تشریح:
(1) فرض نماز چونکہ ہر شخص نے پڑھنی ہوتی ہے، اس لیے امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز میں تخفیف کو ملحوظ خاطر رکھے مگر رکوع و سجود جو نماز کی جان ہیں، سکون و اطمینان سے ادا کرے۔ ان میں کمی نہ کرے، البتہ قراءت اور ادعیہ مختصر کرے جس سے قیام اور قعدہ مختصر ہو جائیں۔ نماز ہلکی بھی ہو جائے گی اور مکمل بھی۔
(2) یہ حدیث شریف حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی عظیم منقبت، جلالت شان اور اعلیٰ و ارفع عظمت پر دلالت کرتی ہے۔ وہ اس طرح کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص تھے اور انھوں نے دس برس تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نمازیں ادا کیں، وہ فرما رہے ہیں کہ میں نے کسی ایسے امام کی اقتدا نہیں کی جس کی نماز ان (حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ) کی نماز سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہو، حالانکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے تمام خلفائے راشدین کی اقتدا میں بھی نمازیں پڑھی ہیں لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے متعلق ان کے جذبات اور احساسات اپنے اندر عجیب قسم کی خوبصورتی، کشش اور وزن رکھتے ہیں۔ اللھم اجعلنا من عبادك الصالحین (آمین)
(3) حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفہ تھے جو بنو امیہ کے دیگر خلفاء سے بہت مختلف تھے۔ اللہ کے ڈر، بے غرضی، امانت و دیانت، احساس ذمہ داری، جواب دہی، اور علم دوستی میں اس قدر مشہور ہوئے کہ انھیں ”عمر ثانی“ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایسی بے مثال عادلانہ حکومت کی کہ خلافت راشدہ کے سوا کوئی حکومت ان کی ہم پلہ نہیں۔ رحمه اللہ رحمة واسعة