تشریح:
(1)زیادہ صحیح روایات کے مطابق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب برابر کھڑے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان اسی طرف ہے۔ ترجمۃ الباب میں فرماتے ہیں: [باب یقوم عن یمین الإمام بحدائه سواء إذا کانا اثنین] مقتدی امام کے بالکل برابر دائیں جانب کھڑا ہوگا جبکہ (نماز پڑھتے وقت) صرف دو ہوں۔ (صحیح البخاري الأذان باب: ۵۷) اس کی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طویل حدیث ہے۔ مسند احمد میں صحیح سند کے ساتھ یہ اضافہ بھی موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ما شأني أَجعلُك حِذائي فتخْنِسُ] کیا وجہ ہے میں تجھے اپنے برابر کھڑا کرتا ہوں اور تو پیچھے ہٹتا ہے۔ (مسند أحمد: ۳۳۰/۱) اس کی مزید تائید اس اثر سے ہوتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے ایک آدمی کھڑا ہوا انھوں نے اسے قریب کیا اور اپنی دائیں طرف بالکل برابر کرلیا۔ موطا امام مالک میں صحیح سند کے ساتھ یہ اثر موجود ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [مختصر صحیح البخاري للألباني: ۲۲۶/۱) ان دلائل سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو مقتدی کے امام کے عین برابر کھڑے ہونے کے قائل نہیں بلکہ ان کے ہاں مستحب یہ ہے کہ جب صرف دو نمازی ہوں تو مقتدی امام سے کچھ ہٹ کر کھڑا ہو لیکن یہ موقف مرجوح ہے۔ عین برابر کھڑا ہونے کا موقف حنابلہ اور احناف میں سے امام محمد رحمہ اللہ کا ہے جیسا کہ موطا میں ان کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے۔ مزید دیکھیے: (سلسلة الأحادیث الصحیحة حدیث: ۶۰۶)
(2) لوگ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اقتدا کرتے تھے البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے یا ابوبکر رضی اللہ عنہ؟ امام نسائی رحمہ اللہ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے مقتدی اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقتدی۔ لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حیثیت مکبر و مبلغ کی تھی جیسا کہ بعد میں آنے والی حدیث جابر اس پر دلالت کرتی ہے۔ مزید ملاحظہ ہو: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائي: ۱۱۹/۱۰)
(3) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمانا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر سے آگے تھے مفصل اور واضح روایات کے منافی نہیں کیونکہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر امامت کروائی تھی اور بیٹھا آدمی کھڑے کی نسبت آگے ہی لگتا ہے۔ واللہ أعلم۔