Sunan-nasai:
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
(Chapter: Rushing to pray)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
861.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم نماز کے لیے آؤ تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ بلکہ سکون اور وقار کے ساتھ چلتے ہوئے آؤ۔ جو نماز جماعت کے ساتھ مل جائے پڑھ لو اور جو رہ جائے بعد میں پوری کرلو۔“
تشریح:
(1) نماز کی طرف دوڑ کر آنا سنجیدگی کے خلاف ہے، بے ادبی ہے، مسجد کی حرمت کے خلاف ہے۔ رب العالمین کے حضور حاضری معمولی بات نہیں۔ اس میں کامل سکون اور وقار چاہیے۔ عام معاملات میں بھی جلدبازی نامناسب ہے۔ اس کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے کیونکہ اس میں عام طور پر جانی اور مالی نقصان ہوجاتا ہے۔ عزت کا نقصان تو ہے ہی۔ (2) جو نماز امام کےساتھ مل جائے، وہ اتبدائے نماز ہے یا امام والی؟ اس میں اختلاف ہے، یعنی مقتدی کی وہ کون سی رکعتیں شمار ہوں گی؟ پہلی شمار ہوں گی تو وہ بقیہ رکعتیں آخری رکعتوں کی طرح پڑھے گا اور اگر امام کی ترتیب کے حساب سے شمار ہوں گی تو بقیہ رکعتیں وہ ابتدائی رکعتوں کی طرح پڑھے گا۔ شوافع پہلی اور احناف دوسری بات کے قائل ہیں۔ دونوں طرف دلائل ہیں۔ اس حدیث کے آخری لفظ [فَاقْضُوا] امام شافعی رحمہ اللہ کے مؤید ہیں اور یہی راجح ہے۔ واللہ أعلم۔ نیز اکثر روایات میں [فأتِمُّوا] کے الفاظ وارد ہیں جس کے صاف معنیٰ یہ ہیں کہ مقتدی جہاں سے آغاز کرے گا، وہی اس کی ابتدائے نماز ہوگی۔ جو رہ چکی ہوگی، بعد میں اس کی تکمیل کرے گا، لہٰذا بعض احادیث میں منقول الفاظ [فَاقْضُوا] کے معنیٰ بھی یہی ہوں گے، یعنی جو نماز رہ چکی ہو، اسے بعد میں ادا کرلیا جائے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبٰی ، شرح سنن النسائي:۱۰؍۳۵۵)
الحکم التفصیلی:
قلت : و هو ثقة من شيوخ البخاري في " صحيحه " ، و من فوقه من رجاله أيضا غير
أبي السري و قد أورده الدولابي في " الكنى " ( 1 / 186 ) و سماه سليمان بن
كندير ، رأى ابن عمر .
قلت : و سليمان بن كندير ثقة من رجال " التهذيب " لكن كنوه بأبي صدقة و لم
يتعرضوا لهذه الكنية ( أبي السري ) بذكر . و الحديث قال في " المجمع " ( 2 / 31
) : " رواه الطبراني في " الأوسط " من رواية أبي السري عن سعد و لم أجد من ذكره
و بقية رجاله موثقون " .
قلت : لكن الحديث صحيح على كل حال ، فقد أخرجه الطبراني أيضا من حديث أنس نحوه
من طريقين عنه و من حديث أبي قتادة مرفوعا بالشطر الثاني منه . و هو في
" الصحيحين " و غيرهما بتمامه . بلفظ : " و ما فاتكم فأتموه " فهو يبين أن قوله
" و اقض " معناه ، فأتم . و هو الصواب في تفسيره . و يؤيده قوله تعالى :
*( فإذا قضيت الصلاة ... )* و نحوه . فتنبه
للحديث روايات كثيرة عن عدد من الصحابة ، انظر مختصر مسلم ( 244 ) ، صحيح الجامع ( 272 ) و ما بعده ، المشكاة ( 2953 ) //
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم نماز کے لیے آؤ تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ بلکہ سکون اور وقار کے ساتھ چلتے ہوئے آؤ۔ جو نماز جماعت کے ساتھ مل جائے پڑھ لو اور جو رہ جائے بعد میں پوری کرلو۔“
حدیث حاشیہ:
(1) نماز کی طرف دوڑ کر آنا سنجیدگی کے خلاف ہے، بے ادبی ہے، مسجد کی حرمت کے خلاف ہے۔ رب العالمین کے حضور حاضری معمولی بات نہیں۔ اس میں کامل سکون اور وقار چاہیے۔ عام معاملات میں بھی جلدبازی نامناسب ہے۔ اس کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے کیونکہ اس میں عام طور پر جانی اور مالی نقصان ہوجاتا ہے۔ عزت کا نقصان تو ہے ہی۔ (2) جو نماز امام کےساتھ مل جائے، وہ اتبدائے نماز ہے یا امام والی؟ اس میں اختلاف ہے، یعنی مقتدی کی وہ کون سی رکعتیں شمار ہوں گی؟ پہلی شمار ہوں گی تو وہ بقیہ رکعتیں آخری رکعتوں کی طرح پڑھے گا اور اگر امام کی ترتیب کے حساب سے شمار ہوں گی تو بقیہ رکعتیں وہ ابتدائی رکعتوں کی طرح پڑھے گا۔ شوافع پہلی اور احناف دوسری بات کے قائل ہیں۔ دونوں طرف دلائل ہیں۔ اس حدیث کے آخری لفظ [فَاقْضُوا] امام شافعی رحمہ اللہ کے مؤید ہیں اور یہی راجح ہے۔ واللہ أعلم۔ نیز اکثر روایات میں [فأتِمُّوا] کے الفاظ وارد ہیں جس کے صاف معنیٰ یہ ہیں کہ مقتدی جہاں سے آغاز کرے گا، وہی اس کی ابتدائے نماز ہوگی۔ جو رہ چکی ہوگی، بعد میں اس کی تکمیل کرے گا، لہٰذا بعض احادیث میں منقول الفاظ [فَاقْضُوا] کے معنیٰ بھی یہی ہوں گے، یعنی جو نماز رہ چکی ہو، اسے بعد میں ادا کرلیا جائے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبٰی ، شرح سنن النسائي:۱۰؍۳۵۵)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم نماز کے لیے آؤ تو دوڑتے ہوئے نہ آؤ، بلکہ چلتے ہوئے آؤ ، اور تم پر (وقار) سکینت طاری ہو، نماز جتنی پاؤ اسے پڑھ لو، اور جو چھوٹ جائے اسے پوری کر لو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Rafi said: "After the Messenger of Allah (ﷺ) had prayed Asr, he would go to Banu 'Abdul-Ashhal to speak to them, until the time for Maghrib came" .Abu Rafi (RA) said: "While the Prophet Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم)was hastening to pray Maghrib, we passed by and he said: 'Fie on you, fie on you'! That upset me so I slowed down because I thought hat he meant me. He said: 'What is the matter with you? Keep up'! I said: 'Is there something wrong'? He said: 'Why are you asking that? I said: 'Because you said: "Fie on you" to me'. He said: 'No, that was so-and-so whom I had sent to collect Zakat from the tribe of so-and-so, and he stole a Namirah and now he is clothed with something similar made of Fire"'.