باب: دونوں مؤذن اکٹھے اذان کہیں یا الگ الگ ؟(یکے بعد دیگرے)
)
Sunan-nasai:
The Book of the Adhan (The Call to Prayer)
(Chapter: Should They Call The Adhan Together Or Separately?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
639.
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب بلال اذان کہیں تو کھاتے پیتے رہو حتیٰ کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔“ اور ان دونوں اذانوں کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہوتا تھا کہ ایک اترتا اور دوسرا چڑھ جاتا تھا۔
تشریح:
(1) ”ایک اترتا اور دوسرا چڑھ جاتا تھا۔“ اس سے قلت میں مبالغہ مقصود ہے، جیسا کہ عرف میں اس قسم کے جملے مشہور ہیں، ورنہ تو دو اذانوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی اکثر کتب میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ اذان اول کا آغاز رات کے دوسرے نصف حصے سے ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علماء کے ہاں اس کا مفہوم یہ ہے کہ پہلا مؤذن اذان کے بعد بیٹھا ذکر و دعا کرتا رہتا تھا حتیٰ کہ فجر طلوع ہوتی اور اسے نظر آنے لگتی تو وہ نیچے اتر کر دوسرے مؤذن کو اوپر بھیج دیتا تھا۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ دوسرے مؤذن حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینے تھے، فجر نہیں دیکھ سکتے تھے، انھیں اطلاع دینا ضروری تھا۔ لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس قول کی تردید میں فرماتے ہیں: سیاق حدیث کی واضح مخالفت کے ساتھ ساتھ یہاں اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ وہ کون سی خاص دلیل ہے جس کی بنا پر انھوں نے اس معنی کی تصحیح کی ہے اور یہ مفہوم مراد لیا ہے یہاں تک کہ ان کے لیے یہ تاویل کرنا جائز ہوگئی؟ دیکھیے: (فتح الباري: ۱۲۵/۲) بہرحال لگتا ہے کہ دونوں اذانوں کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ نہ ہوتا تھا، اسے منٹوں ہی میں بیان کیا جا سکتا ہے، گھنٹوں میں نہیں، یعنی اندازاً ۲۰، ۳۰ منٹ کا فاصلہ ہوتا ہوگا۔ واللہ أعلم۔ (3) روایت سے ثابت ہوا کہ دو مؤذن الگ الگ اذان کی پہچان کی سہولت کے لیے تھے نہ کہ اس لیے کہ دونوں اکٹھے اذان کہیں۔ اس کا تو کوئی فائدہ ہی نہ تھا۔
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب بلال اذان کہیں تو کھاتے پیتے رہو حتیٰ کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔“ اور ان دونوں اذانوں کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہوتا تھا کہ ایک اترتا اور دوسرا چڑھ جاتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ”ایک اترتا اور دوسرا چڑھ جاتا تھا۔“ اس سے قلت میں مبالغہ مقصود ہے، جیسا کہ عرف میں اس قسم کے جملے مشہور ہیں، ورنہ تو دو اذانوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی اکثر کتب میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ اذان اول کا آغاز رات کے دوسرے نصف حصے سے ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علماء کے ہاں اس کا مفہوم یہ ہے کہ پہلا مؤذن اذان کے بعد بیٹھا ذکر و دعا کرتا رہتا تھا حتیٰ کہ فجر طلوع ہوتی اور اسے نظر آنے لگتی تو وہ نیچے اتر کر دوسرے مؤذن کو اوپر بھیج دیتا تھا۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ دوسرے مؤذن حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینے تھے، فجر نہیں دیکھ سکتے تھے، انھیں اطلاع دینا ضروری تھا۔ لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس قول کی تردید میں فرماتے ہیں: سیاق حدیث کی واضح مخالفت کے ساتھ ساتھ یہاں اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ وہ کون سی خاص دلیل ہے جس کی بنا پر انھوں نے اس معنی کی تصحیح کی ہے اور یہ مفہوم مراد لیا ہے یہاں تک کہ ان کے لیے یہ تاویل کرنا جائز ہوگئی؟ دیکھیے: (فتح الباري: ۱۲۵/۲) بہرحال لگتا ہے کہ دونوں اذانوں کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ نہ ہوتا تھا، اسے منٹوں ہی میں بیان کیا جا سکتا ہے، گھنٹوں میں نہیں، یعنی اندازاً ۲۰، ۳۰ منٹ کا فاصلہ ہوتا ہوگا۔ واللہ أعلم۔ (3) روایت سے ثابت ہوا کہ دو مؤذن الگ الگ اذان کی پہچان کی سہولت کے لیے تھے نہ کہ اس لیے کہ دونوں اکٹھے اذان کہیں۔ اس کا تو کوئی فائدہ ہی نہ تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب بلال اذان دیں تو کھاؤ پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں“ ، ان دونوں کے درمیان صرف اتنا وقفہ ہوتا تھا کہ یہ اتر رہے ہوتے اور وہ چڑھ رہے ہوتے۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : مبالغہ کے طور پر ایسا کہا ہے، ورنہ صحیح بخاری میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں صراحت ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ تہجد پڑھنے والوں کو اور سونے والوں کی متنبہ کرنے کے لیے اذان دیتے تھے کہ جا کر سحری کھا لو، یا غسل وغیرہ کی ضرورت ہو تو فارغ ہو لو، (دیکھئیے حدیث نمبر ۶۴۲) ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrtaed from Khubaib bin 'Abdur-Rahman that his paternal aunt Unaisah (RA) said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'When Ibn Umm Maktum calls the Adhan, eat and drink, and when Bilal calls the Adhan, do not eat nor drink".