Sunan-nasai:
The Book of the Masjids
(Chapter: The Virtue Of Building Masjids)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
688.
حضرت عمرو بن عبسہ ؓ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے (اس غرض سے) مسجد بنائی کہ اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے، اللہ عزوجل جنت میں اس کا گھر بنائے گا۔“
تشریح:
(1) مسجد بنانے کا مقصد یہ ہے کہ وہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہونا چاہیے۔ (2) جھگڑے، ضد، تعصب، ریا اور شہرت کی خاطر مسجد بنانا کوئی فضیلت والا کام نہیں۔ (3) مسجد پر اپنا نام کندہ کروانا یا تختیاں لگوانا بھی ریا اور شہرت کے ذیل میں آسکتا ہے، اسی طرح کسی مخصوص فرقے کے لیے مسجد بنانا بھی کہ اس میں دوسرے فرقوں کا داخلہ منع ہو، مسجد کے مقصد کے خلاف اور بے فائدہ ہے۔ صحیح نیت کے ساتھ مسجد بنانا جنت میں اپنا گھر بنانے کے مترادف ہے۔ (4) گھر بنانے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تعظیماً ہے ورنہ اللہ تعالیٰ تو اپنے حکم سے گھر پیدا کرتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
688
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
687
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
689
تمہید کتاب
مساجد دنیامیں اللہ کا گھر ہیں۔ یہ زمین کے مبارک اور پاکیزہ ترین ٹکڑے ہیں۔ ان میں مومن دلوں کو جلا ملتی ہےفرشتے اترتے ہیں‘ رحمتوں کا پے در پے نزول اورسکنیت کی موسلا دھار بارش ہوتی ہے اور میراث نبوی کی تقسیم اورعلم وحی کی خیرات بٹتی ہے۔ مساجد جنت کے بازار ہیں۔ آخرت کے تاجرا نھیں آبادکرتے ہیں اور ان میں الله تعالیٰ کے ساتھ آخرت کی نفع مند تجارت کرتے ہیں۔ شاید مساجد میں خرید و فروخت کی ممانعت کی وجہ بھی یہی ہے کہ لوگ وہاں اخروی تجارت اور حصول جنت کا سودا کرنے میں مشغول ہوتے ہیں والله أعلم۔تاریخ شاہد ہے کہ مساجدعظیم انقلابی تحریک کا گہوارہ رہی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ آتے ہی سب سے پہلے مسجد نبوی کی تعمیر کی اور اللہ کے ذکر اور عبادات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس سے جامعة العلوم کا کام لیا۔ درس وتدریس اور وعظ وتبلیغ کا سلسلا میں جاری رہا۔یہ اصحاب صفہ کا ہاسٹل (دار الاقامۃ ) اور سرکاری مہمانوں کی قیام گاہ تھی۔ غزوات و سرایا کے شکر یہاں سے روانہ کیے جاتے تھے۔ بیت المال کی تقسیم اسی میں ہوتی ‘ نیزیہ دار القضا اور اسلامی ریاست کے سربراہ کا سیکرٹریٹ بھی تھی۔
اسلامی ریاست کی تعمیرات میں سب سے اہم عمارت مسجد ہے۔ خلفاء اور امراء‘ قائدین اور زعماء‘ محدثین اورفقہاء‘ مفسرین اور قضاة‘ اساتذہ اور ادباء مجاہدین اسلام اور شہداء‘ مفکرین اور فقہاء‘ مفتیان اور علماء دین کےداعی اور اسلامی شعراء مساجد ہی سے پیدا ہوئے۔ (افسوس! آج مساجداس سعادت سے محروم ہیں۔) اس طرح جو کام مساجد نے کیا‘ وہ دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیاں اور ادارے نہ کر سکے۔مسجدبنیادی طور پر اللہ کے ذکر اور عبادت کے لیے ہے۔ نماز جیسے اہم فر یضے کی ادائیگی مسجد میں ہوتی ہے۔اعتکاف مسجد میں کیا جاتا ہے۔ درس وتدریں اور وعظ وتبلیغ مسجد میں ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں مساجد باہم میل جول‘ جان پہچان اور حال احوال کی آگہی کا ذریعہ بھی ہیں۔ اسلام نے اصلاح نفوسں کے لیے مساجدکی تعمیر پر زور دیا اور اس کی بہت زیادہ فضیلت و اہمیت بیان کی ہے۔ ذیل میں مسجد کی فضیلت اور آداب و احکام اختصارنے بیان کیے جاتے ہیں۔مسجد کی فضیلت : اسلام میں مسجد کو بہت زیادہ مقام و مرتبہ اور فضیلت حاصل ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:(أحب البلاد إلى الله تعالی مساجدها)’’الله تعالی کے نزدیک محبوب ترین جگہیں مساجد ہیں۔(صحیح مسلم المساجد، حديث:671) نیز ارشاد گرامی ہے(من بنى مسجدا به وجه الله بنى الله له مثله في الجنة)’’جس نے اللہ کی رضا کے لیے مسجد بنائی اللہ اس کے لیے اسی کی مثل جنت میں گھر بنائے گا۔(صحیح البخاري الصلاة حديث:450وصحيح مسلم المساجد حديث:533)اسلام نے مسجد کوفضیلت وعظمت بخشنے کا ایک منفرد انداز اپنایا کہ ہر آنے والے کوحکم دیا کہ وہ مسجد کو ایک تحفہ پیش کرے جس طرح کہ آدمی اپنے دوست یا قریبی کوتحفہ پیش کرتا ہے۔یہ تحفہ دورکعتوں کا تحفہ ہے۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا(إذا دخل أحدكم المسجد فلا يجلس حتی يصلي رکعتین)’’جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو وہ دو رکعتیں پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔(صحيح البخاري الصلاة حديث:444و التهجد حديث:1163و صحیح مسلم صلاة المسافرين حديث:714)یہ تحفہ جملہ تحائف سےانفرادیت میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس میں پیش کرنے والے کا اپناہی فائده ہے۔ یہ مسلمان کی بلند پایہ اسلامی ادب کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔آداب و احکام : اذ ان سن کر مسجد میں آنا : اذان سن کر نماز کے لیے مسجد میں آنا ضروری ہے۔ حضرت ابوہریرہ نے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !میں نے ارادہ کیا کہ میں لکڑیوں کا حکم دوں کہ انہیں اکٹھا کیا جائے ‘پھر نماز کا حکم دوں تو اس کے لیےاذان کہی جائے ‘پھر کسی آدمی کوحکم دوں کہ وہ لوگوں کی امامت کرائے پھر میں خود ان لوگوں کےپیچھے جاؤں جونماز میں شریک نہیں ہوتے‘اور ان کے گھروں کو ان پر آگ لگا کر جلادوں۔(صحيح البخاري الأذان، حديث:644و صحیح مسلم المساجد حديث:651) نیز حضرت ابو ہریرہ نے بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:اے اللہ کے نبی! میرے پاس ایسا کوئی آدمی نہیں جو مجھے پکڑ کر مسجد میں لے آئے۔ اس نے نبی اکرم ﷺسے گھر میں نماز پڑھنے کی رخصت طلب کی۔ آپ نے اسے رخصت دے دی۔ جب وہ واپس جانے لگا تو آپ نے اسے بلا کر پوچھا: کیا تم نماز کی پکار (اذان) سنتے ہو؟ اس نے عرض کیا:جی ہاں تو آپ نے فرمایا: پھر اذان کا جواب دؤیعنی مسجد میں آ کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھو ۔(صحيح مسلم المساجد حديث:653)البتہ خوف ‘بارش ‘سخت آندھی اور شدید بیماری ایسے عذر ہیں جن کی وجہ سے گھر میں نماز ادا کرنا جائز ہے اور شدیدبھوک کی صورت میں کھانے کا حاضر ہوا اور پیشاب پاخانے کی حاجت یہ دو ایسے عذر ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کے لاحق ہونے کی صورت میں نماز باجماعت کے لیے حاضر ہونا منع ہے۔کیاجنبی اورحائضہ مسجد میں داخل ہو سکتے ہیں؟ جمہور علمائے کرام کے نزدیک ان کا داخلہ ممنوع ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”میں حائضہ عورت اور جنبی کے لیے مسجد( میں داخلہ)حلال نہیں کرتا۔ (سنن أبي داود الطهارة حديث:232) لیکن یہ روایت قابل حجت نہیں کیونکہ یہ سند ضعیف ہے۔ اس کی سند میں جسره بنت دجاجہ ہے۔ امام بخاری اس کے بارے میں فرماتےہیں(عندجسرة عجائب)جسرہ کے پاس کا عجائب (عجیب وغریب روایات ہیں۔(التاريخ الكبير:2/67) امام بیہقی نے امام بخاریکا مذکورہ قول نقل کر کے اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے(السنن الكبرى للبيهقي:2/443)امام خطابی ان کے بقول علماء کی ایک جماعت نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (معالم السنن:1/67) امام ابن حزم نے اسے باطل کہا ہے۔(المحلی لابن حزم:2/186) وہ فرماتے ہیں کہ حائضہ نفاس والی عورت اورجنبی مرد یہ سب مسجدمیں داخل ہو سکتے ہیں کیونکہ اس کے بارے میں کوئی ممانعت ثابت نہیں۔ (المحلی:2/184)امام نوویفرماتے ہیں:[الأصل عدم التحريم و ليس لمن حرم دلیل صحيح صریح)’’اصولی طور پر عدم ممانعت ہے۔ جو (حائضہ کے لیے دخول مسجد کو) حرام قرار دیتا ہے‘ اس کے پاس کوئی صحیح اور صریح دلیل نہیں ہے۔ نیز امام نووی نے عبدالحق اشبیلی کے حوالے سے ان الفاظ کےساتھ اس کی تضعيف نقل کی ہےفرماتے ہیں( هذا الحديث لا يثبت) یہ حدیث ثابت نہیں ہوتی۔(المجموع شرح المهذب:2/185،184)ہے۔ امام منذر نےبھی اسے غیرثابت کہا ہے۔ (الأوسط:2/110) شیخ البانینے اسے ارواء الغلیل:( 1/210)میں ضعیف کہا ہے۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:(ضعيف سنن أبي داود (مفصل):9/86۔92حديث:32والقول المقبول ص:120) دوسری علت اس میں یہ ہے کہ اس کی سند میں اختلاف اور اضطراب ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے(ضعيف سنن أبي داود(مفصل)9/88والقول المقبول ص:121)نیز مانعین کا استدلال الله تعالیٰ کے اس فرمان سے بھی ہے(وَلَاجُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ)النسآء43:4)اور نہ جنابت ( ناپاکی) کی حالت میں(نماز کے قریب جاؤ) ہاں اگر راہ چلتے گزروتو اور بات ہے۔ اس کی تفسیر میں علماءکے دوقول ہیں(1) اس سے مراد مسافر ہے‘یعنی جب وہ جنبی ہو اور پانی نہ ملےتو تیمم کر کے نماز پڑھ لے۔یہ قول حضرت علی اور حسن بن مسلم‘ ابن زید ‘مقاتل اور زجاج وغیرہ سے مروی ہے۔ امام قرطبی کے بقول یہ قول سعید بن جبیر‘ مجاہد اور حکم کام کا بھی ہے۔ (تفسير القرطبي:6/340النسأء 4،3بتحقيق الدكتور عبدالله بن عبدالمحسن التركي) ایک روایت کے مطابق تفسیر ابن عباس ؓسےبھی منقول ہے۔ ان سے(الا عابری سبيل)کی تفسیر میں مسجدسےجنبی کے گزرنے کی جو اجازت منقول ہے وہ سندامذکورہ قول کی نسبت کمزور ہے‘ یعنی ابن عباس سے دوروایتیں منقول ہیں جس میں (الا عابری سبيل) کی تفسیر مسافر سے کی گئی ہے وہ اسنادی اعتبارسے زیادہ قوی ہے۔ دوسرا یہ کہ شروع آیت میں نماز کا ذکر ہے نہ کہ مسجد کا(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ)یعنی جنبی کےلیےبلاغسل نمازکےقریب آنا درست نہیں سوائے مسافرکےکہ وہ تیمم کرکےنمازپڑھ سکتاہے۔(تفسيرالقرطبي:6/340) کیونکہ ان کے بقول عموماحضر میں پانی موجود ہوتا ہے۔ اس میں مقیم غسل کر کے نماز پڑھے جبکہ مسافر کے لیے رخصت ہے۔2۔دوسرا قول یہ ہےکہ جنبی مسجدمیں داخل نہ ہومگر اس میں گزرسکتاہے۔ (تفسيرالماوردي،سورةالنسآء43:4)قائلین جواز کے دلائل : جوعلماء جنبی مرد‘حائضہ اورنفاس والی عورت کے لیے مسجد میں داخلہ جائز اور مباح قرار دیتے ہیں‘ ان کے دلائل حسب ذیل ہیں(1) ممانعت کی تمام روایات ضعیف ہیں۔ امام ابن منذر فرماتے ہیں کہ ہمیں دخول مسجد سے ممانعت کی کوئی حجت اوردلیل معلوم نہیں۔ (الأوسط:2/110)2۔(إن المؤمن لاينجس) ’’مومن ناپاک نہیں ہوتا۔ لہذا جنابت کی حالت میں اسے مسجد میں داخل ہونےکی اجازت ہے۔3۔عہد نبوت میں اصحاب صفہ مسجد نبوی میں سویا کرتے تھے اور یقینا ان میں وہ لوگ بھی ہوتے تھےجنہیں احتلام ہوتا تھا‘ اس کے باوجود انہیں مسجد میں سونے سے نہیں روکا گیا‘ لہذا اس سے جنبی کے مسجد میں داخل ہونے کا جواز معلوم ہوتا ہے۔4۔مشرک کا مسجد میں داخل ہونا اور ٹھہرا جائز ہے جیسا کہ ثمامہ بن اثال کو جب پکڑ کر لایا گیا تومسجد نبوی کے ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا‘ نیز رسول اللہﷺکی خدمت میں عیسائی وفود مسجد نبوی میں حاضر ہوتے تھےاور آپ انہیں وہیں ٹھہراتے تھے جبکہ ان کے ہاں جنابت سے پا کی تو کجا، وہ عام حالات میں بھی ناپاک ہی ہوتے ہیں۔ جب ان کے لیے یہ جائز ہے تو مسلمان جنبی کے لیے تو بالا ولیٰ مسجد میں داخل ہونا جائز ہے۔5۔اصل عدم حرمت ہے جیسا کہ امام نووی نے فرمایا جولوگ دخول مسجد سے روکتے ہیں اور اسےحرام کہتےہیں‘ ان کے پاس کوئی صحیح اورصریح دلیل نہیں ہے۔ (المجموع:2/184)6۔سفر حج میں جب حضرت عائشہؓ حائضہ ہوئیں تو رسول اللہﷺ نے انہیں میں صرف طواف کعبہ سے روکا اس لیے نہیں کہ کعبہ مسجد کے اندر ہے بلکہ اس لیے کہ کعبہ کے طواف کونماز قرار دیا گیا ہےاور حائضہ کے لیے نمازپڑھنا درست نہیں۔7۔حضرت عائشہؓ کے بقول ایک سیاہ فام لونڈی کو آزاد کردیا گیا‘ وہ رسول اللہﷺ کے پاس آ کرمسلمان ہوگئی۔آپ ﷺنے اس کے سونے کے لیے باقاعدہ ایک خیمہ مسجد میں لگوادیا۔ امام ابن حزم فرماتےہیں کہ یہ عورت مسجد میں رہائش پذیرتھی اور یہ بات معلوم ہے کہ عورتوں کوحیض بھی آتا ہے لیکن اس کے باوجود رسول اللہﷺ نے اسے روکا نہیں۔ (المحلی:2/186)یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حائضہ عورت مسجد میں ٹھہر سکتی ہے۔ امام احمد اور اسحاق ان دونوں چنی کے لیے مسجد میں بیٹھے اور مرنے کی اجازت دیتے ہیں بشرطیکہ وہ باوضوہو۔(الأوسط: 2/108) مذکورہ دلائل سے معلوم ہوا کہ جنبی حائضہ اور نفاس والی عورت کے لیے مسجد میں جانا‘ٹھرناا اور وہاں قیام کرناجائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ انسان غسل کرنے کے بعد داخل ہویا اگر کسی عذر کی وجہ سے غسل ممکن نہیں تو کم ازکم باوضو ہوکر داخل ہوان شاء الله یہ اس کے ان میں مستحسن ہو گا۔ والله أعلم.مسجد میں آنے کی فضیلت : حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا(من تطهر في بيته ثم مثٰى إلى بيت من بيوت الله ليقضي فريضة من فرائض الله كانت خطوتاه إحداهما تحط خطيئة، والأخرى ترفع درجة)جوشخص اپنے گھر میں وضو کرے ‘پھرکسی فریضے کی ادائیگی کے لئے اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر( مسجد) کی طرف چلے تو اس کے ایک قدم پر ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور دوسرے قدم پر ایک درجہ بلند ہوتا ہے(صحیح مسلم المساجد حديث:666)مسجد کی طرف آتے ہوئے سکون سے چلنا : مسجد کی طرف آتے ہوئے بالکل آرام اور سکون سے چلنا چاہیے۔ دوڑکر یا تیز چل کر آنا درست نہیں کیونکہ اس سے سانس پھول جائے گا اور آدمی سکون سے نماز نہیں پڑھ سکے گاجبکہ نماز میں اطمینان ضروری ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا (إذا أتیتم الصلاة عليكم بالسكينة ، فماأدركتم فصلوا وما اتکم فاتموا)جب تم نماز کی طرف آؤ تو آرام اور سکون سے آؤ پھرجتنی نماز جماعت کے ساتھ پالو اتنی پڑھ لو اور جو باقی رہ جائے‘ اسے (بعد میں) پورا کر لو۔(صحيح البخاري الأذان حدیث:635)مسجد میں داخل ہوتے وقت کی دعائیں(1) نبی اکرم ﷺنے فرمایا:”جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے یہ دعا پڑھنی چاہیے( اللهم افتح لي أبواب رحمتك)اے اللہ میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔(صحیح مسلم صلاة المسافرين حديث:713)2۔حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ جب مسجد میں داخل ہوتے تو کہا کرتے تھے:(أعوذ بالله العظيم وبوجهه الكريم و سلطانه القديم من الشيطان الرجيم)میں شیطان مردوں کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں جو انتہائی عظمت والا ہے اس کے انتہائی محترم چہرے کی پناہ لیتا ہوں اور اس کے ازلی غلبے اور اقتدار کی پناہ لیتا ہوں۔(سنن أبي داود الصلاة حديث:466)(3) رسول اللہﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ ؓسے روایت ہے گی . رسول اللهﷺجب مسجد میں داخل ہوتے تو فرماتے تھے: (بسم الله والسلام على رسول الله اللهم اغفرلي ذ نوبي، وافتح لي أبواب رحمتك)اللہ کے نام سے داخل ہوتا ہوں اور اللہ کے رسول پر سلام ہو۔ اے اللہ! میرے گناہ بخش دے اور میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کول دے۔(جامع الترمذي الصلاة حديث:314؛ وسنن ابن ماجة المساجدوالجماعات حديث:771)مسجد سے نکلتے وقت کی دعائیں:(1) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:” جب آدمی مسجد سے باہر نکلے توکہے( اللهم إني أسلك من فضلك)اے اللہ! میں تجھ سے تیرافضل مانگتا ہوں۔(صحیح مسلم صلاة المسافرين حديث:713) حضرت فاطمہ ؓفرماتی ہیں کہ رسول اللهﷺ جب مسجد سے نکلتے تو فرماتے تھے: (بسم الله والسلام على رسول الله اللهم اغفرلي ذنوبي، وافتح لي أبواب فضلك) ’’اللہ کے نام سے باہرنکلتا ہوں اور اللہ کے رسول پر سلام ہو۔ اے اللہ! میرے گناہ بخش دے اور میرے لیے اپنے فضل کے دروازے کھول ہے۔ (جامع الترمذي الصلاة حديث:314و سنن ابن ماجة المساجد والجماعات حديث:771)مسجد میں داخل ہوتے ہوئے پہلے دایاں پاؤں اندر رکھنا: مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلےدایاں پاؤں اندر رکھناچاہیے اور باہر نکلتے وقت پہلے بایاں پاؤں باہر نکالنا چاہیے۔ حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں: یہ بات سنت سے ثابت ہے کہ تو مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پاؤں اندرر کھے اور باہر نکلتے وقت پہلے بایاں پاؤں باہر رکھے۔ (المستدرك للحاکم: 1/ 218)مسجد میں خاص جگہ متعین کرنا: مسجد میں نماز کی خاطر اپنے لیے خاص متعین کرنا درست نہیں۔حضرت عبدالرحمن بن شبل فرماتے ہیں کہ رسول اللهﷺ نے منع فرمایا کہ کوئی شخص مسجد میں اپنے لیے جگہ خاص کرلے ہے جیسے کہ اونٹ(باڑے میں اپنے لیے جگہ) خاص کر لیتا ہے۔ (سنن النسائي التطبيق حديث:1113وسنن أبي داود الصلاة، حديث:862؛ وسنن ابن ماجه اقامة الصلوات حديث:1429)تحیۃ المسجد : مسجد میں بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا(إذا دخل أحدكم المسجد فلا یجلس كى يصلي ركعتين)جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو وہ دو رکعتیں پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔(صحيح البخاري، الصلاة حديث:1163،444و صحیح مسلم صلاة المسافرين حديث:714)تحیۃ المسجد کے بارے میں اہل علم کی دورائے ہیں:بعض وجوب کے اور جمہور استحباب کےقائل ہیں۔ دلائل پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ تحیۃ المسجد کے بارے میں تاکیدی حکم ہے۔ یہ مستحب محض نہیں اگر چہ قرینہ صارفہ کی بنا پر واجب کہنا مشکل ہے۔ والله أعلم. الغرض آدمی کو چاہیے کہ بعد میں آ کرنماز پڑھے ‘ہاں یہ ضروری نہیں کہ مخصوص دو رکعتیں ہی پڑھے بلکہ فرض سنت نفل جوبھی پڑھ لے تویہ تحیۃ المسجد سے کافی ہوجائے گی۔ رسول اللہ ﷺمسجد میں جماعت کے وقت تشریف لاتے تھے۔ کہیں منقول نہیں کہ آپ ﷺنے الگ تحیۃ المسجد پڑھے ہوں اور اگر نماز کے وقت کے علاوہ کوئی آئے تو پھر بیٹھنے سے قبل کم ازکم دو رکعت پڑھ لے۔مسجد میں بیٹھنے اور نماز کا انتظار کرنے کی فضیلت: رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب آدمی مسجد میں داخل ہوتاہے تو جب تک وہ نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے وہ نماز میں سمجھا جاتا ہے اور نمازکےبعد جب تک وہ باوضونماز والی جگہ بیٹھا رہتا ہے فرشتے اس کے لیے رحمت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں (اللهم اغفرله ، اللهم ارحمه) اے اللہ! اس شخص کو معاف کردے۔ اے اللہ اس پررحم فرما۔(صحيح البخاري الصلاة،حديث:477 ،و صجيح مسلم المساجد حديث:649)بے وضو آدمی کا مسجد میں داخل ہونا اور وہاں بیٹھنا:مذکورہ حدیث سے یہ مفہوم بھی سمجھ میں آتاہے کہ بے وضوآدمی مسجد میں داخل ہوسکتا ہے اور وہاں بیٹھ سکتا ہے۔اذان کے بعد نماز پڑھے بغیر مسجد سے نکلنا:اذان ہونے کے بعد نمازپڑھےبغیر مسجد سے نکلنا منع ہے۔ حضرت ابوشعثاء بیان کرتے ہیں کہ ہم مسجد میں حضرت ابوہرہ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ مؤذن نے اذان دے دی۔ایک آدمی مسجد سے کھڑا ہو کر( باہر کی طرف) چل دیا۔ حضرت ابوہریرہاس کی طرف نظر پھیر کردیکھتے رہے یہاں تک کہ وہ مسجد سے نکل گیا۔ حضرت ابوہرہ نے فرمایا: اس شخص نے ابوالقاسمﷺ کی نافرمانی کی ہے۔ (صحیح مسلم المساجد، حديث:655)البتہ اگر کوئی شخص وضو کرنے کے لیے یا قضائے حاجت وغیرہ کے لیے یا اس کے علاوہ کسی ضروری کام کی غرض سے عارضی طور پر مسجد سے باہر گیا ہو اوراس کا ارادہ مسجد میں آ کر باجماعت نماز پڑھنے کا ہو تو کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی آدمی دوسری مسجد میں جا کر نماز پڑھنا چاہتا ہوتو وہ بھی جاسکتا ہے۔ مذکورہ حدیث سے وہ شخص مراد ہے جوکسی شخص کے لئے یا کسی اور کام کی غرض سے مسجدمیں آیا اور اذان ہوگئی ۔ اذان کے بعد وہ مسجد سے نکل گیا کیونکہ اس کا ارادہ نماز پڑھنانہیں تھا۔مسجد میں شور مچانا: مسجد میں آواز اونچی کرنامنع ہے۔ یہ مسجد کے ادب کے منافی ہے اس سے نماز میں خلل پیداہوتا ہے اور توجہ نماز سے ہٹ جاتی ہے۔ حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں کھڑا تھا کہ ایک آدمی نے مجھےکنکری ماری۔ میں نے دیکھا تو وہ عمر بن خطاب تھے۔ انہوں نے فرمایا: ان دو آدمیوں کومیرے پاس لاؤ۔ میں انھیں ان کے پاس لایا۔ حضرت عمر نے ان سے پوچھا: تم کون ہو؟ یا پوچھا: تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ انھوں نے کہا: ہم طائف کے رہنے والے ہیں حضرت عمر نے فرمایا:اگرتم مدینہ کےرہنے والے ہوتو میں تمہیں ضرورسزا دیتا۔ تم رسول اللهﷺ کی مسجد میں اپنی آوازیں بلند کرتے ہو؟ (صحیح البخاري الصلاة حديث:470)مسجد میں ضرورت کے تحت دنیاوی بات چیت بھی جائز ہے جیسا کہ رسول اللهﷺاور صحابہ کرام سےثابت ہے لیکن مسجد کے تقدس اور نمازیوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اسی طرح اگر لوگ نماز پڑھ رہےہوں تو تلاوت قرآن بھی آہستہ آواز میں کرنی چاہیے، بآواز بلند تلاوت ممنوع ہے۔مسجد میں لیٹنا: مسجد میں لیٹنا جائز ہے۔ حضرت عبدالله بن زید فرماتے ہیں: میں نے رسول اللهﷺ کو مسجدمیں چت لیٹے ہوئے دیکھا۔ آپ نے اپنا ایک پاؤں دوسرے پاؤں کے اوپر رکھا ہوا تھا۔ (صحیح البخاري الصلاةحديث:475و صحیح مسلم اللباس والزينة، حديث:2100)صحیح مسلم کی ایک روایت میں پاؤں پر پاؤں رکھ کر چت لیٹنے کی ممانعت بھی واردہے۔ دونوں احادیث کے مابین علماء نےیوں تطبیق دی ہے کہ اگر پرده برقرار ہے یعنی بے پردگی نہ ہو پاؤں پرپاؤں رکھ کر چت لیٹنا جائز ہے ورنہ ناجائز۔ مسجد میں سونا: مسجد میں سونا جائز ہے۔ اصحاب صفہ مسجد میں سوتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرسے مروی ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے دور میں مسجد نبوی میں سویا کرتے تھے جبکہ وہ نوجوان اور غیر شادی شدہ تھےاوران کا گھر بار نہ تھا۔ (صحيح البخاري، الصلاة حديث:440،والتهجد.حدیث1121 وصحيح مسلم فضائل الصحابة، حديث:2479) علاوہ ازیں ایک روایت میں یوں ہے کہ ایک دن رسول اللہﷺ حضرت فاطمہؓ سے ملنے ان کے گھر تشریف لے گئے تومعلوم ہوا کہ حضرت علی ناراض ہو کر گھر سے نکل گئے ہیں اور یہاں قیلولہ (دوپہر کے کھانے کے بعد ذرا سونا) نہیں کیا۔ حضرت علی اس وقت مسجد میں قیلولہ فرمارہے تھے اور نبی اکرم ﷺنےانہیں مسجد سے جا کر اٹھایاتھا۔ دیکھیے:(صحيح البخاري الصلاة حديث:441)عورت کا مسجد میں آنا: عورت کے لیے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے۔ لیکن اگر وہ مسجد میں آ کر نمازادا کرنا چاہے اورکسی قسم کے فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو اسے روکنا درست نہیں۔ اگر مسجد میں دروسں اور وعظ ونصیحت کا اہتمام ہواور عورت ان سے مستفید ہونا چاہتی ہو تو اس کا مسجد میں آنا اور بھی اچھا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (إذا استأذنت امراةأحدکم إلى المسجد فلا يمنعها) ” جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد میں آنے کی اجازت طلب کرے تو وہ اسے (مسجد میں آنے سے نہ روکے۔(صحيح البخاري النكاح حدیث:5238و صحیح مسلم الصلاة حديث:442) عورت کا مسجد میں سونا:اگرکسی فتنے کا خوف نہ ہو تو عورت بھی مسجد میں سوسکتی ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک سیاه فام لڑکی مسلمان ہوئی تو اس کی رہائش کے لیے مسجد میں خیمہ لگایا گیا۔(صحيح البخاري الصلاةحديث:439) عورت اگر اعتکاف کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے مسجدہی میں اعتکاف کرنا ضروری ہے۔ گھر میں اعتکاف غیر مسنون ہے۔ امہات المومنینؓ مسجد ہی میں اعتکاف کیا کرتی تھیں(صحيح البخاري الاعتكاف حديث:2023وصحيح مسلم الصيام، حدیث:1173)مسجد میں خیمہ لگانا: مسجد میں خیمہ لگانا درست ہے۔ حضرت سعد جب جنگ خندق کے دن زخمی ہوگئےتورسول اللہﷺنے ان کے لیے مسجد میں خیمہ لگایا تا کہ قریب سے ان کی عیادت کرسکیں۔دیکھیے: (صحيح البخاري، الصلاة، حديث:463، وصحيح مسلم، الجهادحديث:1769 نیزدیکھیے‘مذکورہ دونوں احادیث۔مسجد میں بچوں کو لانا: بچوں کو اپنے ساتھ مسجد میں لانا چاہیے تا کہ ان کی مسجد میں آنے کی عادت پختہ ہو جائے‘ نیزسات سال تک وہ نماز کا طریقہ اورمسجد کے آداب وغیرہ اچھی طرح سیکھ جائیں۔ علاوہ ازیں بالکل چھوٹےبچوں کو بھی مسجد میں لانا جائز ہے۔ حضرت ابوقتاده سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نمازپڑھاتےہوئے اپنی نواسی امامہ بنت زینب کو اٹھائے ہوئے تھے۔ آپ جب سجدے میں جاتے تو اسے نیچےاتار دیتے اور جب سجدے سے اٹھتے تو اسے (دوبارہ )اپٹھا لیتے۔ (صحيح البخاري، الصلاة حديث:516و صحیح مسلم المساجد حديث:543) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں نبی ﷺنے فرمایا(إني لادخل في الصلاة و أنا أريد إطالتها فأسمع بكاء الصيئ فاتجوز في صلاتي مما أعلم من شدة وجد أمه من بکائه) میں نماز شروع کرتا ہوں تو ذرا لمبی پڑھنے کا ارادہ ہوتاہے پھر میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز شروع مختصر کر دیتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس کےرونے سے ماں کے دل پر کیا گزرتی ہے۔(صحیح البخاري الأذان، حديث:709وصحیح مسلم الصلاة حديث:470)مشرک کا مسجد میں داخل ہونا: مشرک کافرآدمی مسجد میں آ سکتا ہے۔ حضرت ابوہریرہفرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے نجد کی طرف گھڑ سواروں کا ایک دستہ بھیجا۔ وہ بنوحنیفہ قبیلے کے ایک آدمی ثما مہ اثال کو پکڑ لائے۔ انھوں نے اسے مسجد کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا۔(صحيح البخاري الصلاة حديث:462و صحیح مسلم الجهاد حديث:1764)مسجد میں خرید وفروخت کرنا: مسجد میں خریدوفروخت منع ہے کیونکہ مساجد ذکر الہٰی کے لیے بنائی گئی ہیں۔ اگران میں خرید و فروخت کی اجازت دی جائے اور تجارتی منڈیاں بن جائیں گی اور اپنااصلی مقام کھو دیں گی۔ نبی ﷺنے فرمایا(إذا رأيتم من يبيع أو يبتاع في المسجد فقولوا: لا أربح الله تجارتک) جب تم کسی شخص کو مسجد میں خرید و فروخت کرتے دیکھو تو اسے کہو کہ الله تعالیٰ تمہارے کاروبار اور تجارت میں نفع نہ دے۔(جامع الترمذي، البيوع حديث:1321)مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کرنا: مسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کرنے سے منع کیا گیا ہے‘ رسول اللہﷺ نےفرمایا: (من سمع رجلا ينشد ضالة في المسجد فليقل: لا ردها الله عليک،فإن المساجد لم تبين لهذا) جوکسی آدمی کومسجد میں گم شدہ چیز کا اعلان کرتے سنے تو اسے یہ کہے کہ اللہ کرے وہ چیز میں واپس نہ ملے۔مسجد یں اس مقصد کے لیے تو نہیں بنائی گئیں۔(صحیح مسلم المساجد حديث:568) (ضالة)اصل میں گم شدہ جانور کو کہتے ہیں۔ بالتبع باقی چیزوں کا بھی یہی حکم ہے‘ البتہ گم شدہ بچے کو ضالة نہیں کہتے جبکہ علامہ ابن اثیران کے بقول اس کا اطلاق ‘حیوان اور غیر حیوان‘ یعنی ہر ضائع ہونے والی چیز پر ہوتا ہے۔(النهاية)مسجد میں اشعار پڑھنا: مسجد میں اچھے شعر پڑھنا جائز ہے۔ حضرت سعید بن مسیب حضرت ابو ہریرہ سےبیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر ﷺحضرت حسان بن ثابت کے پاس سے گزرے جبکہ وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر نے انھیں گھور کر دیکھا تو وہ کہنے لگے: (گھورتےکیوں ہو؟) میں( اس مسجد)میں اس وقت بھی شعر پڑھا کرتا تھا جب اس میں آپ سے بہتر شخصیت موجودتھی یعنی نبی اکرمﷺ۔ پھر وہ (حسان) حضرت ابو ہریرہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: کیا آپ نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتےسناہے۔ اے حسان! میری طرف سے (کافروں )کو جواب دو۔ اےاللہ! اس کی روح القدس سےتائید فرما۔ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا:اللہ کی قسم! ہاں۔ دیکھیے :(صحيح البخاري بدء الخلق حديث:3212، وصحيح مسلم فضائل الصحابة حدیث:2485) ایک حدیث میں مسجد میں اشعار پڑھنے کی ممانعت وارد ہے۔ (سنن النسائي المساجد، حديث:716) لیکن اس سے مراد وہ اشعار ہیں جو مبالغہ آرائی اور کفر و شرک پرمشتمل ہوں۔ شرکیہ نظمیں نعتیں بھی اسی زمرے میں آتی ہیں اور شرک اور غلو کی آمیزش سے پاک حمدیں‘ نعتیں اور ایسے اشعار پڑھنے میں کوئی حرج نہیں جن سے مقصودی نیکی رغبت دلانا‘ اسلام کی نفرت وتائید اور کفر کی مذمت ہو۔ والله أعلم.مسجد میں تھوکنا: مساجد اللہ کے ذکر اور عبادت کے لیے بنائی جاتی ہیں اور انھیں ظاہری اور باطنی ہرقسم کی غلاظت سے پاک رکھنے کاحکم ہے۔ تھوک غلاظت کا سبب ہے اور یہ آداب مسجد‘شائستگی اورنظافت کے خلاف ہے‘ نیز یہ ذوق سلیم پربھی گراں گزرتا ہے‘ اس لیے مسجد میں تھوکنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:(البزاق في المسجد خطيئة، وكفارتها دفنها)’’مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے دفن کر دیا جائے۔(صحيح البخاري الصلاة حديث:415وصحیح مسلم المساجد حديث:552) دن اس صورت میں ہوسکتاہے جب مسجد کا فرش کچا ہو۔ اگر فرش پکا ہے تو پانی یا کپڑے وغیرہ سے مکمل طور پر صفائی ضروری ہے۔ شدید مجبوری کے پیش نظر جب تھوک ضبط کر نا آدمی کے بس میں نہ ہوتومسجد میں تھوکنے کی اجازت ہے‘ سامنے یا دائیں نہیں بلکہ بائیں جانب جبکہ اس جانب کوئی دوسراشخص نہ ہو‘اپنے بائیں پاؤں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔نبیﷺ نے فرمایا(إذا قام أحدکم إلى الصلاة فلا يبصق أمامه، فإما يناجي اللله مادام في مصلاه ولا عن يمينه فإن عن يمينه ملکه وليبصق عن يساره اوتحت قدمه فيدفنها)جب تم میں سے کوئی نماز میں کھڑا ہو تو وہ اپنے سامنے نہ تھوکے کیونکہ جب تک وہ نماز کی حالت میں ہوتا ہے‘ الله تعالیٰ سے سرگوشی کرتا ہے اور اپنی دائیں جانب بھی نہ تھوکے کیونکہ اس کی دائیں جانب فرشتہ ہوتا ہے بلکہ وہ بائیں جانب یا(بائیں) پاؤں کے نیچے تھوکے اور( بعد میں) اسے دفن کردے۔(صحيح البخاري، الصلاة حديث:416)جامع ترمذی کی حدیث میں پیچھے تھوکنے کا بھی ذکر ہے۔ دیکھیے : (جامع الترمذي، الجمعة حدیث:571)لیکن اس صورت میں بھی یہ خیال رکھناضروری ہے کہ اس کےپیچھے کوئی نمازی نہ ہو۔رسول اللہﷺ کےیہ فرامین ان مساجد کے لیے ہیں جن کے فرش کچے ہوں۔ آج کل عام طور پر مسجدوں کےفرش پختہ ہیں بلکہ ان میں عمدہ قسم کے قالین ہوتے ہیں‘ لہذا اگریہ ضرورت پیش آ ئے تو اپنے کپڑے ‘رومال یاٹشو وغیرہ میں تھوک کر اسے مسل دینا چاہیے۔ دیکھیے:(صحيح البخاري الصلاة حديث:417وصحیح مسلم المساجد حديث:550)مسجد میں کھانا وغیرہ کھانا: مسجد میں کھانا کھانا جائز ہے۔ حضرت عبداللہ بن حارث بن جزاءزبیدیفرماتےہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم ﷺ کے زمانہ مبارک میں مسجد میں بیٹھ کر گوشت روٹی کھالیاکرتے تھے۔ (سنن ابن ماجه الأطعمة حديث:3300) لیکن مسجد میں کھانا کھاتے وقت صفائی کاخاص خیال رکھنا چاہیے۔ کھانے پینے کی چیز مسجد میں نہ گرنے دی جائے۔بدبودار چیز کھا کر مسجد میں آنا: بد بودار چیز کھا کر مسجد میں آنا جائز نہیں۔ حضرت جابر بيان کرتے ہیں کہ رسول الله سلمﷺ نے فرمایا: (من أكل من هذه الشجرة:الثوم والبصل والكراث، فلا يقربنا في مساجدنا،فإن الملا ئكة تتأذى مما يتأذى منه الإنس)’’ جو آدمی یہ پودا‘یعنی لہسن‘ پیاز اور گندناکھائے تو وہ ہماری مسجدوں کے قریب نہ آئے کیونکہ فرشتوں کو اس چیز سے تکلیف محسوس ہوتی ہے جس سے انسان تکلیف محسوس کرتے ہیں۔(صحيح البخاري الأذان حديث:854وصحيح مسلم المساجد حديث:564واللفظ للنسائي حديث:708) مذکورہ تین چیزوں کے علاوہ بھی جو چیز بدبو کاموجب ہووہ منع ہے‘ مثلا: حقہ‘ سگریٹ اور اس طرح کی دوسری اشیاء (مولی‘ نسوار وغیرہ)جنہیں کھانے سےڈکار کے وقت ویسے منہ کھولنے سے بو آتی ہے کیونکہ فرشتے اور انسان اس سے تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ منع کی وجہ چونکہ بوہے لہذا اگر کسی طریقے سے حتمی طور پر ان کی بوختم کر لی جائے‘ مثلا:ا نہیں پکالیا جائے یا بعدمیں کوئی ایسی چیز استعمال کر لیا جائے یا کھا لی جائے جس سے ان کی بو ختم ہو جائے تو پھر مسجد میں آنا جائز ہوگا لیکن بہتر یہ ہے کہ اس قسم کی چیزیں کھا کر مسجد کا رخ نہ کیا جائے۔ احتیاط اسی میں ہے۔بدبودار چیز کھا کر آنے والے کو مسجد سے نکالنا: حضرت عمر بن خطابفرماتے ہیں (أَيُّهَا النَّاسُ تَأْكُلُونَ شَجَرَتَيْنِ لَا أَرَاهُمَا إِلَّا خَبِيثَتَيْنِ، هَذَا الْبَصَلَ وَالثُّومَ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا وَجَدَ رِيحَهُمَا مِنَ الرَّجُلِ فِي الْمَسْجِدِ، أَمَرَ بِهِ فَأُخْرِجَ إِلَى الْبَقِيعِ، فَمَنْ أَكَلَهُمَا فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا)اے لوگو! تم ان دو بدبودار چیزوں کو کھاتے ہو‘ یعنی لہسن اور پیاز‘ حالانکہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ جب آپ کی آدمی سے ان کی بو پاتے تو اس کے متعلق آپ حکم فرماتے تو اسے بقیع (مدینہ سے متصل جگہ جہاں قبریں تھیں) کی طرف نکال دیا جاتا۔ جس نے انھیں کھاناہی ہو وہ انہیں پکا کر ان کی بوختم کرلے۔(صحيح مسلم المساجد حديث:567) ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص بوالی چیز کھا کر مسجد میں آجائے تو اسے بطور تنبیہ یا سزا اور لوگوں اور فرشتوں کو تکلیف سے بچانے کے لیے مسجد سےنکالاجاسکتاہے۔لیکن مصلحت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس طرح کرنے سے فتنہ و فساد برپا ہوجائے یا کوئی نیا مسلمان ہوا ہو اور ان مسائل سے ابھی ناواقف ہوتو وہ اس رویے سے متنفر ہو کر دین سے دورہوجائے اور مسجد میں آنا ہی چھوڑ دے۔مسجد میں فیصلے کرنا: مسجد میں کسی تنازع کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ رسول اللهﷺ نے خاوند بیوی کےدرمیان مسجدمیں لعان کروایا تھا۔ دیکھیے :(صحيح البخاري الصلاة حديث:423وصحيح مسلم اللعان حديث:1492)مسجد میں حد قائم کرنا ور قصاص لینا:مسجد میں حد قائم کرنا منع ہے کیونکہ اس سے مسجد کا تقدس پامال ہونے کا خطرہ ہے۔ مسجد میں شور و غوغا ہونے کا امکان ہے‘ نیز ممکن ہے کہ سزا پانے والے کا خون یا گندگی خارج ہو جس سےمسجد آلودہ ہوجائے۔ حضرت حکیم بن حزام فرماتے ہیں:نبی اکرمﷺ نے مسجد میں قصاص لینے‘ شعرپڑھنے اور حد قائم کرنے سے منع فرمایا۔ (سنن أبي داود الحدود حديث:449ومسند أحمد:3/434) مساجد تو اس غرض سے بنائی جاتی ہیں کہ ان میں نماز پڑھی جائے ‘تلاوت قرآن ہو اور اللہ کا ذکر کیا جائے۔ قصاص اور حدود اگر چہ شرعی امور ہیں مگر ان سے مسجد کاادب قائم نہیں رہتا۔ اسی طرح لغو اور بے ہودہ اشعار پڑھنا بھی ناجائز ہے‘ البتہ اللہ کی حمد وثنا‘ رسول اللہﷺ کی نعت اور شرعی مضامین پر مشتمل اشعارپڑھے اور سنے جاسکتے ہیں جیساکہ تفصیل پیچھے گزرچکی ہے۔مسجد میں جنگی مشق کریا: مسجد میں ایساکھیل جوجنگی مشق کے قبیل سے ہو جائز ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: میں نے رسول اللهﷺ کو دیکھا کہ آپ اپنی چادر کے ساتھ میرے لیے پردہ کیے ہوئے تھے اور میں حبشیوں کو دیکھ رہی تھی جو مسجد میں کھیل رہے تھے۔ (صحیح البخاري، الصلاة حدیث:454،وصحيح مسلم صلاة العيدين حديث:892)یہ عید کا دن تھا اور ان کا کھیل نیزے اور ڈھال کے ساتھ تھا۔ اس قسم کی جنگی مشق کا مظاہرہ مسجد میں جائز ہے۔مسجد میں مال تقسیم کرنا: مسجد میں مال کی تقسیم جائز ہے۔ وہ مال غنیمت ہو باز کاة وعشرکا مال اور صدقہ فطر ہو یاویسے ہی فقراء و مساکین کے ساتھ تعاون کی غرض سے اکٹھا کیا گیا مال ہو۔ رسول الله ﷺ نے بحرین سے آیا ہواجزیے کامال مسجد میں رکھوایا اور وہیں تقسیم کیا۔ دیکھیے : (صحيح البخاري الصلاة حديث:421)مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنا: مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنا نبی اکرم ﷺاور صحابہ کرامکے عمل سے ثابت ہے۔ اسے مکروہ یا ناجائز کہنا درست نہیں۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں( والله! لقدصلی رسول اللهﷺ على ابني بيضاء في المسجد سهيل وأخيه)اللہ کی قسم رسول اللہﷺ نے بیضاء کے دونوں بیٹوں سہیل اوراس کے بھائی کی نماز جنازہ مسجد میں ادا فرمائی۔(صحیح مسلم الجنائز، حدیث: ۹۷۳) علاوہ ازیں حضرت ابوبکر ؓاور حضرت عمرؓ کا جنازہ مسجد میں پڑھایا گیا تھا نیز حضرت عائشہؓ نے بھی سعد بن ابی وقاص کا جنازہ مسجد ہی میں پڑھا تھا۔ دیکھیے:(طبقات ابن سعد:3/206ومصنف عبدالرزاق:3/527،526) لہذا نبیﷺ اور صحابہ کرام کے اس پرعمل پیرا ہونے کی وجہ سے بغیر کی کراہت کے مسجد میں جنازہ پڑھاجا سکتا ہے البتہ مسجد سے باہر پڑھنا افضل اور بہتر ہے۔والله أعلم.نماز عید ادا کرنا: نماز عید عید گاہ میں ادا کرنی چاہیے۔ رسول اللهﷺ عیدگاہ ہی میں نماز عید ادافرمایا کرتےتھے۔ حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ عيد الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن عید کی ادائیگی کے لیے عید گاہ تشریف لے جاتے۔ (صحیح البخاري العيدين حديث:956) حافظ ابن حجر اس عید گاہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ عید گاہ جس میں رسول اللہ ﷺنماز پڑھاکرتےتھےمسجد نبوی کی مشرقی جانب بقیع کے پاس تھی۔ مسجد نبوی اور اس کے درمیان تقریبا ایک ہزار ہاتھ کا فاصلہ تھا۔ دیکھیے :(فتح الباري:2/579تحت حديث:956) نیز حضرت عبداللہ بن عمربیان کرتے ہیں کہ رسول اللهﷺعید کے دن نماز عید کی ادائیگی کے لیےصبح صبح عیدگاه تشریف لےجاتے۔ (صحیح البخاري، العيدين حديث: ۹۷۳)البتہ شرعی عذر(آندھی ‘ بارش وغیرہ) کی بناپر نمازعید مسجد میں بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ والله أعلم.مسجد میں ہتھیار ننگا رکھنا: مسجد میں بلا ضرورت ہتھیارنہیں لے جانا چاہیے۔ اگر ضرورت کی بناپرلےجاناپڑےتوکم از کم اسے ننگا رکھنے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ یہ اجتماع کی جگہ ہے‘ کسی کو نقصان پہنچ سکتا ہے مثلا:اگر تیر ہیں تو ان کے پھل پکڑلےتا کہ قریب سے گزرتے ہوئے کسی کو ان کی نوک وغیرہ نہ لگ جائے ‘ تلوار ہے تو اسے نیام میں رکھے اور اگر بندوق وغیرہ ہے تو وہ لوڈ (Load) نہیں ہونی چاہیے۔حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی مسجد سے تیرلےکر گزر رہا تھا تو رسول اللہﷺنےاسےفرمایاان کے پھل تھام لے۔(صحيح البخاري الصلاةحديث:451وصحیح مسلم البر والصلة حديث:2614 یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔)سفر سے واپسی پر مسجد میں دو رکعتیں پڑھنا: سفر سے واپسی پر مسجد میں جا کر دو رکعتیں پڑھنا مسنون ہے۔ حضرت کعب بن مالک فرماتے ہیں: (كان إذا قدم من سفر بدأ بالمسجد فيركع فيه ركعتين)رسول اللہﷺ کا جب سفر سے تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز ادا فرماتے۔ (صحيح البخاري،المغازي حديث4418 وصحيح مسلم صلاة المسافرين حديث:716)مسجد میں تشبیک دینا: مسجد کی طرف جاتے وقت اور مسجد میں پہنچ کر جب تک آدمی نماز کی نیت سے اور نماز کےانتظار میں بیٹھارہے ‘اس وقت تک تشبیک (ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کرنا)ناجائز ہے۔ رسول اللہﷺنے فرمایا: (إذا توضأ أحدكم فأحسن وضوء ثم خرج عامدا إلى المسجد فلا یشبكن يديه فإنه في صلاة)جب تم میں سے کوئی وضو کرے اور اچھی طرح وضوکرے ‘ پھر مسجد کا قصد کرے تو اپنے ہاتھ کیاانگلیاں ایک دوسری میں نہ دے کیونکہ (جب تک وہ نماز کے انتظار میں ہے) وہ نماز ہی میں سمجھا جاتا ہے۔(سنن أبي داود الصلاة حديث562) تاہم اگر نماز کے انتظار میں نہ ہو اور نہ نماز کی نیت سے ہو بلکہ ویسے ہی بیٹھا ہو یا کوئی چیز سمجھانا مقصود ہو تو مسجد میں تشبیک جائز ہے۔ حضرت ابوہریرہ نے بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ہمیں ظہر وعصر کی نمازوں میں سے ایک نماز پڑھائی اور دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا اور مسجد میں ایک لکڑی کی اس کے ساتھ ٹیک لگا کرکھڑے ہو گئے۔ آپ نےدائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھا اور ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالیں اور اپنا دایاں رخساربائیں ہاتھ کی پشت پررکھا۔(صحيح البخاري،الصلاة،حدیث482وصحیح مسلم المساجدحديث:573)ذکر کی محافل منعقد کریا: مسجد میں محفل ذکر منعقد کرنا درست ہے لیکن ذکر سے مراد درس قرآن‘درس حدیث اور وعظ ونصیحت کی مجالس ہیں نہ کہ مروجہ خودساختہ ذکر کے لیےحلقے بنانا اورنہ خود ساخت درود و سلام اور شرکیہ نعمتوں کے لیے مجلسیں منعقد کرنا۔ حضرت ابو واقد لیثی بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ مسجدمیں تشریف فرما تھے کہ باہر سے تین آدی آئے ان میں سے دو آدمی رسول اللہﷺ کی مجلس میں حاضری کی غرض سے آگے بڑھے اور تیسرا واپس چلا گیا۔ (باقی مانده) دو میں سے ایک نے مجلس کے حلقےمیں خالی جگہ دیکھی اور وہاں بیٹھ گیا ‘دوسرا سب سے پیچھے بیٹھ گیا‘ جبکہ تیسرا واپس چلا گیا تھا۔ جب رسولﷺفارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا: کیا تمہیں ان تینوں کے متعلق ایک بات نہ بتاؤں؟ ایک شخص تو اللہ کی طرف بڑھا اور اللہ نے اسے اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا اور دوسرے شخص نے اللہ سے حیا کی تو اللہ نے بھی اس سے حیا کی۔ تیسرے نے روگردانی کی اس لیے اللہ نے بھی اس سے اعراض کیا۔(صحيح البخاري، الصلاة حديث:474وصحيح مسلم السلام حدیث:2176) ذکر اگر چہ مسنون ہوتب بھی اس کے لیے مجمع اکٹھا کرنا اور حلقہ بنا کر ایک شخص کی تلقین یا اشارےپر بہ آوازبلند ذکر کرنا بدعت ہے۔ صحابہ کراماس طریقے کو بدعت سمجھتےتھے۔ دیکھیے:(سنن الدارمي،المقدمة، باب كراهية أخذ الرأي،حديث:212)مسجد میں مسواک کرنا: مسجد میں مسواک کرنا جائز ہے۔ بعض حضرات کا اسے مکر وہ کہنا ہے دلیل ہے۔حضرت زید بن خالدجہنی فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ سے سنا‘ آپ فرمارہے تھے: اگر میری امت پرمشقت نہ ہوتی تو میں انھیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا۔ ابوسلمہ کہتے ہیں: چنانچہ میں نے دیکھا کہ حضرت زید بن خالد مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور مسواک ان کے کان پر رکھی ہوئی تھی جیسے کسی منثی کا قلم اس کے کان پر ہوتا ہے‘ جب نماز کے لیے اٹھتے تو مسواک کرلیتے۔(سنن أبي داود، الطهارة،حديث:47، وجامع الترمذي، الطهارة،حديث:23)ستونوں کے درمیان نماز پڑھنا: جماعت کے لیے ستونوں کے درمیان صف بنانا درست نہیں کیونکہ ستونوں کی وجہ سے صف ٹوٹ جاتی ہے البتہ جب آدمی اکیلا نماز پڑھ رہا ہوتو ستونوں کے درمیان کھڑا ہو کر نماز پڑھ سکتاہے۔ نبی ﷺنے خانہ کعبہ کے اندردویمنی ستونوں کے درمیان نماز پڑھی ہے۔دیکھیے: (صحيح البخاري،الحج حديث:1598،وصحیح مسلم الحج، حدیث:1329)امام کا اونچی جگہ کھڑے ہو کر نماز پڑھانا: بوقت ضرورت امام اونچی جگہ کھڑا ہو کر نماز پڑھا سکتا ہے مثلا: نماز کا طریقہ کھانے کے لیے نیز اگر مسجد کا فرش ہی اس طرح کا ہو کہ امام کی جگہ مقتدیوں کی جگہ سے قدرےاونچی ہوتو اس میں بھی ان شاءاللہ کوئی حرج نہیں۔ نبی اکرم ﷺنے صحابہ کرام کو نماز کا طریقہ سکھلانے کے لیے منبر پر کھڑے ہوکر نماز پڑھائی۔سجدہ نیچے اتر کر ادا فرماتے اور باقی نماز منبر پر ادا کرتے۔ دیکھیے: (صحيح البخاري، الجمعة حديث:917، وصحيح مسلم المساجد حديث: 544)تبرک کےلیے مساجد کا سفر کرنا:تبرک کی غرض سے تین مساجد کے علاوہ کسی اور کی طرف رخت سفر باندهناممنوع ہے۔ نبی اکرم نےﷺ فرمايا(لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد: مسجد الحرام ومسجد الأقصي ومسجدي)تین مساجد کے علاوہ کی اور مسجد کیطرف (حصول برکت کے لیے) رخت سفر نہ باندھا جائے: مسجد حرام‘ مسجداقصیٰ اور میری مسجد(مسجد نبوی)۔‘‘ (صحيح البخاري فضل الصلاة في مسجد مكة والمدينة حديث:1197وصحیح مسلم الحج حديث:827بعد حديث:1338) یعنی ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف سفر کرنے کی ممانعت بطور خاص قصدزیارت وثواب یا اسے متبرک سمجھنے کی صورت میں ہے۔ اگر یہ نیت نہ ہو بلکہ سفر کا کوئی اور مقصد ہو تو پھر سفر کرنا ممنوع نہیں ہے۔ والله أعلم.مسجد میں نکاح پڑھانا: مسجد میں نکاح پڑھانا جائز ہے لیکن مسجد میں اس کے خصوصی اہتمام سے متعلق مروی روایت ضعیف ہے۔ گویا مسجد میں نکاح پڑھانے کا حکم نہیں ہے نہ مسجد میں نکاح پڑھانا مسنون عمل ہی ہے جیساکہ بعض لوگ سمجھتے ہیں البتہ نکاح کے لیے کوئی مسجد کا انتخاب کرتا ہے تو ایسا کرنا جائز ہے۔ والله أعلم.مسجدمیں گھنٹی والی گھڑی لگانا: مسجد میں گھنٹی والی گھڑی لگانا درست نہیں کیونکہ گھنٹی شیطان کا باجا ہے۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا(الجرس مزامير الشيطان )گھنٹی شیطان کے باجے ہیں۔ (صحیح مسلم اللباس والزينة حديث:2114) نیز نبی اکرم ﷺ نے فرمایا(لاتصحب الملائكة رفقة فيها كلب ولاجرس)فرشتے اس جماعت کے ساتھ نہیں ہوتے جس میں کتایا گھنٹی ہو۔ (صحیح مسلم، اللباس والزينة حديث:2113)کیلنڈر لگانا: مسجد میں شرکیہ کیلنڈر لگانا درست نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے( وان المساجد الله فلا تدعوامع الله أحدا) (الجن 18:72)بے شک مساجد اللہ کے لیے ہیں لہذاتم (ان میں) اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔ البتہ کتاب وسنت کی روشنی میں توحید اور احکام و مسائل پرمبنی اشتہارات وغیرہ لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ والله أعلم. گھر میں مسجد بنانا: گھر میں نماز کے لیے خاص جگہ متعین کرنا درست ہے۔ حضرت عتبان بن مالکنے جب رسول اللہﷺ سے درخواست کی کہ میں مسجد میں نہیں آ سکتا۔آپ میرے گھر تشریف لائیں اور ایک جگہ نمازپڑھیں جسے میں مسجد بنالوں تو نبی اکرم ﷺ ان کے گھر تشریف لے گئے اور نماز پڑھی۔دیکھیے: (صحيح البخاري الصلاة حدیث:425وصحيح مسلم المساجد حدیث:33،بعد حديث:657) ویسے تو امت محمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا یہ احسان عظیم ہے کہ ساری زمین ہی اس کےلیے مسجد بنائی گئی ہے۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا(وجعلت لي الأرض مسجدا وطهورا فانما رجل من أمتي أدركته الصلاه فليصل)میرے لیے تمام زمین مسجد اور پاک کرنے والی چیز بنائی گئی ہے لہذا میری امت کے کی آدمی کو جہاں بھی نماز کا وقت آجائے ‘ اسے وہیں نماز پڑھ لینی چاہیے۔ (صحيح البخاري، التيمم حديث:335وصحیح مسلم المساجد حديث:521) البته چند جگہیں ایسی ہیں جہاں نماز پڑھنا درست نہیں۔ وہ جگہیں مندرجہ ذیل ہیں۔1۔کوڑے کرکٹ کی جگہ: کیونکہ یہ جگہ پاک نہیں ہوتی جبکہ جگہ کا پاک صاف ہونا ‘ شرائط نماز میں سے ہے۔2۔ذبح خانہ :خون اور دوسری چیزوں کی وجہ سے وہ جگہ صاف نہیں رہتی اور ایک متعفن ماحول ہوتا ہے‘ اس لیے وہاں نماز پڑھنے سے خشوع وخضوع اور اطمینان و سکون کا حصول ناممکن ہوتا ہے‘ تاہم اگروہاں ایسی جگہ ہے جوان آلودگیوں سے محفوظ ہو تو وہاں نماز ادا کی جاسکتی ہے۔3۔قبرستان: قبرستان میں نماز پڑھنے سے نبی اکرمﷺ نے منع فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا(لا تصلوا إلى القبور ولا تجلسوا عليها)‘‘قبروں کی طرف رخ کرکے نماز نہ پڑھو اور نہ ان پربیٹھو۔ ‘‘(صحیح مسلم الجنائز، حديث:972) نیزنبی ﷺ نے فرمایا (اجعلوا في بيوتكم من صلاتکم ولا تتخذوهاقبورا)‘‘ گھروں میں نماز پڑھا کروانہیں قبرستان نہ بناؤ۔(صحيح البخاري الصلاةحديث:432و صحیح مسلم صلاة المسافرين حديث:777)4۔شارع عام: عام لوگوں کی گزرگاہ پر نماز پڑھنا لوگوں کے لیے موجب اذ یت ہوگا‘نیز توجہ اور خشوع بھی نہیں رہ سکتا۔5۔بیت اللہ چھت: بیت الله کی چھت پرنماز پڑھنا جائز ہیں کیونکہ نماز کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ بیت اللہ کی طرف منہ ہو جبکہ بیت اللہ کی چھت پر نماز پڑھنے سے یہ مقصود حاصل نہیں ہوتا۔ ارشاد باری تعالی ہے:(فول وجهك شطر المجسد الحرام) (البقرة149،2)آپ اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیریں۔6۔حمام: کیونکہ وہ خود ازالہ نجاست کامحل ہے۔7۔ اونٹوں کا باڑہ: نبی اکرم ﷺ نے اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔دیکھیے: (سنن النسائي المساجد حديث:736و سنن ابن ماجه المساجد حديث:769) مزید تفصیل کے لیےدیکھیے سنن نسائی کی حدیث:737،736اور ان کے فوائد و مسائل۔تعمیر مساجد سے متعلق احکام مسجدیں بنانا‘ انھیں خوشبو لگانا اور صاف ستھرا رکھنا: حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺنے محلوں میں مسجدیں بنانے کا حکم دیا اور یہ کہ انہیں صاف ستھرا رکھا جائے اور خوشبو لگائی جائے۔ (سنن أبي داود الصلاة حديث:455وجامع الترمذي، الجمعة حديث:594)فخرومباہات کے لیے مسجد یں بنانا: فخر اور حصول شہرت کے لیے مسجد بنانا منع ہے۔ نبی اکرمﷺ نے اسے قیامت کی نشانی قرار دیا ہے۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ لوگ مسجدوں میں باہم فخر نہیں کرنے لگیں گے۔ (سنن أبي داود الصلاةحديث:449و سنن النسائي المساجد حديث:690)آرائش و زیبائش:نبی اکرم ﷺ نے فرمایا( ما أمرت بتشييد المساجد)مجھے مساجد کی آرائش و زیبائش اور انھیں چونا گج کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔(سنن أبي داود، الصلاة حدیث:448) موسمی تغیرات و آفات سے تحفظ کی خاطر حسب ضرورت مساجد کو پختہ بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ یہاں مراد مسجد کی آرائش و زیبائش اونقش و نگار ہے جس کا مسجد کی پختگی سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا۔ اس سے خشوع وخضوع متاثر ہوتا ہے نیزیہ فخرومباہات کی بنیاد ہے۔ عربی تفصیل کےلیے دیکھیے:(سنن النسائي المساجد حديث:690اور اسکےفوائد ومسائل)قبر پر مسجد بنانا: قبر پر مسجد بنانا حرام ہے۔ یہ یہودونصاری کا وتیرہ رہا ہے۔ حضرت جابر بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے قبر کو پختہ بنانے‘ اس پر بیٹھنے اور اس پر عمارت تعمیر کرنے سےمنع فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم الجنائز، حديث:970)نیز نبی اکرمﷺ نے فرمایا( لعن الله اليهود والنصاری اتخذواقبورا أنبیائهم مساجد)یہود و نصاری پر الله کی لعنت ہو‘ انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں (سجدہ گاه) بنالیا۔ (صحيح البخاري الصلاة حدیث:447، وصحیح مسلم المساجد حديث:530، واللفظ لمسلم) اور ایک روایت میں ہے(اِن اوليك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجدا)جب ان (یہود و نصاری) میں صالح آدمی فوت ہو جاتاتو یہ اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے۔(صحیح البخاري الصلاةحديث:427،وصحیح مسلم المساجد،حدیث:428)مشرکین کے قبرستان ختم کر کے مسجد بنانا : مشرکین‘ یہود و نصاری اور دیگر کفار کے قبرستان ختم کرکے وہاں مسجدبنانا درست ہے۔ نبی اکرم ﷺنے جس جگہ مسجد نبوی تعمیر کی(یہ کھنڈر تھے اور) وہاں مشرکین کی قبریں تھیں۔ آپ نے انھیں اکھاڑدیا اور اس جگہ مسجد تعمیر کی۔ دیکھیے (صحیح البخاري الصلاة حديث:428وصحیح مسلم الصلاة حديث:524) مسلمانوں کی قبریں قابل احترام ہیں‘ لہذا مسجد بنانے کے لیے انھیں اکھیڑنا درست نہیں۔ والله أعلم.گرجےکو مسجد بنانا: گرجے کو مسجد بنانا درست ہے لیکن ظاہری شکل و صورت مسجدجیسی کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح اگر اس میں بت ہوں تو ان کو وہاں سے نکالنا اور تصاویر کوختم کرنا بھی ضروری ہے۔ حضرت طلق بن علیبیان کرتے ہیں کہ ہم اپنی قوم کے وفد کے طور پرنبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ‘آپ کی بیت کی‘ آپ کے ساتھ نمازیں پڑھیں اور آپ سے وضو کا بچا ہوا پانی مانگا اور بتایا کہ ہمارا ایک گرجا ہے۔ آپ نے وضو کیا اور بچا ہوا پانی ہمیں دیا اور فرمایا: جب تم اپنے علاقے میں پہنچوتو اپنے گرجے کو توڑ دینا اور اس کی جگہ یہ پانی چھڑک دینا اور اس جگہ کو مسجدبنا لینا۔ ہم اپنے علاقے میں واپس پہنچے تو اپنے گرجے کو توڑ دیا‘ پھر اس کی جگہ وہ مبارک پانی چھڑکا اور اس جگہ مسجد بنالی۔ (سنن النسائي المساجد حديث:702) پرگرجا ان کا اپناتھا‘ اس لیے انھوں نے اسے منہدم کر دیا تھا۔ اگر کسی علاقے کے لوگ مسلمان نہ ہوں تو ان کی عبادت گاہ کو زبردستی مسجد میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا کہ یہ(لا إكراه في الدين) کے خلاف ہے۔مسجد کی تعمیر میں حصہ لینا: مسجد کی تعمیر میں مالی تعاون کے ساتھ ساتھ نفس نفیس خودبھی شرکت کرنی چاہیے۔ یہ ایک مسنون عمل ہے اور نہایت سعادت اور شرف کا باعث ہے۔ جب مسجد نبوی کی تعمیر ہوئی تو نبی اکرم ﷺنے بذات خود اس میں ایک عام آدمی کی حیثیت سے کام کیا اور صحابہ کرام نے بھی مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا۔ دیکھیے :(صحيح البخاري الصلاة حديث:447،428وصحیح مسلم الصلاة حديث:524)غصب شدہ زمین پر مسجد بنانا: غصب شدہ زمین پر مسجد بنانا درست نہیں ۔ زمین غصب کرنا ایک مذموم فعل ہے۔ جب کسی اور مقصد کے لیے زمین غصب کرنا نا جائز ہے تومسجد جیسے باعث شرف فضیلت کام کے لیے زمین غصب کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے۔ نبی اکرمﷺ نےفرمایا(من ظلم قيد شبر من الأرض طوقه من سبع أرضين) جس نے بالشت بارز مین کوبھی غصب کیا تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔ (صحیح البخاري المظالم حديث:2453وصحيح مسلم المساقاةحديث:1612) مسجد کا محراب: اس کا آغاز معلوم نہیں کب سے ہوا؟ اس کی حیثیت صرف ایک علامت کی ہے۔ قرآن و سنت میں کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے محراب کا مسنون و مشروع ہونا ثابت ہو‘ تاہم اس میں کوئی شرعی قباحت بھی نہیں بشرطیکہ مسنون سمجھ کراسے نہ بنایا جائے اور اس کے آداب و احکام وہی ہوں گے جودیگرمسجدکےلیےہیں۔والله أعلم.ستون صفوں کا خیال رکھ کر بنانا: مسجد کی تعمیر کے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ ستون صفوں کے درمیان نہ آئیں بلکہ صف سے آگے یا پیچھے ہوں کیونکہ صف کے درمیان ستون آنے سے صف ٹوٹ جاتی ہے۔مسجد کو کسی کی طرف منسوب کرنا: مسجد کوکسی قبیلے برادری یا کسی آدمی کی طرف منسوب کرنا درست ہے۔دیکھیے:(صحيح البخاري الصلاة حديث:420وصحيح مسلم الإمارة حديث:1870)مسجد کے لیے خادم رکھنا: ارشاد باری تعالی ہے(قالت امرات عمران رب إني نذرت لك ما في بطني محررا)آل عمران35،3) عمران کی بیوی نے کہا: اے میرے رب! میرے پیٹ میں جو کچھ ہے‘ اسے میں تیرے نام آزاد کرنے کی نذر مانتی ہوں۔ اللہ کے نام آزاد کرنے کا مطلب مسجد کی خدمت کے لیے وقف کرناہے۔ حضرت ابوہریرہ بیان فرماتے ہیں ۔ نبی اکرمﷺ کے زمانے میں ایک عورت مسجد میں جھاڑودیاکرتی تھی۔(صحيح البخاري الصلاةحديث:460وصحیح مسلم الجنائز،حدیث:956) امام بخاری نے اس حدیث پربایں الفاظ باب قائم کیا ہے(باب الخدم للمسجد)’’ مسجد کے لیے خادم رکھنےکا بیان۔ ‘‘مسجد کو گرا کر دوبارہ تعمیر کرنا: مصلحت کے پیش نظر مسجد گرا کر دوبارہ تعمیر کی جاسکتی ہے۔نبی ﷺ نےفرمایا:(یا عائشة لولا من قومك حديث عهدهم بكفرلنقضت الكعبة فجعلت لهابابين: بابا يدخل الناس وبابا يخرجون)اے عائشہؓ! اگر تیری قوم نو مسلم نہ ہوتی تو میں کعبے کو توڑ کر اس کے دودروازے بناتا ۔ ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے سےباہرنکلتے۔ (صحیح البخاري العلم حدیث:126وصحیح مسلم الحج حديث:1333)مسجد کے اوپر یانیچے گھر بنانا: مسجد کے اوپر اپنے گھر بنانا جائز ہے۔ دیکھیے : (فتاوي الدين الخالص:3/476) مسجد کا مینار بنانا : مسجد کا مینار بنانا درست ہے لیکن اسراف سے بچا جائے تعمیر میں غلونہ ہو۔ جوازصرف اس حدتک ہے کہ معلوم ہو کہ یہ مسجد ہے یعنی اسے صرف مسجد کے لیے ایک نشانی کی حیثیت دی جائے اوربس‘جیسے محراب کی حیثیت ہے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:’’ اللہ رب العزت عیسیٰ کو بھیجےگا۔ وہ زرد رنگ کی دوچادروں میں‘ فرشتوں کے پروں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوئے دمشق کے مشرقی جانب سفيد مینارکے پاس اتریں گے۔ (صحیح مسلم الفتن حدیث: 2937)
حضرت عمرو بن عبسہ ؓ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص نے (اس غرض سے) مسجد بنائی کہ اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے، اللہ عزوجل جنت میں اس کا گھر بنائے گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مسجد بنانے کا مقصد یہ ہے کہ وہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہونا چاہیے۔ (2) جھگڑے، ضد، تعصب، ریا اور شہرت کی خاطر مسجد بنانا کوئی فضیلت والا کام نہیں۔ (3) مسجد پر اپنا نام کندہ کروانا یا تختیاں لگوانا بھی ریا اور شہرت کے ذیل میں آسکتا ہے، اسی طرح کسی مخصوص فرقے کے لیے مسجد بنانا بھی کہ اس میں دوسرے فرقوں کا داخلہ منع ہو، مسجد کے مقصد کے خلاف اور بے فائدہ ہے۔ صحیح نیت کے ساتھ مسجد بنانا جنت میں اپنا گھر بنانے کے مترادف ہے۔ (4) گھر بنانے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تعظیماً ہے ورنہ اللہ تعالیٰ تو اپنے حکم سے گھر پیدا کرتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمرو بن عبسہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جس نے کوئی مسجد بنائی جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہو، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from 'Amr bin 'Abasah (RA) that the Messenger of Allah (ﷺ) said: "Whoever builds a Masjid in which Allah is remembered, Allah, (the Mighty and Sublime) will build for him a house in Paradise".