باب: عصر سے پہلے (نفل) نماز اور اس مسئلے کے متعلق ابو اسحاق سے ناقلین کے اختلاف کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Leading the Prayer (Al-Imamah)
(Chapter: Prayer before Asr and different narrations from Abu Ishaq concerning that)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
875.
عاصم بن ضمرہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت علی بن ابوطالب سے دن میں فرض نماز سے قبل رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: تم میں سے کون اس کی طاقت رکھتا ہے؟ پھر ہمیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ دو رکعت پڑھتے تھے جب سورج کچھ اونچا آجاتا تھا۔ اور نصف النہار سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے۔ سلام آخر میں پھیرتے۔ (دورکعت کے بعد سلام نہ پھیرتے۔)
تشریح:
(1) سورج کچھ اونچا آنے سے مراد ممکن ہے صلاۃ اشراق ہو اور ممکن ہے صلاۃ ضحیٰ اور صلاۃ الاوابین ہو۔ اس روایت میں صراحت ہے کہ چار رکعت کے آخر میں سلام کہتے تھے، نہ کہ دو رکعت کے بعد۔ اور یہ بھی جائز ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) صلاۃ اشراق، صلاۃ ضحیٰ اور صلاۃ الاوابین (چاشت کی نماز) میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو وہ کیا ہے؟ اصل میں ان میں کوئی فرق نہیں۔ یہ ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔ جب یہ نفلی نماز کراہت کا وقت نکلتے ہی، جب کہ سورج نیزہ یا دو نیزوں کے برابر اونچا نکل آئے، پڑھی جائے تو اسے صلاۃ اشراق کہہ لیا جاتا ہے اور کچھ عرصہ ٹھہرنے کے بعد جو نوافل پڑھے جائیں انھیں حدیث میں صلاۃ الضحیٰ اور صلاۃ الاوابین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (مرعاة المفاتیح:۳؍۲۴۰، طبع قدیم، والمقول المقبول، ص:۲۸۸، وسلسلة الأحادیث الصحیحة للألباني، رقم:۱۹۹۴) تاہم مغرب کے بعد چھ نوافل کو جو صلاۃ الاوابین قرار دیا جاتا ہے، وہ صحیح نہیں، اس لیے کہ وہ حدیث ضعیف ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) مذکورہ دونوں روایات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نصف النہار سے قبل صلاۃ اشراق اور ضحیٰ وغیرہ کے علاوہ مزید چار رکعت پڑھا کرتے تھے۔
عاصم بن ضمرہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت علی بن ابوطالب سے دن میں فرض نماز سے قبل رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: تم میں سے کون اس کی طاقت رکھتا ہے؟ پھر ہمیں بتایا کہ رسول اللہ ﷺ دو رکعت پڑھتے تھے جب سورج کچھ اونچا آجاتا تھا۔ اور نصف النہار سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے۔ سلام آخر میں پھیرتے۔ (دورکعت کے بعد سلام نہ پھیرتے۔)
حدیث حاشیہ:
(1) سورج کچھ اونچا آنے سے مراد ممکن ہے صلاۃ اشراق ہو اور ممکن ہے صلاۃ ضحیٰ اور صلاۃ الاوابین ہو۔ اس روایت میں صراحت ہے کہ چار رکعت کے آخر میں سلام کہتے تھے، نہ کہ دو رکعت کے بعد۔ اور یہ بھی جائز ہے۔ واللہ أعلم۔ (2) صلاۃ اشراق، صلاۃ ضحیٰ اور صلاۃ الاوابین (چاشت کی نماز) میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو وہ کیا ہے؟ اصل میں ان میں کوئی فرق نہیں۔ یہ ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔ جب یہ نفلی نماز کراہت کا وقت نکلتے ہی، جب کہ سورج نیزہ یا دو نیزوں کے برابر اونچا نکل آئے، پڑھی جائے تو اسے صلاۃ اشراق کہہ لیا جاتا ہے اور کچھ عرصہ ٹھہرنے کے بعد جو نوافل پڑھے جائیں انھیں حدیث میں صلاۃ الضحیٰ اور صلاۃ الاوابین سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (مرعاة المفاتیح:۳؍۲۴۰، طبع قدیم، والمقول المقبول، ص:۲۸۸، وسلسلة الأحادیث الصحیحة للألباني، رقم:۱۹۹۴) تاہم مغرب کے بعد چھ نوافل کو جو صلاۃ الاوابین قرار دیا جاتا ہے، وہ صحیح نہیں، اس لیے کہ وہ حدیث ضعیف ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) مذکورہ دونوں روایات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نصف النہار سے قبل صلاۃ اشراق اور ضحیٰ وغیرہ کے علاوہ مزید چار رکعت پڑھا کرتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں کہ میں نے علی بن ابی طالب ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی اس نماز کے بارے میں پوچھا جسے آپ دن میں فرض سے پہلے پڑھتے تھے، تو انہوں نے کہا: کون اس کی طاقت رکھتا ہے؟ پھر انہوں نے ہمیں بتایا، اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ جس وقت سورج ڈھل جاتا دو رکعت پڑھتے، اور نصف النہار ہونے سے پہلے چار رکعت پڑھتے، اور اس کے آخر میں سلام پھیرتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Ishaq, that Asim bin Damrah said: "I asked 'Ali (RA) bin Abi Talib about the prayer of the Messenger of Allah (ﷺ) during the day before the prescribed prayers. He said: 'Who is able to do that?' Then he told us:'The Messenger of Allah (ﷺ) used to pray two Rak'ahs when the sun had passed its zenith, and four Rak'ahs before the middle of the day, with the Taslim at the end"'.