قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن النسائي: كِتَابُ الْإِمَامَةِ (بَابُ الْإِسْرَاعِ إِلَى الصَّلَاةِ مِنْ غَيْرِ سَعْيٍ)

حکم : حسن الإسناد

ترجمة الباب:

862 .   أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ مَنْبُوذٍ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ ذَهَبَ إِلَى بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ فَيَتَحَدَّثُ عِنْدَهُمْ حَتَّى يَنْحَدِرَ لِلْمَغْرِبِ قَالَ أَبُو رَافِعٍ فَبَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْرِعُ إِلَى الْمَغْرِبِ مَرَرْنَا بِالْبَقِيعِ فَقَالَ أُفٍّ لَكَ أُفٍّ لَكَ قَالَ فَكَبُرَ ذَلِكَ فِي ذَرْعِي فَاسْتَأْخَرْتُ وَظَنَنْتُ أَنَّهُ يُرِيدُنِي فَقَالَ مَا لَكَ امْشِ فَقُلْتُ أَحْدَثْتَ حَدَثًا قَالَ مَا ذَاكَ قُلْتُ أَفَّفْتَ بِي قَالَ لَا وَلَكِنْ هَذَا فُلَانٌ بَعَثْتُهُ سَاعِيًا عَلَى بَنِي فُلَانٍ فَغَلَّ نَمِرَةً فَدُرِّعَ الْآنَ مِثْلُهَا مِنْ نَارٍ

سنن نسائی:

کتاب: امامت کے متعلق احکام و مسائل 

  (

باب: دوڑے بغیر تیزی کے ساتھ نماز کے لیے آنا

)
 

مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)

862.   حضرت ابورافع ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب عصر کی نماز پڑھ لیتے تو بنوعبدالاشہل کے ہاں تشریف لے جاتے اور ان کے ہاں باتیں کرتے حتیٰ کہ مغرب کے وقت واپس تشریف لاتے۔ ابورافع نے کہا: ایک دفعہ نبی ﷺ مغرب کے وقت جلدی اور تیزی سے آرہے تھے کہ ہم بقیع سے گزرے تو آپ نے فرمایا: ”افسوس تجھ پر! افسوس تجھ پر!۔“ مجھے یہ الفاظ دل میں بہت تکلیف دہ محسوس ہوئے۔ میں پیچھے ہٹ گیا۔ میں نے سمجھا کہ آپ مجھ سے مخاطب ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پیچھے کیوں رہ گئے ہو؟ چلتے آؤ۔“ میں نے کہا: مجھ سے کوئی قصور ہوگیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”کیا مطلب؟“ میں نے کہا: آپ نے مجھ پر اظہار افسوس کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ (میری) اس بات کا سبب یہ ہے کہ میں نے ایک آدمی کو فلاں قبیلے کی زکاۃ لینے کے لیے بھیجا تھا۔ اس نے ایک چادر چھپالی۔ اب اسے اس جیسی آگ کی چادر پہنائی گئی ہے۔“