باب: نمازوں کی اس جگہ پابندی کرنا جہاں ان کی اذان کہی جائے
)
Sunan-nasai:
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
(Chapter: Regularly attending the prayers when the call is given)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
850.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک نابینا آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: مجھے کوئی ہاتھ پکڑ کر چلانے والا نہیں جو مجھے مسجد میں نماز کے لیے لائے اور اس نے آپ سے گزارش کی کہ اسے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ آپ نے اسے اجازت دے دی۔ جب وہ واپس جانے کے لیے مڑا تو آپ نے فرمایا:”تم اذان سنتے ہو“ اس نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا:”پھر (نماز کےلیے) ضرور آؤ۔“
تشریح:
یہ روایت بھی جماعت کو فرض کہنے والوں کی دلیل ہے ورنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے سہارا نابینے صحابی کو رخصت دے دیتے۔ پہلے آپ نے رخصت دے دی تھی، پھر معلوم ہوا کہ وہ مسجد سے زیادہ دور نہیں رہتا، وہاں نماز کی اذان سنائی دیتی ہے، اتنے قریب سے وہ اکیلا بھی آسکتا ہے۔ ویسے بھی جماعت کے وقت اتنے فاصلے سے آنے والے بہت ہوتے ہیں، کوئی نہ کوئی پکڑ کر لے آئے گا۔ ایسے لگتا ہے کہ پہلے آپ نے سمجھا ہوگا کہ یہ آدمی دور رہتا ہے، ساتھی کوئی نہیں، اکیلا نہیں آسکے گا۔ یہ کوئی اجتہاد کی تبدیلی نہیں، نہ اس کے لیے کسی نئی وحی کا اترنا ضروری ہے بلکہ یہ فتویٰ سائل کے حالات پر موقوف ہے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ حاضر ی کا حکم استحباب کے لیے ہے، وجوب کے لیے نہیں، لیکن مندرجہ بالا توجیہ کی صورت میں یہ بات کوئی قوی نہیں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک نابینا آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا: مجھے کوئی ہاتھ پکڑ کر چلانے والا نہیں جو مجھے مسجد میں نماز کے لیے لائے اور اس نے آپ سے گزارش کی کہ اسے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ آپ نے اسے اجازت دے دی۔ جب وہ واپس جانے کے لیے مڑا تو آپ نے فرمایا:”تم اذان سنتے ہو“ اس نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا:”پھر (نماز کےلیے) ضرور آؤ۔“
حدیث حاشیہ:
یہ روایت بھی جماعت کو فرض کہنے والوں کی دلیل ہے ورنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے سہارا نابینے صحابی کو رخصت دے دیتے۔ پہلے آپ نے رخصت دے دی تھی، پھر معلوم ہوا کہ وہ مسجد سے زیادہ دور نہیں رہتا، وہاں نماز کی اذان سنائی دیتی ہے، اتنے قریب سے وہ اکیلا بھی آسکتا ہے۔ ویسے بھی جماعت کے وقت اتنے فاصلے سے آنے والے بہت ہوتے ہیں، کوئی نہ کوئی پکڑ کر لے آئے گا۔ ایسے لگتا ہے کہ پہلے آپ نے سمجھا ہوگا کہ یہ آدمی دور رہتا ہے، ساتھی کوئی نہیں، اکیلا نہیں آسکے گا۔ یہ کوئی اجتہاد کی تبدیلی نہیں، نہ اس کے لیے کسی نئی وحی کا اترنا ضروری ہے بلکہ یہ فتویٰ سائل کے حالات پر موقوف ہے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ حاضر ی کا حکم استحباب کے لیے ہے، وجوب کے لیے نہیں، لیکن مندرجہ بالا توجیہ کی صورت میں یہ بات کوئی قوی نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک نابینا شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۱؎، اور اس نے عرض کیا: میرا کوئی راہبر (گائیڈ) نہیں ہے جو مجھے مسجد تک لائے، اس نے آپ سے درخواست کی کہ آپ اسے اس کے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دیں، آپ ﷺ نے اسے اجازت دے دی، پھر جب وہ پیٹھ پھیر کر جانے لگا، تو آپ ﷺ نے اسے بلایا، اور اس سے پوچھا: ”کیا تم اذان سنتے ہو؟“ اس نے جواب دیا: جی ہاں، (سنتا ہوں) تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو (مؤذن کی پکار پر) لبیک کہو۔“۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ تھے۔ ۲؎ : یعنی مسجد میں آ کر جماعت ہی سے نماز پڑھو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn Umm Maktum (RA) that he said: "O Messenger of Allah (ﷺ), there are many (dangerous) pests and wild animals in Al-Madinah". He said: "Can you hear (the words) 'Come prayer, come to prosperity'"? He said "Yes." He said: "Then be quick to respond", and he did not grant him a dispensation.