باب: جس نماز میں امام بلند آواز سے پڑھے، اس میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھی جائے
)
Sunan-nasai:
The Book of the Commencement of the Prayer
(Chapter: Reciting Umm Al-Quran (Al Fatihah) behind the imam in rak'ahs where the imam recites out)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
920.
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک ایسی نماز پڑھائی جس میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”جب میں بلند آواز سے قراءت کروں تو تم میں سے کوئی آدمی سورۂ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھے۔“
تشریح:
(1) بعض روایات میں ذکر ہے کہ وہ صبح کی نماز تھی۔ آپ پر قراءت ثقیل ہوگئی تو ٓپ نے نماز کے بعد فرمایا: ”شاید تم امام کے پیچھے پڑھتے ہو۔ امام کے پیچھے سوائے فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔“ امام کے پیچھے جہری نماز میں سورۂ فاتحہ ضرور پڑھی جائے ، البتہ اس سے زائد پڑھنا منع ہے۔ اور سری نماز میں سورۂ فاتحہ کے علاوہ بھی پڑھا جاسکتا ہے اگرچہ ضروری نہیں۔ (2) امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں جامع بات یہ ہے کہ پڑھنے کا حکم آیا ہے، منع ثابت نہیں۔ اگر کہیں نہی ہے تو وہ مطلق قراءت، یعنی فاتحہ سے زائد قراءت سے ہے، نہ کہ فاتحہ سے۔ اور اگر کسی میں ہر قراءت سے روکا گیا ہے تو وہ سنداً صحیح نہیں۔ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سورۂ فاتحہ پڑھنے کا حکم مروی ہے۔ صحیح سند کے ساتھ فاتحہ سے ممانعت کسی صحابی سے منقول نہیں بلکہ چھوڑنے کی رخصت بھی نہیں آتی، سوائے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے۔ ان کا قول ہے کہ جو آدمی فاتحہ نہ پڑھے، اس کی نماز نہیں ہوتی مگر یہ کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔ (لیکن یہ قول صحیح احادیث کے خلاف ہے)۔ احناف کے علاوہ باقی مسالک امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کے قائل ہیں۔ احناف میں سے بھی امام احمد رحمہ اللہ سری نماز میں فاتحہ پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ (3) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ”التخلیص“ میں اس پر سیرحاصل بحث کرتے ہوئے ائمہ أجلاء سے اس کی صحت نقل کی ہے اور اس کی تائید میں مزید طرق نقل کیے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (التلخیص الجبیر:۱؍۴۲۱، رقم:۳۴۵)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ نافع بن محمود لا يعرف. وقال ابن حبان: " حديثه
معلل " ، كما قال الذهبي. ثم هو مضطرب كما سبق بيانه، وهذا وجه ثان من
وجوه اضطرابه. وبعده ثالث) .
إسناده: حدثنا الربيع (1) بن سليمان الأزْدِيُّ: ثنا عبد الله بن يوسف: ثنا
الهيثم بن حُميْدٍ: أخبرني زيد بن واقد عن مكحول.
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله كلهم ثقات؛ غير نافع بن محمود بن الربيع
الأنصاري، وهو مجهول، كما قال ابن عبد البر. وقال الطحاوي:
" لا يُعْرفُ " - كما في " الجوهر النقي " (2/165) -. وقال الحافظ في
" التقريب " :
" مستور " .
وأما ابن حبان؛ فذكره في " الثقات " - على قاعدته في توثيق المجهولين-!
ولذلك لم يعتدّ به الحافظ، كما أشار إليه بقوله:
" مستور " . وكذلك قال الذهبي:
" لا يُعْرفُ بغير هذا الحديث، ولا هو في " كتاب البخاري " ، و " ابن أبي
حاتم " . ذكره ابن حبان في " الثقات " ، وقال: حديثه معلل " . قال الحافظ في
" التهذيب " :
" تتمة كلامه (يعني: ابن حبان) : ومتن خبره يخالف متن خبر محمود بن
الربيع عن عبادة بن الصامت. كأنهما حديثان. وعند مكحول الخبران جميعاً عن
محمود بن الربيع، وعن نافع بن محمود بن ربيعة. وعند الزهري الخبر عن محمود
ابن الربيع مختصر غيرُ مستقصىً " .
قلت: وحديث الزهري هو الذى تقدم في الكتاب الآخر. وتقدم هنا في
الحديث الذي قبله أنه هو الصواب.
(1) الأصل: (أبو الربيع) ! والتصويب من " البيهقي " وكتب الرجال.
وأما هذا فعلته الجهالة والاضطراب:
أما الجهالة؛ فقد عرفتها.
وأما الاضطراب؛ فقد سبقت الإشارة إليه في الرواية الأولى، ففيها قال
مكحول: عن محمود بن الربيع عن عبادة بن الصامت... وفي هذه قال: عن نافع
ابن محمود بن الربيع عن عبادة... فجعل نافعاً مكان: محمود! وفي الرواية
الآتية قال: عن عبادة... فأسقطهما كليهما من البيْنِ!
والحديث أخرجه البيهقي (2/164) من طريق المصنف.
والدارقطني (121) من طريق أخرى عن عبد الله بن يوسف التنيسِي: ثنا
الهيثم... به.
وتابعه صدقة بن خالد فقال: ثنا زيد بن واقد عن حرامِ بن حكيم ومكحول
عن نافع بن محمود بن ربيعة- كذا قال- أنه سمع عبادة بن الصامت... به.
أخرجه البخاري في " جزء القراءة " (15) ، والنسائي (1/146) ، والدارقطني
(121) ، وعنه البيهقي (2/51) . وقال الدارقطني:
" إسناده حسن، ورجاله ثقات " !
ولم يقع عند النسائي ذكر مكحول في هذه الطريق.
ووقع عند البخاري- مكان نافع بن محمود بن ربيعة-: ربيعة الأنصاري!
فالظاهر أنه سقط من الطابع. " نافع بن محمود بن... " .
أو أنه رواية.
ثم أخرجه الدارقطني من طريق يحيى بن عبد اللّه بن الضحاك: ثنا صدقة عن
زيد بن واقد عن عثمان بن أبي سودة عن نافع بن محمود... به نحوه.
قلت: ويحيى هذا: هو البابْلُتي، وهو ضعيف، فلا يعتد بمخالفته لرواية
الجماعة عن صدقة! فهي المحفوظة عنه، لا سيما وهي موافقة لرواية الهيثم بن حميد،
إلا أن صدقة زاد في السند: حرام بن حكيم- وهو مختلف فيه-، فأورده ابن أبي
حاتم في " كتابه " (1/2/298) ، ولم يذكر فيه جرحاً ولا تعديلاً. وقال العجلي:
" بصري تابعي ثقة " - كما في ترتيبه (رقم 225) -.
ووثقه دحيم أيضاً.
وهو مقتضى قول الدارقطني المتقدم.
وضعفه ابن حزم في " المحلى " . قال الحافظ في " التهذيب " :
" بغير مستند " ، وقال عبد الحق عقب حديثه:
" لا يصح هذا " . وقال في موضع آخر:
" حرامٌ ضعيف " !
فكأنه تبع ابن حزم. وأنكر عليه ذلك ابن القطان الفاسي فقال:
" بل مجهول الحال " . قال الحافظ:
" وليس كما قالوا! [ بل هو ] ثقة، كما قال العجلي وغيره " .
قلت: وعلى كل حال؛ فمتابعة حرام هذه لمكحول مما يقوي روايته هذه، وذلك
يعطي لها الأرجحية على الرواية المتقدمة عن ابن إسحاق عن مكحول عن محمود
ابن الربيع عن عبادة، وتبين أن تابعي الحديث إنما هو نافع بن محمود، وليس
محموداً نفسه.
ونافع مجهول- كما تقدم-، فبقي الحديث على الضعف بسبب؛ جهالة
تابعيِّه.
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک ایسی نماز پڑھائی جس میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”جب میں بلند آواز سے قراءت کروں تو تم میں سے کوئی آدمی سورۂ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) بعض روایات میں ذکر ہے کہ وہ صبح کی نماز تھی۔ آپ پر قراءت ثقیل ہوگئی تو ٓپ نے نماز کے بعد فرمایا: ”شاید تم امام کے پیچھے پڑھتے ہو۔ امام کے پیچھے سوائے فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔“ امام کے پیچھے جہری نماز میں سورۂ فاتحہ ضرور پڑھی جائے ، البتہ اس سے زائد پڑھنا منع ہے۔ اور سری نماز میں سورۂ فاتحہ کے علاوہ بھی پڑھا جاسکتا ہے اگرچہ ضروری نہیں۔ (2) امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں جامع بات یہ ہے کہ پڑھنے کا حکم آیا ہے، منع ثابت نہیں۔ اگر کہیں نہی ہے تو وہ مطلق قراءت، یعنی فاتحہ سے زائد قراءت سے ہے، نہ کہ فاتحہ سے۔ اور اگر کسی میں ہر قراءت سے روکا گیا ہے تو وہ سنداً صحیح نہیں۔ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سورۂ فاتحہ پڑھنے کا حکم مروی ہے۔ صحیح سند کے ساتھ فاتحہ سے ممانعت کسی صحابی سے منقول نہیں بلکہ چھوڑنے کی رخصت بھی نہیں آتی، سوائے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے۔ ان کا قول ہے کہ جو آدمی فاتحہ نہ پڑھے، اس کی نماز نہیں ہوتی مگر یہ کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔ (لیکن یہ قول صحیح احادیث کے خلاف ہے)۔ احناف کے علاوہ باقی مسالک امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کے قائل ہیں۔ احناف میں سے بھی امام احمد رحمہ اللہ سری نماز میں فاتحہ پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ (3) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ”التخلیص“ میں اس پر سیرحاصل بحث کرتے ہوئے ائمہ أجلاء سے اس کی صحت نقل کی ہے اور اس کی تائید میں مزید طرق نقل کیے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (التلخیص الجبیر:۱؍۴۲۱، رقم:۳۴۵)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبادہ بن صامت ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں کچھ نمازیں پڑھائیں جن میں قرآت بلند آواز سے کی جاتی ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب میں بآواز بلند قرآت کروں تو تم میں سے کوئی بھی سورۃ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA): "The Messenger of Allah (ﷺ) finished a prayer in which he recited out loud, then he said: 'Did any one of you recite with me just now'? A man said: 'Yes, O Messenger of Allah'. He said: 'I was wondering what was distracting me in reciting Quran'". So the people stopped reciting in prayers in which the Messenger of Allah (ﷺ) recited out loud when they heard that.