باب: تکبیر تحریمہ اور قراءت فاتحہ کے درمیان پڑھی جانے والی دعا
)
Sunan-nasai:
The Book of the Commencement of the Prayer
(Chapter: The supplication between the takbir and the recitation)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
895.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع فرماتے تو تھوڑی دیر خاموش رہتے۔ میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، اے اللہ کے رسول! آپ تکبیرتحریمہ اور قراءت کے درمیان خاموشی کے دوران میں کیا پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”میں یہ پڑھتا ہوں: [اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي۔۔۔ والبرد] اے اللہ! میرے اور میری غلطیوں کے درمیان اتنا فاصلہ فرما دے جتنا تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان کیا ہے۔ اے اللہ! مجھے میری غلطیوں سے اس طرح پاک اور صاف فرما جیسے سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! مجھے غلطیوں سے برف، پانی اور اولوں سے دھودے۔“
تشریح:
(1) دعائے استفتاح کے سلسلے میں سب سے زیادہ صحیح روایت یہ ہے، لہٰذا اس کا پڑھنا اولیٰ ہے۔ امام مالک دعائے استفتاح کے قائل نہیں مگر اتنی روایات صحیحہ کی موجودگی میں یہ موقف حیران کن ہے۔ (2) پانی، برف اور اولوں سے مراد مختلف قسم کی رحمتیں ہیں۔ باری تعالیٰ کی مختلف صفات ہیں، مثلاً: عفوودرگزر، مغفرت اور رحمت۔ پانی کے ساتھ برف اور اولوں کا ذکر تاکید کے لیے کیا گیا ہے، یعنی اے اللہ! ان گناہوں کی حدت و تمازت کو، جو جہنم کی آگ میں لے جانے کا سبب ہیں، پانی، برف اور اولوں سے ختم کردے۔ (3) ”میرے اور میری غلطیوں کے درمیان مشرق و مغرب جتنی دوری ڈال دے۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مشرق اور مغرب کا آپس میں ملنا محال ہے، اسی طرح مجھ سے گناہوں کو اور گناہوں کو مجھ سے دور رکھ۔ (4) علامہ کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ممکن ہے اس دعائے استفتاح میں تین زمانوں کی طرف اشارہ ہو، یعنی میرے اور میری غلطیوں کے درمیان دوری سے مراد مستقبل کے گناہ یوں، تنقیہ (گناہوں کی صفائی) سے مراد زمانۂ حال کی لغزشیں ہوں اور گناہ دھونے سے مراد زمانہ ماضی میں کیے ہوئے گناہ ہوں۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري: ۲؍۲۹۸، تحت حدیث: ۷۴۴) (5) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ برف اور اولوں سے طہارت حاصل کی جاسکتی ہے۔ (6) اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمیشہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات و واقعات، آپ کی حرکات و سکنات دریافت کرتے رہتے تھے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے سے اپنا مکمل دین محفوظ شکل میں ہم تک پہنچا دیا۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع فرماتے تو تھوڑی دیر خاموش رہتے۔ میں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، اے اللہ کے رسول! آپ تکبیرتحریمہ اور قراءت کے درمیان خاموشی کے دوران میں کیا پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”میں یہ پڑھتا ہوں: [اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي۔۔۔ والبرد] اے اللہ! میرے اور میری غلطیوں کے درمیان اتنا فاصلہ فرما دے جتنا تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان کیا ہے۔ اے اللہ! مجھے میری غلطیوں سے اس طرح پاک اور صاف فرما جیسے سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! مجھے غلطیوں سے برف، پانی اور اولوں سے دھودے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) دعائے استفتاح کے سلسلے میں سب سے زیادہ صحیح روایت یہ ہے، لہٰذا اس کا پڑھنا اولیٰ ہے۔ امام مالک دعائے استفتاح کے قائل نہیں مگر اتنی روایات صحیحہ کی موجودگی میں یہ موقف حیران کن ہے۔ (2) پانی، برف اور اولوں سے مراد مختلف قسم کی رحمتیں ہیں۔ باری تعالیٰ کی مختلف صفات ہیں، مثلاً: عفوودرگزر، مغفرت اور رحمت۔ پانی کے ساتھ برف اور اولوں کا ذکر تاکید کے لیے کیا گیا ہے، یعنی اے اللہ! ان گناہوں کی حدت و تمازت کو، جو جہنم کی آگ میں لے جانے کا سبب ہیں، پانی، برف اور اولوں سے ختم کردے۔ (3) ”میرے اور میری غلطیوں کے درمیان مشرق و مغرب جتنی دوری ڈال دے۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح مشرق اور مغرب کا آپس میں ملنا محال ہے، اسی طرح مجھ سے گناہوں کو اور گناہوں کو مجھ سے دور رکھ۔ (4) علامہ کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ممکن ہے اس دعائے استفتاح میں تین زمانوں کی طرف اشارہ ہو، یعنی میرے اور میری غلطیوں کے درمیان دوری سے مراد مستقبل کے گناہ یوں، تنقیہ (گناہوں کی صفائی) سے مراد زمانۂ حال کی لغزشیں ہوں اور گناہ دھونے سے مراد زمانہ ماضی میں کیے ہوئے گناہ ہوں۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري: ۲؍۲۹۸، تحت حدیث: ۷۴۴) (5) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ برف اور اولوں سے طہارت حاصل کی جاسکتی ہے۔ (6) اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمیشہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات و واقعات، آپ کی حرکات و سکنات دریافت کرتے رہتے تھے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے سے اپنا مکمل دین محفوظ شکل میں ہم تک پہنچا دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے تو تھوڑی دیر چپ رہتے، تو میں نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان اپنی خاموشی میں کیا پڑھتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں کہتا ہوں: «اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنْ الدَّنَسِ اللَّهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ» ”اے اللہ! تو میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری کر دے جتنی تو نے مشرق و مغرب کے درمیان کر رکھی ہے، اے اللہ! تو مجھے میرے گناہوں سے پاک صاف کر دے جس طرح میل کچیل سے سفید کپڑا صاف کیا جاتا ہے، اے اللہ! تو میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو دے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Abu Hurairah (RA) said: "When the Messenger of Allah (ﷺ) started to pray he would pause briefly. I said: 'May my father and mother be ransomed for you, O Messenger of Allah (ﷺ), what do you say when you pause briefly between the takbir and reciation'? He said: 'I say: Allahuma ba'id bayni wa bayna khatayaya kama ba'adta bayna al-mashriqi wal-maghrib; Allahumma naqqini min khatayaya kama yunaqqa ath-thawb al-abyad min ad-danas; Allahumma ighsilni min khatayaya bil ma'I wa ath-thalji wal-barad. (O Allah, put a great distance between me and my sins, as great as the distance You have made between the East and the West; O Allah, cleanse me of my sins as a white garment is cleansed from filth; O Allah, wash away my sins with water and snow and hail)'".