَةٌ شراب کی جمع ہے کومشروب کے معنی میں استعمال ہوتا ہےیعنی پی جانےوالی چیز خواہ پانی ہو یا دودھ ہویا لسی یا سرکہ نبیذ ہویا خمر۔اردو میں یہ الفظ نشہ اور مشروب میں استعمال ہوتا ہے لہذا اردو میں اس کا ترجمہ مشروب کیا جائے۔اور خمر کے معنی شراب کیے جائیں گے جس سے مراد نشہ آور مشروب ہوگا۔
حضرت سائب بن یزید نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت عمر بن خطاب ؓ ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں نے فلاں شخص سے شراب کی بو محسوس کی ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ یہ طلاء کی شراب ہے۔ میں اس کے بارے میں پوچھ گچھ کروں گا۔ اگر وہ طلاء نشہ آور ثابت ہوا تو میں اس پر حد لگاؤں گا۔ پھر(تحقیق کے بعد) حضرت عمر بن خطاب ؓ نے اس پر پوری حد لگائی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو ہر نشہ آور مشروب کو حرام اور قابل حد سمجھتے تھے حالانکہ یہ مشروب احناف کی تعریف کے مطابق خمر نہیں پھر بھی آپ نے اس کے پینے پر حد نافذ فرما دی حالانکہ پینے والے کو نشہ نہیں آتا تھا کیونکہ اگر اسے نشہ آیا ہوتا تو تحقیق کی ضرورت ہی نہ تھی کہ وہ مشروب نشے والا تھا یا نہیں۔ معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک نشہ آور مشروب حرام اور قابل حد ہے قلیل ہو یا کثیر۔ نشہ آئے یا نہ آئے لہٰذا ان کی طرف ایسے مشروب کے پینے کی نسبت صحیح نہیں ہوسکتی۔ (2) ”فلاں شخص“ یہ ان کے بیٹے عبیداللہ بن عمر تھے۔ یہ صحابی نہیں تھے۔ صحیح بخاری میں صراحت موجود ہے۔ (3) ”پوری حد لگائی“ کوئی رعایت نہیں فرمائی۔ رضي الله عنه وأرضاه۔ (4) ”طلاء“ انگور کے جوس کو آگ پرخشک کیا جاتا ہے۔ جب وہ دو تہائی خشک ہوجاتا ہےاور لئی جیسا بن جاتا ہے تو اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ عموماً اس میں نشہ نہیں ہوتا لہذا جائز ہے، تاہم اگر نشہ پیدا ہوجائے تو حرام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سائب بن یزید سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب ؓ ان کی طرف نکلے اور بولے: مجھے فلاں سے کسی شراب کی بو آ رہی ہے، اور وہ یہ کہتا ہے کہ یہ طلاء کا شراب ہے اور میں پوچھ رہا ہوں کہ اس نے کیا پیا ہے۔ اگر وہ کوئی نشہ لانے والی چیز ہے تو اسے کوڑے لگاؤں گا، چنانچہ عمر بن خطاب ؓ نے اسے پوری پوری حد لگائی۔ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : عمر رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ اگرچہ عبیداللہ کو نشہ نہیں آیا ہے، لیکن اگر اس نے کوئی نشہ لانے والی چیز پی ہو گی تو میں اس پر بھی اس کو حد کے کوڑے لگواؤں گا، اس لیے طحاوی وغیرہ کا یہ استدلال صحیح نہیں ہے کہ نشہ لانے والی مشروب کی وہ حد حرام ہے جو نشہ لائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from As-Sa'ib that : 'Umar bin Al-Khattab went out to them and said: "I noticed the smell of drink on so-and-so, and he said that he had drunk At-Tila' (thickened juice of grapes). I am asking about what he drank. If it was an intoxicant I will flog him." So 'Umar bin Al-Khattab, may Allah be pleased with him, flogged him, carrying out the Hadd punishment in full.