Sunan-nasai:
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
(Chapter: A stern warning against staying behind from prayer in congregation)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
848.
حضرت ابوہریرہ ؓ سےمنقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کیا کہ میں ایندھن (اکٹھا کرنے) کا حکم دوں، اسے اکٹھا کیا جائے، پھر حکم دوں کہ نماز کی اذان کہی جائے، پھر ایک آدمی کو حکم دوں،اور وہ لوگوں کی امامت کرائے، پھر میں ان لوگوں کی طرف جاؤں (جو نماز پڑھنے نہیں آئے) اور ان کے گھروں کو ان پر جلا دوں۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر ان میں سے کوئی شخص جان لے کر اسے چربی والی ہڈی یا وہ بہترین کھر ملیں گے تو وہ ضرور عشاء کی نماز میں حاضر ہوگا۔“
تشریح:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ تو فرمایا مگر اس پر عمل اس لیے نہ کیا کہ گھروں کو آگ لگانے سے عورتیں اور بچے بھی بے گھر ہوجائیں گے جن پر مسجد میں حاضری ضروری نہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ نماز میں جماعت فرض ہے جیسا کہ امام احمد اور بعض محدثین کا خیال ہے۔ اہل ظاہر نے تو اسے نماز کی صحت کے لیے شرط قرار دیا ہے۔ اگر جماعت فرض نہ ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ رائے ظاہر نہ فرماتے۔ اور بعض دیگر اہل علم نے اسے تشدید پر محمول کیا ہے جیسے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جماعت فرض کفایہ ہے جب کہ دیگر ائمہ و محدثین نے جماعت کو سنت مؤکدہ کہا ہے۔ حدیث کے ظاہر الفاظ تو امام احمد کے مسلک کی تائید کرتے ہیں۔ اگر جماعت فرض کفایہ ہوتی تو پھر ہر شخص کی حاضری ضروری نہ تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار غضب کے کیا معنی ؟ البتہ عذر کی بنا پر جماعت سے غیرحاضری جائز ہے، اس لیے جن بزرگوں نے جماعت کو نماز کی صحت کے لیے شرط قرار دیا ہے، ان کی بات بلادلیل ہے۔ واللہ أعلم۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سےمنقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کیا کہ میں ایندھن (اکٹھا کرنے) کا حکم دوں، اسے اکٹھا کیا جائے، پھر حکم دوں کہ نماز کی اذان کہی جائے، پھر ایک آدمی کو حکم دوں،اور وہ لوگوں کی امامت کرائے، پھر میں ان لوگوں کی طرف جاؤں (جو نماز پڑھنے نہیں آئے) اور ان کے گھروں کو ان پر جلا دوں۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر ان میں سے کوئی شخص جان لے کر اسے چربی والی ہڈی یا وہ بہترین کھر ملیں گے تو وہ ضرور عشاء کی نماز میں حاضر ہوگا۔“
حدیث حاشیہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ تو فرمایا مگر اس پر عمل اس لیے نہ کیا کہ گھروں کو آگ لگانے سے عورتیں اور بچے بھی بے گھر ہوجائیں گے جن پر مسجد میں حاضری ضروری نہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ نماز میں جماعت فرض ہے جیسا کہ امام احمد اور بعض محدثین کا خیال ہے۔ اہل ظاہر نے تو اسے نماز کی صحت کے لیے شرط قرار دیا ہے۔ اگر جماعت فرض نہ ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ رائے ظاہر نہ فرماتے۔ اور بعض دیگر اہل علم نے اسے تشدید پر محمول کیا ہے جیسے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جماعت فرض کفایہ ہے جب کہ دیگر ائمہ و محدثین نے جماعت کو سنت مؤکدہ کہا ہے۔ حدیث کے ظاہر الفاظ تو امام احمد کے مسلک کی تائید کرتے ہیں۔ اگر جماعت فرض کفایہ ہوتی تو پھر ہر شخص کی حاضری ضروری نہ تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار غضب کے کیا معنی ؟ البتہ عذر کی بنا پر جماعت سے غیرحاضری جائز ہے، اس لیے جن بزرگوں نے جماعت کو نماز کی صحت کے لیے شرط قرار دیا ہے، ان کی بات بلادلیل ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں، تو وہ جمع کی جائے، پھر میں حکم دوں کہ نماز کے لیے اذان کہی جائے، پھر ایک شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کی امامت کرے، پھر میں لوگوں کے پاس جاؤں اور ان کے سمیت ان کے گھروں میں آگ لگا دوں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر ان میں سے کوئی یہ جانتا کہ اسے (مسجد میں) ایک موٹی ہڈی یا دو اچھے کھر ملیں گے تو وہ عشاء کی نماز میں ضرور حاضر ہوتا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Abdullah (RA) said: "Whoever would like to meet Allah tomorrow as a Muslim, let him regularly attend these five (daily) prayers whenever the call for them is given (that in the mosques), for Allah prescribed for His Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) the ways of guidance, and they (the prayers) are part of those ways of guidance. I do not think that there is anyone among you who does not have a place where he prays in his house. But if you were to pray in your houses and forsake the Masjids, you would be forsaking the Sunnah of your Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم), and if you were to forsake the Sunnah of your Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) you would go astray. There is no Muslim slave who performs Wudu and does it well, then walks to the prayer, but Allah will record one Hasanah (good deed) for each step he takes, or raise' him one level by it or erase one sin from him. I remember how we used to take short steps, and I remember (a time) when no one stayed behind from the prayer except a hypocrite whose hypocrisy was well known. And I have seen a man coming Supported by two others until he would be made to stand in the row".