تشریح:
(1) اس حدیث کو حدیث مسی، الصلاۃ کہتے ہیں، یعنی وہ حدیث جس میں غلط نماز پڑھنے والے کا ذکر ہے۔
(2) علماء کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرائض بتلائے ہیں۔ ان کے بغیر نماز گویا ہے ہی نہیں۔
(3) اس حدیث کی رو سے تکبیر تحریمہ ، قراءت، رکوع اور اس میں اطمینان، سر اٹھانا اور سیدھا کھڑا ہونا ، سجدہ اور اس میں اطمینان، سر اٹھانا اور اطمینان سے بیٹھنا فرائض میں شامل ہیں مگر احناف حضرات اطمینان کو تو نماز میں کسی بھی جگہ ضروری نہیں سمجھتے کیونکہ لغت کے لحاظ سے رکوع اور سجدے کے معنی میں اطمینان داخل نہیں مگر سوچنا چاہیے کہ کیا حدیث کی حیثیت لغت سے بھی کم ہے کہ اگر لغت میں لکھا ہو پھر تو فرض اور صحیح حدیث میں آجائے تو مستحب؟ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح لفظ ہیں: [فإنك لم تُصلِّ] ”تحقیق تو نے نماز نہیں پڑھی۔“ اور اس شخص کو تین دفعہ نماز لوٹانے کے لیے کہا گیا۔ چلیں واجب ہی کہہ لیتے۔ افسوس! اسی طرح قومے اور جلسے کو بھی واجب نہیں سمجھتے کہ یہ مقصود نہیں۔ شاید اسی لیے رائے کی مذمت کی گئی ہے۔
(4) ”جس قدر تو قرآن پڑھ سکے، پڑھ۔“ اسی حدیث کے دوسرے طرق میں سورت فاتحہ کی صراحت ہے۔ گویا یہ پڑھنا سورۂ فاتحہ سے زائد ہے یا اس سے مراد سورۂ فاتحہ ہی ہے کیونکہ سورۂ فاتحہ ہر قرآن خواں کو لازماً آتی ہے۔ اسی سے قرآن کی ابتدا ہوتی ہے۔
(5) نماز کے واجبات میں سے اگر کوئی چیز رہ جائے یا مسنون طریقے کے مطابق نہ ہو تو نماز باطل ہوجائے گی اور نماز لوٹانا ضروری ہوگا۔
(6) امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اور اس میں نرمی اور خوش اسلوبی کا معاملہ کرنا چاہیے۔ کسی بھی مسئلے کی وضاحت اور تعلیم میں سختی نہیں کرنی چاہیے۔
(7) جب دو آدمیوں میں جدائی ہو، اگرچہ وہ چند لمحوں کی ہو، دوبارہ ملنے پر سلام کہنا اور اس کا جواب دینا مشروع ہے۔
(8) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تکبیر اور قراءت صرف عربی ہی میں کی جائے جیسا کہ دیگر صحیح روایات میں اللہ اکبر کی صراحت بھی ہے۔ جو لوگ فارسی یا کسی دوسری زبان میں تکبیر کہنے اور قراءت کرنے کی اجازت دیتے ہیں، ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ واللہ أعلم۔