Sunan-nasai:
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
(Chapter: A blind man leading the prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
788.
حضرت محمود بن ربیع ؓ سے مروی ہے کہ حضرت عتبان بن مالک ؓ اپنی قوم کی امامت کراتے تھے اور وہ نابینے تھے۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے گزارش کی کہ کبھی اندھیرا بارش یا بارشی پانی ہوتا ہے اور میں نابینا شخص ہوں (ایسی حالت میں مسجد نہیں جا سکتا) لہٰذا آپ میرے گھر میں ایک جگہ نماز ادا فرمائیں جسے میں اپنی نماز کے لیے مقرر کرلوں۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا: تم کہاں چاہتے ہو کہ میں نماز پڑھوں؟ تو انھوں نے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ وہاں اللہ کے رسول ﷺ نے نماز پڑھی۔
تشریح:
(1) نابینے کی امامت میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ مکروہ ہے کیونکہ وہ نجاست سے بچ نہیں سکتا۔ بعض نے اس کے برعکس کہا ہے کہ اس کی امامت افضل ہے کیونکہ نظر نہ ہونے کی وجہ سے اس میں خشوع و خضوع زیادہ ہوگا۔ یہ دونوں قول محض رائے کی بنیاد پر ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ نابینے کی امامت صرف جائز ہے لیکن قاریٔ قرآن اور پرہیز گار صاحب علم کو مقدم کرنا افضل ہے۔ نجاست تو آنکھوں والے کو بھی لگ سکتی ہے بلکہ لگ جاتی ہے اور نابینے کا والی بھی اللہ تعالیٰ ہے اور وہ اسے بصیرت عطا فرماتا ہے۔ بڑے بڑے اجل صحابہ نابینا تھے تو کیا وہ پلید ہی رہتے تھے؟ نعوذ باللہ من ذالك۔ (2) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں نماز کی گزارش بطور تبرک تھی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: حدیث نمبر: ۷۰۲ کا فائدہ نمبر: ۴ اور اس کتاب کا ابتدائیہ۔
حضرت محمود بن ربیع ؓ سے مروی ہے کہ حضرت عتبان بن مالک ؓ اپنی قوم کی امامت کراتے تھے اور وہ نابینے تھے۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے گزارش کی کہ کبھی اندھیرا بارش یا بارشی پانی ہوتا ہے اور میں نابینا شخص ہوں (ایسی حالت میں مسجد نہیں جا سکتا) لہٰذا آپ میرے گھر میں ایک جگہ نماز ادا فرمائیں جسے میں اپنی نماز کے لیے مقرر کرلوں۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا: تم کہاں چاہتے ہو کہ میں نماز پڑھوں؟ تو انھوں نے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ وہاں اللہ کے رسول ﷺ نے نماز پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) نابینے کی امامت میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ مکروہ ہے کیونکہ وہ نجاست سے بچ نہیں سکتا۔ بعض نے اس کے برعکس کہا ہے کہ اس کی امامت افضل ہے کیونکہ نظر نہ ہونے کی وجہ سے اس میں خشوع و خضوع زیادہ ہوگا۔ یہ دونوں قول محض رائے کی بنیاد پر ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ نابینے کی امامت صرف جائز ہے لیکن قاریٔ قرآن اور پرہیز گار صاحب علم کو مقدم کرنا افضل ہے۔ نجاست تو آنکھوں والے کو بھی لگ سکتی ہے بلکہ لگ جاتی ہے اور نابینے کا والی بھی اللہ تعالیٰ ہے اور وہ اسے بصیرت عطا فرماتا ہے۔ بڑے بڑے اجل صحابہ نابینا تھے تو کیا وہ پلید ہی رہتے تھے؟ نعوذ باللہ من ذالك۔ (2) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں نماز کی گزارش بطور تبرک تھی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: حدیث نمبر: ۷۰۲ کا فائدہ نمبر: ۴ اور اس کتاب کا ابتدائیہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
محمود بن ربیع سے روایت ہے کہ عتبان بن مالک ؓ اپنے قبیلہ کی امامت کرتے تھے اور وہ نابینا تھے، تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: رات میں تاریکی ہوتی ہے اور کبھی بارش ہوتی ہے اور راستے پانی میں بھر جاتا ہے، اور میں آنکھوں کا اندھا آدمی ہوں، تو اللہ کے رسول! آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ دیجئیے تاکہ میں اسے مصلیٰ بنا لوں! تو رسول اللہ ﷺ آئے، اور آپ نے پوچھا: ”تم کہاں نماز پڑھوانی چاہتے ہو؟“ انہوں نے گھر میں ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا، تو رسول اللہ ﷺ نے اس جگہ میں نماز پڑھی۔ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نابینا کی امامت بغیر کراہت جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Mahmiid bin Ar-Rabi' that 'Itbk bin Milk used to lead his people in prayer, and he was blind. He said to the Messenger of Allah (ﷺ): "Sometimes it is dark or rainy or there is a flood, and I am a blind man; 0 Messenger of Allah (ﷺ), (come and) pray in a place in my house that I may take as a prayer-place". He said: "Where would you like me to pray for you?" He showed him a place in his house, and the Messenger of Allah (ﷺ) prayed there.