تشریح:
جمہور اہل علم کے نزدیک کسی چیز کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی کیونکہ ابوداود کی روایت ہے: [لا يقطعُ الصَّلاةَ شيءٌ] (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: ۷۱۹) یعنی ”کوئی چیز نماز نہیں توڑتی۔“ لہٰذا یہاں نماز ٹوٹنے سے مراد خشوع و خضوع کا ختم ہونا ہے۔ لیکن اہل علم کا دوسرا گروہ نماز ٹوٹ جانے کا قائل ہے۔ اس کی ان کے نزدیک دو دلیلیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ ابو داود کی محولہ حدیث: [لا يقطعُ الصَّلاةَ شيءٌ] ضعیف ہے، اس لیے وہ قابل استدلال نہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ضعیف سنن أبي داود (مفصل): ۲۶۵/۹، حدیث: ۱۱۶) دوسری دلیل ایک واضح حدیث ہے جو قطع الصلاۃ کے مفہوم کو واضح تر کر دیتی ہے، اس کے الفاظ ہیں: [تُعادُ الصَّلاةُ من مَمَرِّ الحِمارِ، والمرأةِ، والكَلْبِ الأَسْوَدِ، وقال: الكَلْبُ الأَسْوَدُ شَيْطانٌ] (صحیح ابن خزیمه، حدیث: ۸۳۱، و صحیح ابن حبان، حدیث: ۲۳۹۱، بتحقیق الشیخ شعیب، وانظر اصحیحة للألباني، حدیث: ۳۳۲۳) ”گدھے، عورت اور سیاہ کتے کے گزرنے سے (نماز ٹوٹ جاتی ہے) نماز دہرائی جائے گی۔“ یہ حدیث قطع صلاۃ کے ظاہری مفہوم کو متعین اور اس کی تاویل (خشوع و خضوع ٹوٹ جانے) کو رد کر دیتی ہے۔ بنا بریں اگلی تمام روایات میں بھی قطع صلاۃ کا ظاہری مفہوم ہی مراد ہوگا۔ واللہ أعلم۔