Sunan-nasai:
The Book of the Commencement of the Prayer
(Chapter: Collection of what was narrated concerning the Quran)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
936.
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے منقول ہے کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام کو سورۂ فرقان پڑھتے سنا۔ انھوں نے اس میں کچھ ایسے الفاظ پڑھے جو اللہ کے نبی ﷺ نے مجھے نہیں سکھلائے تھے۔ میں نے کہا: تمھیں کس نے یہ سورت پڑھائی ہے؟ انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے۔ میں نے کہا: تم غلط کہتے ہو۔ اللہ کے رسول ﷺ نے تمھیں اس طرح نہیں پڑھائی۔ میں ان کا ہاتھ پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس لےگیا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے مجھے سورۂ فرقان پڑھائی ہے اور میں نے انھیں اس سورت میں ایسے الفاظ پڑھتے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے؟ آپ نے فرمایا: ”اے ہشام! پڑھو۔“ انھوں نے پڑھا جس طرح پہلے پڑھا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسی طرح اتاری گئی ہے۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”اے عمر! تم پڑھو۔“ میں نے پڑھا تو آپ نے فرمایا: ”اسی طرح اتاری گئی ہے۔“ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قرآن مجید سات قراءت پر اتارا گیا ہے۔“
تشریح:
(۱)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے [سَبْعَةِ أَحْرُفٍ] کی تشریح میں مختلف اقوال نقل کیے ہیں اور ان پر وارد ہونے والے اعتراضات و اشکالات پیش کرکے ان اقوال کی تردید کی ہے، پھر ترجیح دیتے ہوئے امام ابن قتیبہ اور امام ابوالفضل رازی رحمہا اللہ کے اقوال نقل کیے ہیں اور کہا ہے کہ امام رازی نے امام ابن قتیبہ ہی کی بات کو مزید نکھار کر پیش کیا ہے۔ ہم طوالت کے ڈر سے یہاں صرف راجح قول ہی ذکر کرتے ہیں جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں نقل کیا ہے۔ امام ابن قتیبہ اور امام رازی کے نزدیک حدیث میں حروف کے اختلاف سے مراد قراءت کا اختلاف ہے۔ اور سات حروف سے مراد اختلاف قراءت کی سات توعیتیں ہیں، چنانچہ قراءتیں اگرچہ سات سے زائد ہیں لیکن ان قراءتوں میں جو اختلافات پائے جاتے ہیں، وہ سات اقسام میں منحصر ہے: (1) اسماء کا اختلاف: جس میں افراد، تثنیہ، جمع اور تذکیر و تانیث دونوں کا اختلاف داخل ہے، مثلاً: ایک قراءت میں ہے: ﴿تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ﴾ اور دوسری میں ہے: ﴿تَمَّتْ كَلِمَاتُ رَبِّكَ﴾ (2) افعال کا اختلاف کہ کسی قراءت میں صیغۂ ماضی ہو، کسی میں مضارع اور کسی میں امر، جیسے ایک قراءت کے مطابق ﴿رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا﴾ اور دوسری میں ﴿رَبَّنَا بَعِّدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا﴾ ہے۔ (3) وجوہ اعراب کا اختلاف: جس میں حرکات و سکنات مختلف قراءتوں میں مختلف ہوں، مثلاً: ﴿وَلا يُضَارَّ كَاتِبٌ﴾ اور ﴿وَلا يُضَارُّ كَاتِبٌ﴾ اور ﴿ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ) دوسری قراءت میں ہے: ﴿ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدِ﴾ (4) الفاظ کی کمی بیشی کا اختلاف: ایک قراءت میں کوئی لفظ کم اور دوسری میں زیادہ ہو، مثلاً: ایک قراءت میں ﴿وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالأنْثَى﴾ اور دوسری میں ﴿وَالذَّكَرَ وَالأنْثَى﴾ ہے۔ اس میں لفظ ﴿وَمَا خَلَقَ﴾ نہیں ہے۔ اسی طرح ایک قراءت میں ہے: ﴿تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهَارُ﴾ اور دوسری میں ﴿تَجْرِي تَحْتَهَا الأنْهَارُ﴾ ہے۔ (5) تقدیم و تاخیر کا اختلاف: یعنی ایک قراءت میں کوئی لفظ مقدم اور دوسری میں مؤخر ہو، مثلاً: ﴿وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ﴾ اور دوسری میں ﴿وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْحَقِّ بِالْمَوْتِ﴾ ہے۔ (6) بدلیت کا اختلاف، یعنی ایک قراءت میں ایک لفظ اور دوسری میں اس کی جگہ دوسرا لفظ ہو، مثلاً: ﴿نُنْشِزها﴾ اور اس کی جگہ دوسری قراءت میں ﴿نُنْشِرها﴾ ہے، نیز ﴿فَتَبَيَّنُوا﴾ کی جگہ ﴿فتئبتوا﴾ اور ﴿طَلْحٍ مَنْضُودٍ﴾ کی جگہ ﴿طَلْع مَنْضُودٍ﴾ (7) لہجوں کا اختلاف: جس میں تفخیم، ترقیق، امالہ، قصر، مد، ہمزہ، اظہار اور ادغام وغیرہ کے اختلاف شامل ہیں۔ محقق ابن جزری، امام مالک اور قاضی باقلانی رحمہم اللہ بھی اس سے متفق ہیں۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري: ۳۹-۳۴/۹، تحت حدیث: ۴۹۹۲، واصول تفسیر (اردو)، ص:۸۷-۸۱، مطبوعة دارالسلام) (2) خطا (غلطی) پرکذب (جھوٹ) کا اطلاق کرنا جائز ہے۔ بعض لوگوں نے مندرجہ بالا حقیقت نہ سمجھنے کی وجہ سے اس قسم کی روایات کا انکار کیا ہے کہ اس سے قرآن مجید شکوک و شبہات کا شکار ہوتا ہے، حالانکہ مختلف علاقوں اور قبائل کے لہجے وغیرہ کا اختلاف ایک بدیہی چیز ہے، اس سے اصل کلام میں فرق نہیں پڑتا جس طرح غیر زبانوں میں قرآن مجید کے مختلف تراجم سے قرآن مجید کی بابت کوئی شبہ پیدا نہیں ہوتا۔
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے منقول ہے کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام کو سورۂ فرقان پڑھتے سنا۔ انھوں نے اس میں کچھ ایسے الفاظ پڑھے جو اللہ کے نبی ﷺ نے مجھے نہیں سکھلائے تھے۔ میں نے کہا: تمھیں کس نے یہ سورت پڑھائی ہے؟ انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے۔ میں نے کہا: تم غلط کہتے ہو۔ اللہ کے رسول ﷺ نے تمھیں اس طرح نہیں پڑھائی۔ میں ان کا ہاتھ پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس لےگیا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے مجھے سورۂ فرقان پڑھائی ہے اور میں نے انھیں اس سورت میں ایسے الفاظ پڑھتے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے؟ آپ نے فرمایا: ”اے ہشام! پڑھو۔“ انھوں نے پڑھا جس طرح پہلے پڑھا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اسی طرح اتاری گئی ہے۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”اے عمر! تم پڑھو۔“ میں نے پڑھا تو آپ نے فرمایا: ”اسی طرح اتاری گئی ہے۔“ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قرآن مجید سات قراءت پر اتارا گیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(۱)حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے [سَبْعَةِ أَحْرُفٍ] کی تشریح میں مختلف اقوال نقل کیے ہیں اور ان پر وارد ہونے والے اعتراضات و اشکالات پیش کرکے ان اقوال کی تردید کی ہے، پھر ترجیح دیتے ہوئے امام ابن قتیبہ اور امام ابوالفضل رازی رحمہا اللہ کے اقوال نقل کیے ہیں اور کہا ہے کہ امام رازی نے امام ابن قتیبہ ہی کی بات کو مزید نکھار کر پیش کیا ہے۔ ہم طوالت کے ڈر سے یہاں صرف راجح قول ہی ذکر کرتے ہیں جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں نقل کیا ہے۔ امام ابن قتیبہ اور امام رازی کے نزدیک حدیث میں حروف کے اختلاف سے مراد قراءت کا اختلاف ہے۔ اور سات حروف سے مراد اختلاف قراءت کی سات توعیتیں ہیں، چنانچہ قراءتیں اگرچہ سات سے زائد ہیں لیکن ان قراءتوں میں جو اختلافات پائے جاتے ہیں، وہ سات اقسام میں منحصر ہے: (1) اسماء کا اختلاف: جس میں افراد، تثنیہ، جمع اور تذکیر و تانیث دونوں کا اختلاف داخل ہے، مثلاً: ایک قراءت میں ہے: ﴿تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ﴾ اور دوسری میں ہے: ﴿تَمَّتْ كَلِمَاتُ رَبِّكَ﴾ (2) افعال کا اختلاف کہ کسی قراءت میں صیغۂ ماضی ہو، کسی میں مضارع اور کسی میں امر، جیسے ایک قراءت کے مطابق ﴿رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا﴾ اور دوسری میں ﴿رَبَّنَا بَعِّدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا﴾ ہے۔ (3) وجوہ اعراب کا اختلاف: جس میں حرکات و سکنات مختلف قراءتوں میں مختلف ہوں، مثلاً: ﴿وَلا يُضَارَّ كَاتِبٌ﴾ اور ﴿وَلا يُضَارُّ كَاتِبٌ﴾ اور ﴿ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ) دوسری قراءت میں ہے: ﴿ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدِ﴾ (4) الفاظ کی کمی بیشی کا اختلاف: ایک قراءت میں کوئی لفظ کم اور دوسری میں زیادہ ہو، مثلاً: ایک قراءت میں ﴿وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالأنْثَى﴾ اور دوسری میں ﴿وَالذَّكَرَ وَالأنْثَى﴾ ہے۔ اس میں لفظ ﴿وَمَا خَلَقَ﴾ نہیں ہے۔ اسی طرح ایک قراءت میں ہے: ﴿تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهَارُ﴾ اور دوسری میں ﴿تَجْرِي تَحْتَهَا الأنْهَارُ﴾ ہے۔ (5) تقدیم و تاخیر کا اختلاف: یعنی ایک قراءت میں کوئی لفظ مقدم اور دوسری میں مؤخر ہو، مثلاً: ﴿وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ﴾ اور دوسری میں ﴿وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْحَقِّ بِالْمَوْتِ﴾ ہے۔ (6) بدلیت کا اختلاف، یعنی ایک قراءت میں ایک لفظ اور دوسری میں اس کی جگہ دوسرا لفظ ہو، مثلاً: ﴿نُنْشِزها﴾ اور اس کی جگہ دوسری قراءت میں ﴿نُنْشِرها﴾ ہے، نیز ﴿فَتَبَيَّنُوا﴾ کی جگہ ﴿فتئبتوا﴾ اور ﴿طَلْحٍ مَنْضُودٍ﴾ کی جگہ ﴿طَلْع مَنْضُودٍ﴾ (7) لہجوں کا اختلاف: جس میں تفخیم، ترقیق، امالہ، قصر، مد، ہمزہ، اظہار اور ادغام وغیرہ کے اختلاف شامل ہیں۔ محقق ابن جزری، امام مالک اور قاضی باقلانی رحمہم اللہ بھی اس سے متفق ہیں۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري: ۳۹-۳۴/۹، تحت حدیث: ۴۹۹۲، واصول تفسیر (اردو)، ص:۸۷-۸۱، مطبوعة دارالسلام) (2) خطا (غلطی) پرکذب (جھوٹ) کا اطلاق کرنا جائز ہے۔ بعض لوگوں نے مندرجہ بالا حقیقت نہ سمجھنے کی وجہ سے اس قسم کی روایات کا انکار کیا ہے کہ اس سے قرآن مجید شکوک و شبہات کا شکار ہوتا ہے، حالانکہ مختلف علاقوں اور قبائل کے لہجے وغیرہ کا اختلاف ایک بدیہی چیز ہے، اس سے اصل کلام میں فرق نہیں پڑتا جس طرح غیر زبانوں میں قرآن مجید کے مختلف تراجم سے قرآن مجید کی بابت کوئی شبہ پیدا نہیں ہوتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمر بن خطاب ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام ؓ کو سورۃ الفرقان پڑھتے سنا، انہوں نے اس میں کچھ الفاظ اس طرح پڑھے کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے اس طرح نہیں پڑھائے تھے تو میں نے پوچھا: یہ سورت آپ کو کس نے پڑھائی ہے؟ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے، میں نے کہا: آپ غلط کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے آپ کو اس طرح کبھی نہیں پڑھائی ہو گی! چنانچہ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا، اور انہیں کھینچ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گیا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے مجھے سورۃ الفرقان پڑھائی ہے، اور میں نے انہیں اس میں کچھ ایسے الفاظ پڑھتے سنا ہے جو آپ نے مجھے نہیں پڑھائے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا : ”ہشام ! ذرا پڑھو تو“ ، تو انہوں نے ویسے ہی پڑھا جس طرح پہلے پڑھا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ سورت اسی طرح اتری ہے“ ، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”عمر! اب تم پڑھو تو“ ، تو میں نے پڑھا، تب بھی آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسی طرح اتری ہے “ ، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”قرآن سات حرفوں پر نازل کیا گیا ہے۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس کی تفسیر میں امام سیوطی نے الاتقان میں (۳۰) سے زائد اقوال نقل کئے ہیں جس میں ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد سات مشہور لغات ہیں، بعضوں نے کہا اس سے مراد سات لہجے ہیں جو عربوں کے مختلف قبائل میں مروج تھے، اور بعضوں نے کہا کہ اس سے مراد سات مشہور قراتیں ہیں جنہیں قرات سبعہ کہا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Ibn 'Abbas (RA) said: Concerning the saying of Allah, the Mighty and Sublime: "Move not your tongue concerning to make haste therewith. It is for Us to collect it and to give you the ability to recite it. "The Prophet Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم)used to suffer a great deal of hardship when the Revelation came to him, and he used to move his lips. Allah said: Move not your tongue concerning to make haste therewith. It is for Us to collect it and to give you the ability to recite it". He said: " (This means) He will gather it in your heart, then you will recite it", And when We have recited it to you, then follow the recitation. He said: "So listen to it and remain silent. So when Jibril came to him, the Messenger of Allah (ﷺ) listened, and when he left, he would recite it as he had taught him".