باب: کون سا شخص امام سے متصل ہو، پھر جو اس سے متصل ہو؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
(Chapter: Who should stand immediately behind Imam and who should stand behind them)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
807.
حضرت ابو مسعود ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نماز سے قبل ہمارے کندھوں کو پکڑ پکڑ کر سیدھا کرتے تھے اور فرماتے تھے: آگے پیچھے کھڑے نہ ہوا کرو ورنہ تمھارے دل بھی ایک دوسرے سے بگڑ جائیں گے (ان میں پھوٹ پڑ جائے گی۔) میرے قریب تم میں سے سمجھ دار (بالغ) اور عقل مند لوگ کھڑے ہیں پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہیں پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہیں۔ حضرت ابو مسعود ؓ بیان کرتے ہیں: آج تم میں سخت اختلاف ہے۔ ابو عبدالرحمٰن (امام نسائی) ؓ بیان کرتے ہیں: (سند میں مذکور) ابو معمر کا نام عبداللہ بن سخبرہ ہے۔
تشریح:
(1) مقتدیوں کی صفوں کو سیدھا کرنا امام کا فرض ہے۔ خود کرے یا نائب مقرر کر دے۔ اس کام کی وجہ سے اقامت اور تکبیر تحریمہ میں فاصلہ بھی ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔ (2) [لَا تَخْتَلِفُوا] ایک معنی تو ترجمہ میں بیان کیے گئے ہیں۔ دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ آپس میں جھگڑا نہ کیا کرو۔ دل ایک دوسرے سے متنفر ہو جائیں گے۔ ظاہر کا اثر باطن پر بھی ہوتا ہے۔ سیدھے اور مل کر کھڑے ہوں تو دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ آگے پیچھے اور دور دور کھڑے ہونے سے دلوں میں دوری پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ فطری چیز ہے۔ اس کا انکار ممکن نہیں۔ دوست مل کر بیٹھتے ہیں اور دشمن ایک دوسرے کے سائے سے بھی بھاگتے ہیں۔ (3) صف اول میں علم و فضل اور بڑی عمر والے لوگ کھڑے ہونے چاہئیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بالغ عاقل نوجوان جماعت اور نماز کے شوقین اور پابند کو جو پہلے آکر اگلی صف میں بیٹھا ہو بعد میں آنے والا بزرگ اٹھا کر اس کی جگہ پر بیٹھ جائے۔ یہ نوجوانوں کی دل شکنی بھی ہے حق تلفی بھی اور شریعت کے خلاف بھی۔ شریعت کی رو سے جو پہلے آکر جس جگہ بیٹھ گیا ہے اسی کا حق ہے۔ اہل عقل و دانش کو امام کے قریب کھڑے ہونے کا جو حکم ہے وہ ترغیبی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سمجھ دار نوجوان اس کے اہل نہیں ہے۔ دوسری صف میں ان سے ملتی جلتی عقل اور عمر والے۔ تیسری میں ان سے ملتی ہوئی عقل اور عمر والے حتیٰ کہ چھوٹے بچے آخری صف میں الا یہ کہ بچوں کے اکٹھے کھڑے ہونے سے شرارتوں کا خطرہ ہو تو انھیں بڑوں کے ساتھ کھڑا کیا جا سکتا ہے مگر پہلی صف سے پیچھے۔ (4) آج تم میں سخت اختلاف ہے۔ یعنی تم بہت آگے پیچھے کھڑے ہوتے ہو۔ صفوں کو توڑتے ہو۔ مل کر کھڑے نہیں ہوتے۔ مطلب یہ ہے کہ آج تم میں بہت معاشرتی اختلاف پایا جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تم صفیں سیدھی اور درست نہیں بناتے۔
حضرت ابو مسعود ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نماز سے قبل ہمارے کندھوں کو پکڑ پکڑ کر سیدھا کرتے تھے اور فرماتے تھے: آگے پیچھے کھڑے نہ ہوا کرو ورنہ تمھارے دل بھی ایک دوسرے سے بگڑ جائیں گے (ان میں پھوٹ پڑ جائے گی۔) میرے قریب تم میں سے سمجھ دار (بالغ) اور عقل مند لوگ کھڑے ہیں پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہیں پھر وہ لوگ جو ان سے قریب ہیں۔ حضرت ابو مسعود ؓ بیان کرتے ہیں: آج تم میں سخت اختلاف ہے۔ ابو عبدالرحمٰن (امام نسائی) ؓ بیان کرتے ہیں: (سند میں مذکور) ابو معمر کا نام عبداللہ بن سخبرہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) مقتدیوں کی صفوں کو سیدھا کرنا امام کا فرض ہے۔ خود کرے یا نائب مقرر کر دے۔ اس کام کی وجہ سے اقامت اور تکبیر تحریمہ میں فاصلہ بھی ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔ (2) [لَا تَخْتَلِفُوا] ایک معنی تو ترجمہ میں بیان کیے گئے ہیں۔ دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ آپس میں جھگڑا نہ کیا کرو۔ دل ایک دوسرے سے متنفر ہو جائیں گے۔ ظاہر کا اثر باطن پر بھی ہوتا ہے۔ سیدھے اور مل کر کھڑے ہوں تو دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ آگے پیچھے اور دور دور کھڑے ہونے سے دلوں میں دوری پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ فطری چیز ہے۔ اس کا انکار ممکن نہیں۔ دوست مل کر بیٹھتے ہیں اور دشمن ایک دوسرے کے سائے سے بھی بھاگتے ہیں۔ (3) صف اول میں علم و فضل اور بڑی عمر والے لوگ کھڑے ہونے چاہئیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بالغ عاقل نوجوان جماعت اور نماز کے شوقین اور پابند کو جو پہلے آکر اگلی صف میں بیٹھا ہو بعد میں آنے والا بزرگ اٹھا کر اس کی جگہ پر بیٹھ جائے۔ یہ نوجوانوں کی دل شکنی بھی ہے حق تلفی بھی اور شریعت کے خلاف بھی۔ شریعت کی رو سے جو پہلے آکر جس جگہ بیٹھ گیا ہے اسی کا حق ہے۔ اہل عقل و دانش کو امام کے قریب کھڑے ہونے کا جو حکم ہے وہ ترغیبی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سمجھ دار نوجوان اس کے اہل نہیں ہے۔ دوسری صف میں ان سے ملتی جلتی عقل اور عمر والے۔ تیسری میں ان سے ملتی ہوئی عقل اور عمر والے حتیٰ کہ چھوٹے بچے آخری صف میں الا یہ کہ بچوں کے اکٹھے کھڑے ہونے سے شرارتوں کا خطرہ ہو تو انھیں بڑوں کے ساتھ کھڑا کیا جا سکتا ہے مگر پہلی صف سے پیچھے۔ (4) آج تم میں سخت اختلاف ہے۔ یعنی تم بہت آگے پیچھے کھڑے ہوتے ہو۔ صفوں کو توڑتے ہو۔ مل کر کھڑے نہیں ہوتے۔ مطلب یہ ہے کہ آج تم میں بہت معاشرتی اختلاف پایا جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تم صفیں سیدھی اور درست نہیں بناتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابومسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں (صف بندی کے وقت) ہمارے کندھوں پر ہاتھ پھیرتے، اور فرماتے: ”تم آگے پیچھے نہ کھڑے ہو کہ تمہارے دلوں میں پھوٹ پڑ جائے، اور تم میں سے ہوش مند اور باشعور لوگ مجھ سے قریب رہیں، پھر وہ جو ان سے قریب ہوں، پھر وہ جو (اس وصف میں) ان سے قریب ہو“ ، ابومسعود ؓ کہتے ہیں: اسی بنا پر تم میں آج اختلافات زیادہ ہیں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: ابومعمر کا نام عبداللہ بن سخبرہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Qais bin 'Ubad said: "While I was in the Masjid in the first row, a man pulled me from behind and moved me aside, and took my place. By Allah, I could not focus on my prayer, then when he left I saw that it was Ubayy bin Ka'b (RA). He said: 'O boy, may Allah protect you from harm. This is what the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) instructed us to do, to stand directly behind him.' Then he (Ubayy) turned to face the Qiblah and said: 'Doomed are Ahl Al-'Uqd, by the Lord of the Ka'bah! - three times.'Then he said: 'By Allah, I am not sad for them, but I am sad for the people whom they have misled.' I said: '0 Abu Ya'qub, what do you mean by Ahl Al-'Uqd'? He said: 'The rulers"'.