Sunan-nasai:
The Book of the Commencement of the Prayer
(Chapter: Imam saying Amin out loud)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
925.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب پڑھنے والا (امام) آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، چنانچہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی، اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کردیتا ہے۔“
تشریح:
(1) معلوم ہوا امام صاحب آمین اونچی آواز سے کہیں تاکہ دوسرے لوگ بھی کہہ سکیں۔ ابوداود میں صریح اور صحیح روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (وَلاالضّالِّينَ) کہتے تو آمین کہتے اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:۹۳۲) امام شافعی، احمد اور اسحاق رحم اللہ علیہم کا یہی مسلک ہے۔ (2) فرشتوں کی آمین سے ملنے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ایک وقت میں ہوں، لہٰذا تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ امام اور مقتدیوں کی آمین متصل ہونی چاہیے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ”جب امام (غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ولاالْضّالِّينَ) کہے تو تم آمین کہو۔“ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: ۷۸۲، وصحیح مسلم، الصلاة، حدیث:۴۱۰)، البتہ مقتدیوں کو امام کی آواز سن کر آمین شروع کرنی چاہیے، امام سے پہل کرنا درست نہیں۔ (3) بعض حضرات نے [إذا قال الإمامُ: (وَلاالضّالِّينَ)،فقولُوا: آمينَ] سے استدلال کیا ہے کہ سورۂ فاتحہ امام ہی پڑھے گا اور مقتدی صرف آمین کہے گا۔ لیکن یہ استدلال احادیث صحیحہ متواترہ کے خلاف ہے۔ سورۂ فاتحہ کے وجوب کے دلائل بے شمار ہیں جن میں سے بعض کا احاطہ سابقہ احادیث میں بھی ہوچکا ہے، لہٰذا سورۂ فاتحہ نماز کا رکن ہے جس کے بغیر کسی کی کوئی نماز نہیں ہوتی۔ واللہ أعلم۔ (4) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سورۂ فاتحہ کے اختتام پر صرف آمین کہنی چاہیے، اس سے زائد الفاظ کہنا درست نہیں کیونکہ جن روایاتِ آمین میں زائد الفاظ ہیں، وہ روایات ضعیف ہیں: مثلاً : امام بیہقی رحمہ اللہ نے وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، جب آپ نے (غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاالضّالِّينَ) پڑھا تو [ربِّ اغفرْ لي، آمين] کہا۔ (السنن الکبریٰ بیهقي:۲؍۵۸) یہ روایت ابوبکر نبشلی کی وجہ سے ضعیف ہے۔ (۵)اس حدیث میں امامیہ فرقے کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ نماز میں آمین کہنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب پڑھنے والا (امام) آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، چنانچہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی، اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کردیتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) معلوم ہوا امام صاحب آمین اونچی آواز سے کہیں تاکہ دوسرے لوگ بھی کہہ سکیں۔ ابوداود میں صریح اور صحیح روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (وَلاالضّالِّينَ) کہتے تو آمین کہتے اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:۹۳۲) امام شافعی، احمد اور اسحاق رحم اللہ علیہم کا یہی مسلک ہے۔ (2) فرشتوں کی آمین سے ملنے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ایک وقت میں ہوں، لہٰذا تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ امام اور مقتدیوں کی آمین متصل ہونی چاہیے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ”جب امام (غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ولاالْضّالِّينَ) کہے تو تم آمین کہو۔“ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: ۷۸۲، وصحیح مسلم، الصلاة، حدیث:۴۱۰)، البتہ مقتدیوں کو امام کی آواز سن کر آمین شروع کرنی چاہیے، امام سے پہل کرنا درست نہیں۔ (3) بعض حضرات نے [إذا قال الإمامُ: (وَلاالضّالِّينَ)،فقولُوا: آمينَ] سے استدلال کیا ہے کہ سورۂ فاتحہ امام ہی پڑھے گا اور مقتدی صرف آمین کہے گا۔ لیکن یہ استدلال احادیث صحیحہ متواترہ کے خلاف ہے۔ سورۂ فاتحہ کے وجوب کے دلائل بے شمار ہیں جن میں سے بعض کا احاطہ سابقہ احادیث میں بھی ہوچکا ہے، لہٰذا سورۂ فاتحہ نماز کا رکن ہے جس کے بغیر کسی کی کوئی نماز نہیں ہوتی۔ واللہ أعلم۔ (4) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سورۂ فاتحہ کے اختتام پر صرف آمین کہنی چاہیے، اس سے زائد الفاظ کہنا درست نہیں کیونکہ جن روایاتِ آمین میں زائد الفاظ ہیں، وہ روایات ضعیف ہیں: مثلاً : امام بیہقی رحمہ اللہ نے وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، جب آپ نے (غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاالضّالِّينَ) پڑھا تو [ربِّ اغفرْ لي، آمين] کہا۔ (السنن الکبریٰ بیهقي:۲؍۵۸) یہ روایت ابوبکر نبشلی کی وجہ سے ضعیف ہے۔ (۵)اس حدیث میں امامیہ فرقے کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ نماز میں آمین کہنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب قاری (امام) آمین کہے، تو تم بھی آمین کہو کیونکہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں، جس کا آمین کہنا فرشتوں کے آمین کہنے کے موافق ہو جائے۱؎ گا تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ بخش دے گا۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس سے مؤلف نے امام کے بلند آواز سے آمین کہنے پر استدلال کیا ہے، کیونکہ اگر امام آہستہ آمین کہے گا تو مقتدیوں کو امام کے آمین کہنے کا علم نہیں ہو سکے گا، اور جب انہیں اس کا علم نہیں ہو سکے گا تو ان سے امام کے آمین کہنے کے وقت آمین کہنے کا مطالبہ درست نہ ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn Abi Awfa (RA) said: "A man came to the Prophet Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم)and said: 'I cannot learn anything of the Qur'an; teach me something that I can say instead of reciting the Quran'. He said: 'Say: Subhan Allah, wal-hamdulilah, wa la ilaha ill-Allah, wa Allahu Akbar, wa la hawla wa la quwwata illa Billahil-aliy al-azim (Glory be to Allah, praise be to Allah, there is none worthy of worship except Allah, Allah is Most Great, and there is no power and no strength except with Allah the Exalted and Magnificent )'".