Sunan-nasai:
The Book of the Adhan (The Call to Prayer)
(Chapter: The Virtue Of Giving The Call To Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
670.
حضرت ابوہریرہ ؓ سےروایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان کہی جاتی ہے تو شیطان ہوا چھوڑتا (پادتا) ہوا بھاگتا ہے حتیٰ کہ اذان نہیں سنتا۔ جب اذان مکمل ہو جاتی ہے تو آ جاتا ہے، پھر جب اقامت کہی جاتی ہے تو پھر بھاگ جاتا ہے، حتیٰ کہ اقامت مکمل ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے، یہاں تک کہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان وسوسے ڈالتا ہے، اسے کہتا ہے: فلاں چیز یاد کر، فلاں چیز یاد کر۔ ایسی چیزیں جو پہلے اس کے ذہن میں نہیں تھیں حتیٰ کہ آدمی کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ کتنی نماز پڑھی ہے؟‘‘
تشریح:
(1) ”ہوا چھوڑتا (پادتا)۔“ ظاہر ہے کہ اس سے حقیقتاً ہوا چھوڑنا (پادنا) ہی مراد ہے۔ اگر شیطان کھا پی سکتا ہے تو باقی لوازم سے انکار کیوں؟ بعض لوگوں نے اس سے نفرت مراد لی ہے۔ لیکن یہ تاویل بلادلیل ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) ”وسوسے ڈالتا ہے۔“ یعنی اس کی توجہ نماز کی بجائے ادھر ادھر مبذول کراتا ہے۔ لعنه اللہ۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 81
و سببه كما رواه أبو أمامة رضي الله عنه قال
" جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : أرأيت رجلا غزا يلتمس الأجر
و الذكر ماله ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا شيء له ، فأعادها ثلاث
مرات ، يقول له رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا شيء له . ثم قال .... "
فذكره.رواه النسائي في " الجهاد " ( 2 / 59 ) و إسناده حسن كما قال الحافظ العراقي
في " تخريج الإحياء " ( 4 / 328 ) .
و الأحاديث بمعناه كثيرة تجدها في أول كتاب " الترغيب " للحافظ المنذري .
فهذا الحديث و غيره يدل على أن المؤمن لا يقبل منه عمله الصالح إذا لم يقصد به
وجه الله عز و جل ، و في ذلك يقول تعالى : ( فمن كان يرجو لقاء ربه فليعمل عملا
صالحا ، و لا يشرك بعبادة ربه أحدا ) . فإذا كان هذا شأن المؤمن فماذا يكون حال
الكافر بربه إذا لم يخلص له في عمله ؟ الجواب في قول الله تبارك و تعالى :
( و قدمنا إلى ما عملوا من عمل فجعلناه هباء منثورا ) .
و على افتراض أن بعض الكفار يقصدون بعملهم الصالح وجه الله على كفرهم ، فإن
الله تعالى لا يضيع ذلك عليهم ، بل يجازيهم عليها في الدنيا ، و بذلك جاء النص
الصحيح الصريح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم و هو :
" إن الله لا يظلم مؤمنا حسنته ، يعطى بها ( و في رواية : يثاب عليها الرزق في
الدنيا ) و يجزى بها في الآخرة ، و أما الكافر فيطعم بحسنات ما عمل بها لله في
الدنيا ، حتى إذا أفضى إلى الآخرة لم يكن له حسنة يجزى بها " .
حضرت ابوہریرہ ؓ سےروایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان کہی جاتی ہے تو شیطان ہوا چھوڑتا (پادتا) ہوا بھاگتا ہے حتیٰ کہ اذان نہیں سنتا۔ جب اذان مکمل ہو جاتی ہے تو آ جاتا ہے، پھر جب اقامت کہی جاتی ہے تو پھر بھاگ جاتا ہے، حتیٰ کہ اقامت مکمل ہو جاتی ہے تو واپس آ جاتا ہے، یہاں تک کہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان وسوسے ڈالتا ہے، اسے کہتا ہے: فلاں چیز یاد کر، فلاں چیز یاد کر۔ ایسی چیزیں جو پہلے اس کے ذہن میں نہیں تھیں حتیٰ کہ آدمی کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ کتنی نماز پڑھی ہے؟‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) ”ہوا چھوڑتا (پادتا)۔“ ظاہر ہے کہ اس سے حقیقتاً ہوا چھوڑنا (پادنا) ہی مراد ہے۔ اگر شیطان کھا پی سکتا ہے تو باقی لوازم سے انکار کیوں؟ بعض لوگوں نے اس سے نفرت مراد لی ہے۔ لیکن یہ تاویل بلادلیل ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) ”وسوسے ڈالتا ہے۔“ یعنی اس کی توجہ نماز کی بجائے ادھر ادھر مبذول کراتا ہے۔ لعنه اللہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا ۱؎ پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے کہ اذان (کی آواز) نہ سنے، پھر جب اذان ہو چکتی ہے تو واپس لوٹ آتا ہے یہاں تک کہ جب نماز کے لیے اقامت کہی جاتی ہے، تو (پھر) پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے، اور جب اقامت ہو چکتی ہے تو (پھر) آ جاتا ہے یہاں تک کہ آدمی اور اس کے نفس کے درمیان وسوسے ڈالتا ہے، کہتا ہے (کہ) فلاں چیز یاد کر فلاں چیز یاد کر، پہلے یاد نہ تھیں یہاں تک کہ آدمی کا حال یہ ہو جاتا ہے کہ وہ جان نہیں پاتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی تیزی سے پیٹھ پھیر کر بھاگتا ہے جس سے اس کے جوڑ ڈھیلے ہو جاتے ہیں اور پیچھے سے ہوا خارج ہونے لگتی ہے، یا وہ بالقصد شرارتاً گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Prophet (ﷺ) said: "When the call for the prayer is given, the Shaitan takes to his heels, passing wind loudly so that he will not hear the call to prayer. When the call to prayer is finished, he comes back. And when the Iqamah is said, he again takes to his heels, and after it is completed, he returns again to interfere between the (praying) person and his heart, saying to him: 'Remember such and such, remember such and such', - things that he had not remembered - until he does not know how many (Rak'ahs) he has prayed".