تشریح:
(1) یعنی فیصلہ کر دیا کہ یہ جنت میں جائے گا میں اسے جنت میں داخل کروں گا۔ بات قطعی ہونے کی وجہ سے ماضی کے الفاظ میں اس کا ذکر ہے۔
(2) ”تعجب کرتا ہے۔“ خوشی، ناراضی، تعجب اور رحمت وغیرہ اللہ تعالیٰ کے اوصاف ہیں، جیسے بھی اس کی ذات کے لائق ہیں، ان کی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں۔ قرآن مجید اور حدیث شریف میں ان کا ذکر عام ہے۔ اگر یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے لیے مناسب نہ ہوتے تو یوں ذکر نہ ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بارے میں سب سے زیادہ جانتے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 65
رواه أبو داود في " صلاة السفر " رقم ( 1203 ) ، و النسائي في " الأذان "
( 1 / 108 ) و ابن حبان ( 260 ) من طريق ابن وهب عن عمرو بن الحارث أن
أبا عشانة حدثه عن عقبة بن عامر قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم
يقول : فذكره .
قلت : و هذا إسناد مصري صحيح ، رجاله كلهم ثقات ، و أبو عشانة اسمه حي بن يؤمن
و هو ثقة .
( الشظية ) : قطعة من رأس الجبل مرتفعة .
و في الحديث من الفقه استحباب الأذان لمن يصلي وحده ، و بذلك ترجم له النسائي ،
و قد جاء الأمر به و بالإقامة أيضا في بعض طرق حديث المسيء صلاته ، فلا ينبغي
التساهل بهما .
الإرواء ( 214 ) ، صحيح أبي داود ( 1086 )