Sunan-nasai:
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
(Chapter: Praying with tyrannical leaders)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
778.
حضرت ابو العالیہ براء نے کہا کہ ایک دن زیاد (گورنر کوفہ و بصرہ) نے نماز کو مؤخر کیا تو میرے پاس عبداللہ بن صامت آئے، میں نے ان کے لیے کرسی رکھی۔ وہ اس پر بیٹھ گئے۔ میں نے ان سے زیاد کے اس فعل کا ذکر کیا تو انھوں نے اپنے ہونٹ کاٹے اور میری ران پر ہاتھ مارا اور کہنے لگے: میں نے حضرت ابوذر ؓ سے یہ مسئلہ پوچھا تھا جیسے کہ تو نے مجھ سے پوچھا ہے تو انھوں نے میری ران پر اسی طرح ہاتھ مارا تھا جس طرح میں نے تیری ران پر مارا ہے اور فرمایا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے یہ مسئلہ پوچھا تھا جیسا کہ تو نے مجھ سے پوچھا ہے تو آپ نے بھی میری ران پر ہاتھ مارا تھا جس طرح میں نے تیری ران پر مارا ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا تھا: ”وقت پر نماز پڑھ لینا، پھر اگر ان (مؤخر کرنے والوں) کے ساتھ نماز پالے تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لینا۔ یہ نہ کہنا کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے، لہٰذا میں (ان کے ساتھ) نہیں پڑھوں گا۔“
تشریح:
(1) راویٔ حدیث [براء] ہیں (تیر ٹھیک کرنے والے) نہ کہ حضرت براء بن عازب صحابی رضی اللہ عنہ۔ (2) ہونٹ کاٹنا افسوس کی بنا پر تھا کہ امراء نماز وقت سے مؤخر کر دیتے ہیں اور ران پر ہاتھ مارنا متنبہ کرنے کے لیے تھا کہ امراء کے اس فعل کی بنا پر ان سے بغاوت جائز نہ ہوگی۔ (3) وہ (امراء) نماز کو اول اور معتاد وقت سے مؤخر کرتے تھے، تبھی وقت پر پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ وقت مختار سے مؤخر کرتے ہوں۔ وقت مختار سے تاخیر کبھی کبھار تو جائز ہے مگر ہمیشہ کے لیے عادت بنا لینا درست نہیں۔ (4) وقت پر نماز پڑھنا تو نماز کی حفاظت کے لیے ہے جب کہ بعد میں امراء کے ساتھ نماز پڑھنا فتنے سے بچنے کے لیے ہے کہ بغاوت کے جراثیم پرورش نہ پائیں۔ اگر امام مقرر کرنے کا اختار ہو تو صالح اور عالم شخص ہی کو مقرر کرنا چاہیے لیکن اگر یہ اختیار نہ ہو یا امام بالجبر مسلط ہو جائے اور اس کی مخالفت ممکن نہ ہو یا ممکن تو ہو مگر اس سے فتنے کا خدشہ ہو تو حدیث میں بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا جائے۔ مستقل طور پر گھر میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے کیونکہ جماعت سے محرومی بہت سے مفاسد کا ذریعہ بن سکتی ہے، لہٰذا بڑے نقصان سے بچنے کے لیے چھوٹا اور تھوڑا نقصان قبول کر لیا جائے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : فما تأمرني ؟ قال : صل الصلاة لوقتها فإن أدركتها معهم فصل فإنها لك نافلة ( زاد في رواية ) : وإلا كنت قد أحرزت صلاتك ) . وأخرجها أحمد أيضا ( 5 / 149 و 163 و 169 ) . 484 - ( حديث ( من نام عن صلاة أو نسيها فليصلها إذا ذكرها ) . متفق عليه ) . ص 117 صحيح . وقد سبق تخريجه ( 266)
حضرت ابو العالیہ براء نے کہا کہ ایک دن زیاد (گورنر کوفہ و بصرہ) نے نماز کو مؤخر کیا تو میرے پاس عبداللہ بن صامت آئے، میں نے ان کے لیے کرسی رکھی۔ وہ اس پر بیٹھ گئے۔ میں نے ان سے زیاد کے اس فعل کا ذکر کیا تو انھوں نے اپنے ہونٹ کاٹے اور میری ران پر ہاتھ مارا اور کہنے لگے: میں نے حضرت ابوذر ؓ سے یہ مسئلہ پوچھا تھا جیسے کہ تو نے مجھ سے پوچھا ہے تو انھوں نے میری ران پر اسی طرح ہاتھ مارا تھا جس طرح میں نے تیری ران پر مارا ہے اور فرمایا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے یہ مسئلہ پوچھا تھا جیسا کہ تو نے مجھ سے پوچھا ہے تو آپ نے بھی میری ران پر ہاتھ مارا تھا جس طرح میں نے تیری ران پر مارا ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا تھا: ”وقت پر نماز پڑھ لینا، پھر اگر ان (مؤخر کرنے والوں) کے ساتھ نماز پالے تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لینا۔ یہ نہ کہنا کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے، لہٰذا میں (ان کے ساتھ) نہیں پڑھوں گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) راویٔ حدیث [براء] ہیں (تیر ٹھیک کرنے والے) نہ کہ حضرت براء بن عازب صحابی رضی اللہ عنہ۔ (2) ہونٹ کاٹنا افسوس کی بنا پر تھا کہ امراء نماز وقت سے مؤخر کر دیتے ہیں اور ران پر ہاتھ مارنا متنبہ کرنے کے لیے تھا کہ امراء کے اس فعل کی بنا پر ان سے بغاوت جائز نہ ہوگی۔ (3) وہ (امراء) نماز کو اول اور معتاد وقت سے مؤخر کرتے تھے، تبھی وقت پر پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ وقت مختار سے مؤخر کرتے ہوں۔ وقت مختار سے تاخیر کبھی کبھار تو جائز ہے مگر ہمیشہ کے لیے عادت بنا لینا درست نہیں۔ (4) وقت پر نماز پڑھنا تو نماز کی حفاظت کے لیے ہے جب کہ بعد میں امراء کے ساتھ نماز پڑھنا فتنے سے بچنے کے لیے ہے کہ بغاوت کے جراثیم پرورش نہ پائیں۔ اگر امام مقرر کرنے کا اختار ہو تو صالح اور عالم شخص ہی کو مقرر کرنا چاہیے لیکن اگر یہ اختیار نہ ہو یا امام بالجبر مسلط ہو جائے اور اس کی مخالفت ممکن نہ ہو یا ممکن تو ہو مگر اس سے فتنے کا خدشہ ہو تو حدیث میں بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا جائے۔ مستقل طور پر گھر میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے کیونکہ جماعت سے محرومی بہت سے مفاسد کا ذریعہ بن سکتی ہے، لہٰذا بڑے نقصان سے بچنے کے لیے چھوٹا اور تھوڑا نقصان قبول کر لیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوالعالیہ البراء کہتے ہیں کہ زیاد نے نماز میں دیر کر دی تو میرے پاس (عبداللہ بن صامت) ابن صامت آئے میں نے ان کے لیے ایک کرسی لا کر رکھی، وہ اس پہ بیٹھے، میں نے ان سے زیاد کی کارستانیوں کا ذکر کیا، تو انہوں نے اپنے دونوں ہونٹوں کو بھینچا ۱؎ اور میری ران پر ہاتھ مارا، اور کہا: میں نے بھی ابوذر ؓ سے اسی طرح پوچھا جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے، تو انہوں نے میری ران پہ ہاتھ مارا جس طرح میں نے تیری ران پہ مارا ہے، اور کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح پوچھا ہے، جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے تو آپ نے تمہاری ران پہ ہاتھ مارا جس طرح میں نے تمہاری ران پہ مارا ہے، اور فرمایا: ”نماز اس کے وقت پر پڑھ لیا کرو، اور اگر تم ان کے ساتھ نماز کا وقت پاؤ تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لو، اور یہ نہ کہو کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے، لہٰذا اب نہیں پڑھوں گا۔“۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس سے اس کے فعل پر ناپسندیدگی کا اظہار مقصود تھا۔ ۲؎ : کیونکہ اس سے فتنے کا اندیشہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Aliyah Al-Barra' said: "Ziyad delayed the prayer, then Ibn Samit came to me and I gave him a chair and he sat on it. I told him what Ziyad had done and he bit his lip (in disapproval), and he struck me on the thigh and said: 'I asked Abu Dharr the same question you asked me, and he struck me on the thigh as I struck you on the thigh and said: I asked the Messenger of Allah (ﷺ) the same question as you have asked me and he struck me on the thigh as I have struck you on the thigh and said: Offer the prayer on time, and if you catch up with them, then pray with them, and do not say: 'I have already prayed so I will not pray(now)"'.