باب: اللہ تعالیٰ کے فرمان: ’’اور البتہ تحقیق ہم نے آپ کو سات(آیتیں) دی ہیں بار بار دہرائی جانے والی اور قرآن عظیم۔‘‘ کی تفسیر
)
Sunan-nasai:
The Book of the Commencement of the Prayer
(Chapter: The Interpretation of the saying of Allah, The Mighty and Sublime: And Indeed, "We have)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
913.
حضرت ابوسعید بن معلی ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ میرے پاس سے گزرے جب کہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے مجھے آواز دی، میں نماز پڑھتا رہا۔ پھر میں (فارغ ہوکر) آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ”تم نے اس وقت جواب کیوں نہیں دیا؟“ میں نے کہا: میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”کیا اللہ تعالیٰ نے (قرآن مجید میں) نہیں فرمایا: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ) ”اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ اور (اس کے) رسول کی بات کا جواب دو جب وہ تمھیں ایسی بات کی طرف بلائے جس میں تمھاری زندگی ہے۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”کیا میں تمھیں مسجد نکلنے سے پہلے پہلے قرآن کی سب سے عظیم سورت نہ سکھلاؤں؟“ آپ مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے کہا: اے اللہ کےر سول! آپ کی وہ بات؟ آپ نے فرمایا: ”سورہ (الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) یہ سات آیتیں ہیں جو باربار پڑھی جاتی ہیں اور یہ عظیم قرآن ہے جو مجھے دیا گیا۔“
تشریح:
(1) یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے کہ آپ نماز میں بھی بلائیں تو جانا فرض ہے اور جواب دینا بھی۔ (2) سبع مثانی کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ اس سے کیا مرادہے؟ ابن مسعود، ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سات طویل سورتیں، یعنی: بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، انعام، اعراف اور یونس ہیں کیونکہ ان سورتوں میں فرائض، حدود، قصص اور احکام بیان کیے گئے ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سورۂ فاتحہ ہے اور یہ سات آیات پر مشتمل ہے۔ یہ تفسیر حضرت علی، حضرت عمر اور ایک روایت کے مطابق حضرت ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے منقول ہے۔ دیکھیے: (تفسیر الطبری:۱۴: ۷۲،۷۳) امام بخاری رحمہ اللہ اس بارے میں حدیث بیان کرتے ہیں، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [أُمُّالقرآنِ وَهيَ السَّبعُ المَثاني وَهيَ القرآنُ العظيمُ]”ام القرآن (سورۂ فاتحہ) ہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے۔“(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:۴۷۰۴) یہ حدیث مبارکہ دلیل ہے کہ سورۂ فاتحہ ہی سبع مثانی، نماز میں دوہرا کر پڑھی جانی والی سات آیات اور قرآن عظیم ہے لیکن یہ اس کے منافی نہیں کہ سات طویل سورتوں کو بھی سبع مثانی قرار دیا جائے۔ کیونکہ ان میں بھی یہ وصف موجود ہے بلکہ یہ اس کے بھی منافی نہیں کہ پورے قرآن کو سبع مثانی قرار دیا جائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اللَّهُ نزلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ﴾(الزمر: ۳۹: ۲۳)”اللہ نے کتابی شکل میں بہترین کلام اتارا ہے جس کی ملتی جلتی آیات و احکام باربار دوہرائے جاتے ہیں۔“ یعنی اس کتاب کی آیات باربار دوہرائی بھی جاتی ہیں اور یہ قرآن عظیم بھی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ سورۂ فاتحہ کو قرآن مجید اس لیے کہا گیا ہے کہ قرآن کریم میں جو توحیدورسالت، آخرت، اوامرونواہی، تبشیروانذار، انعامات، قصص و واقعات اور سابقہ امتوں کا بیان ہے، سورۂ فاتحہ میں یہ سب کچھ اختصارواجمال کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) جب اللہ اور اس کے رسول کا حکم آجائے تو بلاتامل فوراً اسے تسلیم کرلینا چاہیے اور اس کے مقابلے میں اپنی یا کسی امتی کی رائے یا قیاس پیش نہیں کرنا چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وقد أخرجه في "صحيحهما)
إسناده: حدثنا عبيد الله بن معاذ: ثنا خالد: ثنا شعبة عن خبَيْب بن
عبد الرحمن قال: سمعت حفص بن عاصم يحدث عن أبي سعيد بن المُعَلى.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات على شرط الشيخين؛ وقد أخرجه
البخاري كما يأتي.
والحديث أخرجه النسائي (1/145) من طريق أخرى عن خالد- وهو ابن
________________________________________
مَهْران الحَذأء- عن شعبة-.- به
وأخرجه الطيالسي (1266) : حدثنا شعبة.-. به.
البخاري (8/119 و 9/49) ، والطحاوي (2/77) ، وأحمد (4/211) من
طرق أخرى عن شعبة... به.
حضرت ابوسعید بن معلی ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ میرے پاس سے گزرے جب کہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے مجھے آواز دی، میں نماز پڑھتا رہا۔ پھر میں (فارغ ہوکر) آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ”تم نے اس وقت جواب کیوں نہیں دیا؟“ میں نے کہا: میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”کیا اللہ تعالیٰ نے (قرآن مجید میں) نہیں فرمایا: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ) ”اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ اور (اس کے) رسول کی بات کا جواب دو جب وہ تمھیں ایسی بات کی طرف بلائے جس میں تمھاری زندگی ہے۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”کیا میں تمھیں مسجد نکلنے سے پہلے پہلے قرآن کی سب سے عظیم سورت نہ سکھلاؤں؟“ آپ مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے کہا: اے اللہ کےر سول! آپ کی وہ بات؟ آپ نے فرمایا: ”سورہ (الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) یہ سات آیتیں ہیں جو باربار پڑھی جاتی ہیں اور یہ عظیم قرآن ہے جو مجھے دیا گیا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے کہ آپ نماز میں بھی بلائیں تو جانا فرض ہے اور جواب دینا بھی۔ (2) سبع مثانی کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ اس سے کیا مرادہے؟ ابن مسعود، ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سات طویل سورتیں، یعنی: بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، انعام، اعراف اور یونس ہیں کیونکہ ان سورتوں میں فرائض، حدود، قصص اور احکام بیان کیے گئے ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سورۂ فاتحہ ہے اور یہ سات آیات پر مشتمل ہے۔ یہ تفسیر حضرت علی، حضرت عمر اور ایک روایت کے مطابق حضرت ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے منقول ہے۔ دیکھیے: (تفسیر الطبری:۱۴: ۷۲،۷۳) امام بخاری رحمہ اللہ اس بارے میں حدیث بیان کرتے ہیں، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [أُمُّالقرآنِ وَهيَ السَّبعُ المَثاني وَهيَ القرآنُ العظيمُ]”ام القرآن (سورۂ فاتحہ) ہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے۔“(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:۴۷۰۴) یہ حدیث مبارکہ دلیل ہے کہ سورۂ فاتحہ ہی سبع مثانی، نماز میں دوہرا کر پڑھی جانی والی سات آیات اور قرآن عظیم ہے لیکن یہ اس کے منافی نہیں کہ سات طویل سورتوں کو بھی سبع مثانی قرار دیا جائے۔ کیونکہ ان میں بھی یہ وصف موجود ہے بلکہ یہ اس کے بھی منافی نہیں کہ پورے قرآن کو سبع مثانی قرار دیا جائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اللَّهُ نزلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ﴾(الزمر: ۳۹: ۲۳)”اللہ نے کتابی شکل میں بہترین کلام اتارا ہے جس کی ملتی جلتی آیات و احکام باربار دوہرائے جاتے ہیں۔“ یعنی اس کتاب کی آیات باربار دوہرائی بھی جاتی ہیں اور یہ قرآن عظیم بھی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ سورۂ فاتحہ کو قرآن مجید اس لیے کہا گیا ہے کہ قرآن کریم میں جو توحیدورسالت، آخرت، اوامرونواہی، تبشیروانذار، انعامات، قصص و واقعات اور سابقہ امتوں کا بیان ہے، سورۂ فاتحہ میں یہ سب کچھ اختصارواجمال کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) جب اللہ اور اس کے رسول کا حکم آجائے تو بلاتامل فوراً اسے تسلیم کرلینا چاہیے اور اس کے مقابلے میں اپنی یا کسی امتی کی رائے یا قیاس پیش نہیں کرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوسعید بن معلی ؓ کہتے ہیں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ نبی اکرم ﷺ ان کے پاس سے گزرے، اور انہیں بلایا، تو میں نے نماز پڑھی، پھر آپ کے پاس آیا، تو آپ ﷺ نے پوچھا: ”ابوسعید تمہیں مجھے جواب دینے سے کس چیز نے روکا؟“ کہا: میں نماز پڑھ رہا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ہے!: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ» ”اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں ایسی چیز کی طرف بلائیں جو تمہارے لیے حیات بخش ہو“ (الحجر: ۸۷) کیا تم کو مسجد سے نکلنے سے پہلے میں ایک عظیم ترین سورت نہ سکھاؤں؟“ آپ مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے جو کہا تھا بتا دیجئیے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ سورت «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» ہے، اور یہی «السَّبْعُ الْمَثَانِي» ۱؎ ہے جو مجھے دی گئی ہے، یہی قرآن عظیم ہے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : سورۃ فاتحہ کا نام «السَّبعُ المَثاني» ہے، «سبع» اس لیے ہے کہ یہ سات آیتوں پر مشتمل ہے، اور «مثانی» اس لیے کہ یہ نماز کی ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہے، اس کی اسی اہمیت و خصوصیت کے اعتبار سے اسے قرآن عظیم کہا کیا ہے، گرچہ قرآن کی ہر سورت قرآن عظیم ہے جس طرح کعبہ کو بیت اللہ کہا جاتا ہے گرچہ اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں، لیکن اس کی عظمت و خصوصیت کے اظہار کے لیے صرف کعبہ ہی کو بیت اللہ کہتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Abbas (RA) said: "When Jibril was with the Messenger of Allah (ﷺ), he heard a sound from above like a door opening. Jibril ؑ looked up toward the sky and said: 'This is a gate in Heaven that has been opened, but it was never opened before". He said: "An Angel came down from it and came to the Prophet Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم)and said: 'Receive the glad tidings of two lights that have been given to you and were never given to any Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) before you: The Opening of the Book (Al-Fatihah) and the last verses of Surat Al-Baqarah. You will never recite a single letter of them but you will be granted it'".