تشریح:
(1) قرآن مجید میں بعض آیات ایسی آتی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی فرمانبرداری اور ان کے سجدہ کرنے کا ذکر ہے یا ان میں تکبر کی مذمت کی گئی ہے یا اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی، بندگی اور سجدے کی تعریف کی گئی ہے یا ان میں سجدے کا حکم ہے۔ ان آیات کو پڑھتے وقت ایک مومن شخص بے ساختہ سجدے میں گر پڑتا ہے۔ انھیں سجدے کی آیات کہا جاتا ہے اور اس سجدے کو سجدۂ تلاوت کہتے ہیں۔ اگر قاری سجدے کی استطاعت رکھتا ہو تو اسے سجدہ کرنا چاہیے، ویسے نہ گزر جائے۔ اگر سجدہ کرنے کی حالت میں نہیں تو سر جھکا لے اور اشارے سے سجدہ کرے، مثلاً: سائیکل یا گاڑی چلانے والا۔ نیچے اتر کر سجدہ کرنا ممکن ہو تو کیا ہی بات ہے۔ اگر کوئی شخص قراءت کر رہا ہو اور اس کے لیے سجدے کی استطاعت ہو، تو وہ بھی سجدہ کرے۔ سجدۂ تلاوت مستحب ہے۔ اور افضل یہ ہے کہ اسے ترک نہ کیا جائے۔ سجدۂ تلاوت کے تفصیلی احکام و مسائل کے لیے دیکھیے: (سنن ابوداود (اردو) سجود القرآن، کا ابتدائیہ، طبع دارالسلام، و ذخیرة العقبی شرح سنن النسائي: ۱۹۶-۱۹۰/۱۲)
(2) سورۂ صٓ کا سجدہ امام شافعی رحمہ اللہ تسلیم نہیں کرتے کیونکہ وہاں آیت میں سجدے کا لفظ ہی نہیں، بس یہ الفاظ ہیں: ﴿خَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ﴾ (ص:۲۴:۳۸) جبکہ دیگر اہل علم اس سجدے کے قائل ہیں کیونکہ یہاں معنی تو سجدے ہی کا ہے اگرچہ لفظ (رَاكِعًا) کے ہیں۔ امام مالک بھی امام شافعی کے ہم نوا ہیں۔
(3) حضرت داود علیہ السلام سے کوئی (اجتہادی) غلطی ہوگئی تھی جس کی تفصیل قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں نہیں ہے، لہٰذا ہمیں بھی اس کی کرید نہیں کرنی چاہیے۔ جب انھیں غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے بطور توبہ سجدہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی تو اس کے شکرانے کے طور پر ہم سجدہ کرتے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن، وصححه ابن حبان والحاكم والذهبي) .
إسناده: حدثنا إسحاق بن إسماعيل: ثنا سفيان عن ابن عَجْلان عن عياضِ
ابن عبد الله بن سعد سمع أبا سعيد الخدري يقول.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات؛ على ضعف يسير في محمد
ابن عجلان، وقد أخرج له مسلم مقروناً.
وسفيان: هو ابن عيينة.
وإسحاق: هو الطالْقَانِي.
والحديث أخرجه الحميدي في "مسنده " (741) ، وعنه الحاكم (1/413) : ثنا
سفيان... به مطولاً.
وأخرجه النسائي (1/351) ، وابن حبان (840) من طريق أخرى عن ابن
عجلان... به. وقال الحاكم:
" صحيح على شرط مسلم "! ووافقه الذهبي!