Sunan-nasai:
The Book of the Adhan (The Call to Prayer)
(Chapter: The Adhan For One Who Is Praying Alone)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
666.
حضرت عقبہ بن عامر ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”اللہ تعالیٰ بکریوں کے اس چرواہے سے تعجب کرتا ہے جو کسی پہاڑ کی چوٹی پر رہتا ہے اور اذان کہہ کر نماز پڑھتا ہے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے: ”میرے اس بندے کو دیکھو۔ اذان کہتا ہے اور نماز قائم کرتا ہے۔ مجھ سے ڈرتا ہے۔ میں نے اپنے بندے کو معاف کر دیا اور اسے جنت میں داخل کر دیا۔“
تشریح:
(1) یعنی فیصلہ کر دیا کہ یہ جنت میں جائے گا میں اسے جنت میں داخل کروں گا۔ بات قطعی ہونے کی وجہ سے ماضی کے الفاظ میں اس کا ذکر ہے۔ (2) ”تعجب کرتا ہے۔“ خوشی، ناراضی، تعجب اور رحمت وغیرہ اللہ تعالیٰ کے اوصاف ہیں، جیسے بھی اس کی ذات کے لائق ہیں، ان کی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں۔ قرآن مجید اور حدیث شریف میں ان کا ذکر عام ہے۔ اگر یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے لیے مناسب نہ ہوتے تو یوں ذکر نہ ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بارے میں سب سے زیادہ جانتے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 65
رواه أبو داود في " صلاة السفر " رقم ( 1203 ) ، و النسائي في " الأذان "
( 1 / 108 ) و ابن حبان ( 260 ) من طريق ابن وهب عن عمرو بن الحارث أن
أبا عشانة حدثه عن عقبة بن عامر قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم
يقول : فذكره .
قلت : و هذا إسناد مصري صحيح ، رجاله كلهم ثقات ، و أبو عشانة اسمه حي بن يؤمن
و هو ثقة .
( الشظية ) : قطعة من رأس الجبل مرتفعة .
و في الحديث من الفقه استحباب الأذان لمن يصلي وحده ، و بذلك ترجم له النسائي ،
و قد جاء الأمر به و بالإقامة أيضا في بعض طرق حديث المسيء صلاته ، فلا ينبغي
التساهل بهما .
الإرواء ( 214 ) ، صحيح أبي داود ( 1086 )
حضرت عقبہ بن عامر ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”اللہ تعالیٰ بکریوں کے اس چرواہے سے تعجب کرتا ہے جو کسی پہاڑ کی چوٹی پر رہتا ہے اور اذان کہہ کر نماز پڑھتا ہے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے: ”میرے اس بندے کو دیکھو۔ اذان کہتا ہے اور نماز قائم کرتا ہے۔ مجھ سے ڈرتا ہے۔ میں نے اپنے بندے کو معاف کر دیا اور اسے جنت میں داخل کر دیا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) یعنی فیصلہ کر دیا کہ یہ جنت میں جائے گا میں اسے جنت میں داخل کروں گا۔ بات قطعی ہونے کی وجہ سے ماضی کے الفاظ میں اس کا ذکر ہے۔ (2) ”تعجب کرتا ہے۔“ خوشی، ناراضی، تعجب اور رحمت وغیرہ اللہ تعالیٰ کے اوصاف ہیں، جیسے بھی اس کی ذات کے لائق ہیں، ان کی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں۔ قرآن مجید اور حدیث شریف میں ان کا ذکر عام ہے۔ اگر یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے لیے مناسب نہ ہوتے تو یوں ذکر نہ ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بارے میں سب سے زیادہ جانتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”تمہارا رب اس بکری کے چرواہے سے خوش ہوتا ہے جو پہاڑ کی چوٹی کے کنارے پر اذان دیتا اور نماز پڑھتا ہے، اللہ عزوجل فرماتا ہے: دیکھو میرے اس بندے کو یہ اذان دے رہا ہے اور نماز قائم کر رہا ہے، یہ مجھ سے ڈرتا ہے، میں نے اپنے (اس) بندے کو بخش دیا، اور اسے جنت میں داخل کر دیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Uqbah bin 'Amir (RA) said: "I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: 'Your Lord is pleased with a shepherd high in the mountains who calls the Adhan for the prayer and prays. Allah says: 'Look at this slave of Mine; he calls the Adhan and Iqamah for the prayer and fears Me. I have forgiven My slave and admitted him to Paradise'".