Sunan-nasai:
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
(Chapter: Hastening to pray without rushing unduly)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
862.
حضرت ابورافع ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب عصر کی نماز پڑھ لیتے تو بنوعبدالاشہل کے ہاں تشریف لے جاتے اور ان کے ہاں باتیں کرتے حتیٰ کہ مغرب کے وقت واپس تشریف لاتے۔ ابورافع نے کہا: ایک دفعہ نبی ﷺ مغرب کے وقت جلدی اور تیزی سے آرہے تھے کہ ہم بقیع سے گزرے تو آپ نے فرمایا: ”افسوس تجھ پر! افسوس تجھ پر!۔“ مجھے یہ الفاظ دل میں بہت تکلیف دہ محسوس ہوئے۔ میں پیچھے ہٹ گیا۔ میں نے سمجھا کہ آپ مجھ سے مخاطب ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پیچھے کیوں رہ گئے ہو؟ چلتے آؤ۔“ میں نے کہا: مجھ سے کوئی قصور ہوگیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”کیا مطلب؟“ میں نے کہا: آپ نے مجھ پر اظہار افسوس کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ (میری) اس بات کا سبب یہ ہے کہ میں نے ایک آدمی کو فلاں قبیلے کی زکاۃ لینے کے لیے بھیجا تھا۔ اس نے ایک چادر چھپالی۔ اب اسے اس جیسی آگ کی چادر پہنائی گئی ہے۔“
تشریح:
(1) اگر وقت تنگ ہو یا جماعت کھڑی ہوچکی ہو تو نما زکے لیے ایسی تیزی سے چلا جاسکتا ہے جس سے مسجدونماز کی توہین ہو نہ انسانی وقار ہی کے خلاف ہو۔ (2) فوت شدہ کو تصور میں حاضر کرکے اظہار افسوس و ملامت کے لیے اس سے خطاب کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح سلام و دعا میں اس سے خطاب کیا جاسکتا ہے، جیسے السلام علیکم یا اھل القبور وغیرہ، دعا ہے، بشرطیکہ میت کو حقیقتاً حاضر ناظر نہ سمجھے۔
حضرت ابورافع ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب عصر کی نماز پڑھ لیتے تو بنوعبدالاشہل کے ہاں تشریف لے جاتے اور ان کے ہاں باتیں کرتے حتیٰ کہ مغرب کے وقت واپس تشریف لاتے۔ ابورافع نے کہا: ایک دفعہ نبی ﷺ مغرب کے وقت جلدی اور تیزی سے آرہے تھے کہ ہم بقیع سے گزرے تو آپ نے فرمایا: ”افسوس تجھ پر! افسوس تجھ پر!۔“ مجھے یہ الفاظ دل میں بہت تکلیف دہ محسوس ہوئے۔ میں پیچھے ہٹ گیا۔ میں نے سمجھا کہ آپ مجھ سے مخاطب ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پیچھے کیوں رہ گئے ہو؟ چلتے آؤ۔“ میں نے کہا: مجھ سے کوئی قصور ہوگیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”کیا مطلب؟“ میں نے کہا: آپ نے مجھ پر اظہار افسوس کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ (میری) اس بات کا سبب یہ ہے کہ میں نے ایک آدمی کو فلاں قبیلے کی زکاۃ لینے کے لیے بھیجا تھا۔ اس نے ایک چادر چھپالی۔ اب اسے اس جیسی آگ کی چادر پہنائی گئی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اگر وقت تنگ ہو یا جماعت کھڑی ہوچکی ہو تو نما زکے لیے ایسی تیزی سے چلا جاسکتا ہے جس سے مسجدونماز کی توہین ہو نہ انسانی وقار ہی کے خلاف ہو۔ (2) فوت شدہ کو تصور میں حاضر کرکے اظہار افسوس و ملامت کے لیے اس سے خطاب کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح سلام و دعا میں اس سے خطاب کیا جاسکتا ہے، جیسے السلام علیکم یا اھل القبور وغیرہ، دعا ہے، بشرطیکہ میت کو حقیقتاً حاضر ناظر نہ سمجھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابورافع ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ عصر کی نماز پڑھ چکتے تو بنی عبدالاشہل کے لوگوں میں جاتے اور ان سے گفتگو کرتے یہاں تک کہ مغرب کی نماز کے لیے اترتے، نبی اکرم ﷺ مغرب کی نماز کے لیے تیزی سے جا رہے تھے کہ ہم بقیع سے گزرے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”افسوس ہے تم پر، افسوس ہے تم پر“ آپ ﷺ کی یہ بات مجھے گراں لگی، اور یہ سمجھ کر کہ آپ مجھ سے مخاطب ہیں، میں پیچھے ہٹ گیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہیں کیا ہوا؟ چلو“، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا کوئی بات ہو گئی ہے؟ آپ ﷺ نے پوچھا: ”وہ کیا؟“ ، تو میں نے عرض کیا: آپ نے مجھ پر اف کہا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں! (تم پر نہیں) البتہ اس شخص پر (اظہار اف) کیا ہے جسے میں نے فلاں قبیلے میں صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا، تو اس نے ایک دھاری دار چادر چرا لی ہے؛ چنانچہ اب اسے ویسی ہی آگ کی چادر پہنا دی گئی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
w
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Rafi said: "After the Messenger of Allah (ﷺ) had prayed Asr, he would go to Banu 'Abdul-Ashhal to speak to them, until the time for Maghrib came" .Abu Rafi (RA) said: "While the Prophet Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم)was hastening to pray Maghrib, we passed by and he said: 'Fie on you, fie on you'! That upset me so I slowed down because I thought hat he meant me. He said: 'What is the matter with you? Keep up'! I said: 'Is there something wrong'? He said: 'Why are you asking that? I said: 'Because you said: "Fie on you" to me'. He said: 'No, that was so-and-so whom I had sent to collect Zakat from the tribe of so-and-so, and he stole a Namirah and now he is clothed with something similar made of Fire"'.