باب: کون سا شخص امام سے متصل ہو، پھر جو اس سے متصل ہو؟
)
Sunan-nasai:
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
(Chapter: Who should stand immediately behind Imam and who should stand behind them)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
808.
حضرت قیس بن عباد سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں مسجد میں پہلی صف میں تھا۔ مجھے میرے پیچھے سے ایک آدمی نے کھینچا اور مجھے پیچھے کر دیا اور خود میری جگہ کھڑا ہوگیا۔ اللہ کی قسم! (مجھے اس قدر غصہ آیا کہ) میں اپنی نماز بھی توجہ سے نہ پڑھ سکا۔ جب وہ شخص فارغ ہوا تو میں نے دیکھا وہ حضرت ابی بن کعب ؓ تھے۔ کہنے لگے: اے جوان! اللہ تعالیٰ تجھے ہر تکلیف سے بچائے۔ تحقیق یہ نبی ﷺ کی ہمیں نصیحت ہے کہ ہم (سمجھ دار اور بڑی عمر کے لوگ) آپ کے قریب (پہلی صف میں) کھڑے ہوں۔ پھر آپ (ابی بن کعب) قبلے کی طرف متوجہ ہوئے اور تین دفعہ فرمایا: کعبے کے رب کی قسم! اہل حل و عقد ہلاک ہو گئے۔ پھر فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے ان پر افسوس نہیں بلکہ افسوس ان پر ہے جنھوں نے انھیں گمراہ کیا۔ میں نے کہا: اے ابو یعقوب! آپ اہل حل و عقد سے کیا مراد لیتے ہیں؟ فرمایا: امراء یعنی حکام۔
تشریح:
معلوم ہوا کہ اگر کوئی بچہ یا کم عقل انسان پہلی صف میں کھڑا ہو جائے تو اسے اچھے طریقے یعنی پیار محبت سے پیچھے ہٹا دیا جائے تاکہ اس کی جگہ کوئی سمجھ دار معمر آدمی کھڑا ہوسکے تاہم یہ معمول درست نہیں کہ بڑے لوگ جماعت سے پیچھے بیٹھ رہیں جب صف مکمل کرکے لوگ نماز شروع کرنے لگیں تو یہ نوجوان کو گھسیٹنا شروع کر دیں۔ اس سے دل شکنی کے علاوہ بدنظمی پھیلتی ہے۔ کبھی کبھار کوئی اہل علم و فضل بزرگ جس کا سب احترام کرتے ہوں پیچھے رہ جائے تو وہ کسی بچے کی جگہ کھڑا ہوسکتا ہے۔ ظاہر ہے اس بزرگ کے احترام کے پیش نظر نہ اس بچے کی دل شکنی ہوگی نہ جھگڑا۔ ہر آدمی کا یہ مقام نہیں۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سید القراء تھے جن کا احترام حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر اور با رعب خلیفہ بھی کرتے تھے پھر انھوں نے کیسے پیار سے سمجھایا کہ متعلقہ شخص کی ناراضی ختم ہوگئی۔
حضرت قیس بن عباد سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں مسجد میں پہلی صف میں تھا۔ مجھے میرے پیچھے سے ایک آدمی نے کھینچا اور مجھے پیچھے کر دیا اور خود میری جگہ کھڑا ہوگیا۔ اللہ کی قسم! (مجھے اس قدر غصہ آیا کہ) میں اپنی نماز بھی توجہ سے نہ پڑھ سکا۔ جب وہ شخص فارغ ہوا تو میں نے دیکھا وہ حضرت ابی بن کعب ؓ تھے۔ کہنے لگے: اے جوان! اللہ تعالیٰ تجھے ہر تکلیف سے بچائے۔ تحقیق یہ نبی ﷺ کی ہمیں نصیحت ہے کہ ہم (سمجھ دار اور بڑی عمر کے لوگ) آپ کے قریب (پہلی صف میں) کھڑے ہوں۔ پھر آپ (ابی بن کعب) قبلے کی طرف متوجہ ہوئے اور تین دفعہ فرمایا: کعبے کے رب کی قسم! اہل حل و عقد ہلاک ہو گئے۔ پھر فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے ان پر افسوس نہیں بلکہ افسوس ان پر ہے جنھوں نے انھیں گمراہ کیا۔ میں نے کہا: اے ابو یعقوب! آپ اہل حل و عقد سے کیا مراد لیتے ہیں؟ فرمایا: امراء یعنی حکام۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ اگر کوئی بچہ یا کم عقل انسان پہلی صف میں کھڑا ہو جائے تو اسے اچھے طریقے یعنی پیار محبت سے پیچھے ہٹا دیا جائے تاکہ اس کی جگہ کوئی سمجھ دار معمر آدمی کھڑا ہوسکے تاہم یہ معمول درست نہیں کہ بڑے لوگ جماعت سے پیچھے بیٹھ رہیں جب صف مکمل کرکے لوگ نماز شروع کرنے لگیں تو یہ نوجوان کو گھسیٹنا شروع کر دیں۔ اس سے دل شکنی کے علاوہ بدنظمی پھیلتی ہے۔ کبھی کبھار کوئی اہل علم و فضل بزرگ جس کا سب احترام کرتے ہوں پیچھے رہ جائے تو وہ کسی بچے کی جگہ کھڑا ہوسکتا ہے۔ ظاہر ہے اس بزرگ کے احترام کے پیش نظر نہ اس بچے کی دل شکنی ہوگی نہ جھگڑا۔ ہر آدمی کا یہ مقام نہیں۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سید القراء تھے جن کا احترام حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر اور با رعب خلیفہ بھی کرتے تھے پھر انھوں نے کیسے پیار سے سمجھایا کہ متعلقہ شخص کی ناراضی ختم ہوگئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
قیس بن عباد کہتے ہیں کہ میں مسجد میں اگلی صف میں تھا کہ اسی دوران مجھے میرے پیچھے سے ایک شخص نے زور سے کھینچا، اور مجھے ہٹا کر میری جگہ خود کھڑا ہو گیا، تو قسم اللہ کی غصہ کے مارے مجھے اپنی نماز کا ہوش نہیں رہا، جب وہ (سلام پھیر کر) پلٹا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ابی بن کعب ؓ ہیں تو انہوں نے مجھے مخاطب کر کے کہا: اے نوجوان! اللہ تجھے رنج و مصیبت سے بچائے! حقیقت میں نبی اکرم ﷺ سے ہمارا میثاق (عہد) ہے کہ ہم ان سے قریب رہیں، پھر وہ قبلہ رخ ہوئے، اور انہوں نے تین بار کہا: رب کعبہ کی قسم! تباہ ہو گئے اہل عقد، پھر انہوں نے کہا: لیکن ہمیں ان پر غم نہیں ہے، بلکہ غم ان پر ہے جو بھٹک گئے ہیں، میں نے پوچھا: اے ابو یعقوب! اہل عقد سے آپ کا کیا مطلب؟ تو انہوں نے کہا: امراء (حکام) مراد ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Salamah bin 'Abdur Rahman narrated that he heard Abu Hurairah (RA) say: "The Iqamah for prayer was said, and we stood up and the rows were straightened, before the Messenger of Allah (ﷺ) came out to us. Then the Messenger of Allah (ﷺ) came to us and stood in the place where he prayed, before he said the Takbir he paused and said to us: 'Stay where you are'. So we stayed there, waiting for him, until he came out to us; he had performed Ghusl and his head was dripping with water. Then he said the Takbir and prayed".