Sunan-nasai:
The Book of Drinks
(Chapter: Encouragement to Avoid Doubtful Matters)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
5710.
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”بے شک حلال واضح ہے حرام واضح ہے اور کچھ چیزیں بین بین اور مشتبہ ہیں۔ میں اس کی ایک مثال بیان کرتا ہوں اللہ تعالی نے ایک علاقہ ممنوع قراردیا ہے۔ اور اللہ تعالی کا ممنوعہ علاقہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں)۔ جو شخص اس ممنوع علاقے کے ارد گرد جانور چرائے گا خطرہ رہے گا کہ وہ ممنوع چراگاہ میں جا پڑیں گے۔ اسی طرح جو شخص مشتبہ کاموں میں پڑے گا بہت ممکن ہے کہ حرام پر بھی جرات کرلے۔“
تشریح:
یہ روایت اور اس سے متعلقہ مسائل پیچھے(حدیث: ۴۴۵۸ میں) گزرچکے ہیں۔ اس جگہ اس حدیث کو ذکر کرنے سے امام ؒ کا مقصود یہ ہے کہ خمر تو قطعاً حرام ہے اور اس پر سب متفق ہیں۔عام نشہ آور مشروب بھی جمہور اہل علم کے نزدیک شراب کی طرح حرام ہے۔ کچھ لوگ اسے تھوڑی مقدار میں جائز سمجھتے ہیں۔ اسی طرح صحیح اور مشہور احادیث تواس کو حرام قراردیتی ہے البتہ بعض ضعیف اور غیر معروف روایات سے اس کی حلت کشید کی جاتی ہے لہٰذا یہ اگر حرام نہ بھی ہو تو مشتبہ ضرور ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے مشتبہ کے ترک کو بھی ضروری قراردیا ہے تاکہ حرام سے بچا جا سکے۔ عام نشہ آور مشروب کا استعمال خمر تک لے جائے گا اور قلیل و کثیر کی دعوت دے گا اس لیے اس لحاظ سے بھی اس کا ترک ضروری ہے اور اس کی حلت کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ مشتبہ چیز حلال نہیں ہوتی بلکہ حلال اور حرام کے بین بین ہوتی ہے۔ اہل فتوٰ ی اور تقوٰی کا اس پر اتفاق ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5725
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5726
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
5713
تمہید کتاب
أشرِبَةٌ شراب کی جمع ہے کومشروب کے معنی میں استعمال ہوتا ہےیعنی پی جانےوالی چیز خواہ پانی ہو یا دودھ ہویا لسی یا سرکہ نبیذ ہویا خمر۔اردو میں یہ الفظ نشہ اور مشروب میں استعمال ہوتا ہے لہذا اردو میں اس کا ترجمہ مشروب کیا جائے۔اور خمر کے معنی شراب کیے جائیں گے جس سے مراد نشہ آور مشروب ہوگا۔
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”بے شک حلال واضح ہے حرام واضح ہے اور کچھ چیزیں بین بین اور مشتبہ ہیں۔ میں اس کی ایک مثال بیان کرتا ہوں اللہ تعالی نے ایک علاقہ ممنوع قراردیا ہے۔ اور اللہ تعالی کا ممنوعہ علاقہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں)۔ جو شخص اس ممنوع علاقے کے ارد گرد جانور چرائے گا خطرہ رہے گا کہ وہ ممنوع چراگاہ میں جا پڑیں گے۔ اسی طرح جو شخص مشتبہ کاموں میں پڑے گا بہت ممکن ہے کہ حرام پر بھی جرات کرلے۔“
حدیث حاشیہ:
یہ روایت اور اس سے متعلقہ مسائل پیچھے(حدیث: ۴۴۵۸ میں) گزرچکے ہیں۔ اس جگہ اس حدیث کو ذکر کرنے سے امام ؒ کا مقصود یہ ہے کہ خمر تو قطعاً حرام ہے اور اس پر سب متفق ہیں۔عام نشہ آور مشروب بھی جمہور اہل علم کے نزدیک شراب کی طرح حرام ہے۔ کچھ لوگ اسے تھوڑی مقدار میں جائز سمجھتے ہیں۔ اسی طرح صحیح اور مشہور احادیث تواس کو حرام قراردیتی ہے البتہ بعض ضعیف اور غیر معروف روایات سے اس کی حلت کشید کی جاتی ہے لہٰذا یہ اگر حرام نہ بھی ہو تو مشتبہ ضرور ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے مشتبہ کے ترک کو بھی ضروری قراردیا ہے تاکہ حرام سے بچا جا سکے۔ عام نشہ آور مشروب کا استعمال خمر تک لے جائے گا اور قلیل و کثیر کی دعوت دے گا اس لیے اس لحاظ سے بھی اس کا ترک ضروری ہے اور اس کی حلت کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا کیونکہ مشتبہ چیز حلال نہیں ہوتی بلکہ حلال اور حرام کے بین بین ہوتی ہے۔ اہل فتوٰ ی اور تقوٰی کا اس پر اتفاق ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
نعمان بن بشیر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”حلال واضح ہے، اور حرام (بھی) واضح ہے، ان کے درمیان شبہ والی کچھ چیزیں ہیں۱؎ ، میں تم سے ایک مثال بیان کرتا ہوں: اللہ تعالیٰ نے ایک چراگاہ کی باڑھ لگائی ہے (اور اللہ کی چراگاہ محرمات ہیں) جو بھی اس باڑھ کے اردگرد چرائے گا، عین ممکن ہے کہ وہ چراگاہ میں بھی چرا ڈالے۔ (کبھی «يُوشِكُ أَنْ يُخَالِطَ الْحِمَی» کے بجائے «يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ» کہا) (معنیٰ ایک ہے الفاظ کا فرق ہے)، اسی طرح جو شبہ کا کام کرے گا ممکن ہے وہ آگے (حرام کام کرنے کی) جرات کر بیٹھے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : کبھی «إِنَّ بَيْنَ ذَلِكَ أُمُور مُشْتَبِهَات» کے بجائے یوں کہا: «إِنَّ بَيْنَ ذَلِكَ أُمُورًا مُشْتَبِهَةً» مفہوم ایک ہی ہے بس لفظ کے واحد و جمع ہونے کا فرق ہے، گویا دنیاوی چیزیں تین طرح کی ہیں: حلال، حرام اور مشتبہ، پس حلال چیزیں وہ ہیں جو کتاب و سنت میں بالکل واضح ہیں جیسے دودھ، شہد، میوہ، گائے اور بکری وغیرہ، اسی طرح حرام چیزیں بھی کتاب و سنت میں واضح ہیں، جیسے شراب، زنا، قتل اور جھوٹ وغیرہ، اور مشتبہ وہ ہے جو کسی حد تک حلال سے اور کسی حد تک حرام سے یعنی دونوں سے مشابہت رکھتی ہو، جیسے رسول اللہ ﷺ نے راستہ میں ایک کھجور پڑا ہوا دیکھا تو فرمایا کہ اگر اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کا ہو سکتا ہے تو میں اسے کھا لیتا۔ اس لیے مشتبہ امر سے اپنے آپ کو بچا لینا ضروری ہے۔ کیونکہ اسے اپنانے کی صورت میں حرام میں پڑنے کا خطرہ ہے، نیز شبہ والی چیز میں پڑتے پڑتے حرام میں پڑنے اور اسے اپنانے کی جسارت کر سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that An-Nu'man bin Bashir said: "I heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say: 'That which is lawful is clear and that which is unlawful is clear, but between them there are matters which are doubtful.'" And sometimes he said: "But between them are matters that are not as clear. I will describe the likeness of that for you. Allah, the Mighty and Sublime, has a sanctuary and the sanctuary of Allah is that which He has forbidden. Whoever grazes around the sanctuary will soon transgress into the sanctuary. And whoever approaches a matter that is unclear, he will soon wind up in the sanctuary." And sometimes he said: "He will soon transgress, and indeed whoever mixes in doubt, he will soon cross into it.